برما کے سرکاری حکام اورمسلمانوں کا قتل عام

میانمار میں فوجی آمریت ختم ہونے کے بعد جو نیم سیاسی حکومت قائم کی گئی اس نے کئی پہلوئوں میں اصلاحات کی ہیں

سیکیورٹی فورسزپہلےروہنگیامسلمانوں کوغیرمسلح کرتی رہیں اورپھران نہتےلوگوں کو مسلح حملہ آوروں کے رحم و کرم پرچھوڑدیاگیا، فوٹو رائٹرز

شاعر مشرق نے سو سال قبل مسلمانوں کی تقدیر کا شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر'' اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے نقشے میں ظلم و ستم اور سب و شتم کا سب سے زیادہ شکار بے چارے مسلمان ہی ہیں، خواہ وہ فلسطین و کشمیر کے مظلوم مسلمان ہوں خواہ بوسنیا ہرزگونیا کے مسلمان خواہ نریندر مودی کی ریاست گجرات کاٹھیا وار کے گجراتی مسلمان ہوں جنھیں ریاستی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی مبینہ ہدایت پر برسر عام موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اب میانمار (سابقہ نام برما) جس کی دور جدید میں وجہ شہرت اس کی دھان پان خاتون لیڈر آن سانگ سو چی ہے جس کی قید و بند میں جمہوریت کے لیے جدوجہد نے اقوام عالم میں تحسین کا خراج لیا۔

مگر اس ملک میں مسلمانوں کی جو اقلیت مقیم ہے ان پر مختلف عناصر کی طرف سے خون آشام حملے کرائے جا رہے ہیں اور یہ سب حکام کی عین آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے مگر کوئی روکنے والا نہیں۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے نیو یارک سے خبر دی ہے کہ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ''ہیومن رائٹس واچ'' (ایچ آر ڈبلیو) کی رپورٹ کے مطابق میانمار کے حکام مغربی ریاست راکھینی میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے بودھ بھکشوئوں اور دیگر عناصر کو باقاعدہ تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ دوسری طرف برما کی حکومت نے ہیومن رائٹس واچ کے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے یہ یکطرفہ رائے ہے جس کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔


ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز پہلے روہنگیا مسلمانوں کو غیر مسلح کرتی رہیں اور پھر ان نہتے لوگوں کو مسلح حملہ آوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ میانمار کی سیکیورٹی فورسزبلوائیوں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کو بے بسی سے قتل ہوتا دیکھتی رہیں یا کہیں کہیں خود بھی قاتلوں کے ساتھ شامل ہو گئیں اور اس طرح مسلمانوں کی ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ نیو یارک میں قائم ایچ آر ڈبلیو کے مطابق جون اور اکتوبر2012 میں بلوائیوں کے ہجوم نے مسلمانوں کو عورتوں بچوں سمیت بھاری تعداد میں ہلاک کر دیا۔

میانمار میں فوجی آمریت ختم ہونے کے بعد جو نیم سیاسی حکومت قائم کی گئی اس نے کئی پہلوئوں میں اصلاحات کی ہیں، زیادہ اصلاحات سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں کی گئی ہیں، ان اصلاحات کا مقصد مغربی ممالک سے میانمار پر عائد معاشی پابندیاں ختم کرانا تھا۔ نیم سویلین حکومت نے جو مارچ 2011 میں قائم ہوئی تھی اس نے بالآخر مغربی ممالک کو پابندیاں ختم کرانے پر رضا مند کر لیا لیکن اندرون ملک مسلم اقلیت کی جان و مال کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے آبائی ٹھکانوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔اس رپورٹ کے بعد عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
Load Next Story