پلوٹو کا ’جانشین‘ دریافت ہونے کے امکانات قوی

نظام شمسی کے اندر اور باہر اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔

نظام شمسی کے اندر اور باہر اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ فوٹو : فائل

2006ء تک نظام شمسی سورج سمیت دس اجرام فلکی پر مشتمل تھا۔ نظام شمسی کے اراکین میں سورج کے علاوہ نو سیارے عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نیپچون اور پلوٹو شامل تھے۔

بارہ سال قبل سائنس داں برادری نے ' سیارے' کی نئی تعریف متعین کی۔ نظام شمسی کا بعید ترین سیارہ پلوٹو تعریف پر پورا نہ اترسکا اور اسے اس نظام سے نکال باہر کردیا گیا۔ نئی تعریف کے مطابق سیارہ ایک فلکیاتی جسم ہے جو سورج کے گرد اپنے ایک مخصوص مدار میں گھومتا ہے۔ اس کی ایک مناسب کمیت اور اپنی کششِ ثقل ہوتی ہے اور اس کی شکل و صورت تقریباً کروی ہوتی ہے۔ سیارے کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے قریبی سیاروں کے مداروں میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ پلوٹو آخری شرط پر پورا نہیں اترتا تھا۔ چناں چہ اس سے سیارے کا درجہ واپس لے کر ' بونا سیارہ' ( dwarf planet) کے زمرے میں دھکیل دیا گیا۔

نظام شمسی کے اندر اور باہر اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ انھی کوششوں کے دوران دو سال قبل ماہرین فلکیات نے پلوٹو سے بھی پرے ایک فلکیاتی جسم کا سراغ لگایا تھا۔ تاہم وہ اس بارے میں پُریقین نہیں تھے کہ آیا یہ سیارہ ہے یا خلا میں تیرتا کوئی اور جرم فلکی۔ اس دریافت سے سائنس دانوں کو پلوٹو کے اخراج سے خالی ہونے والی جگہ پُر ہونے کی امید ہوچلی تھی اسی لیے اس پُراسرار جرم فلکی کی حقیقت جاننے پر خصوصی توجہ دی جارہی تھی۔



اس پُراسرار جرم فلکی کے بارے میں سائنس دانوں نے مزید معلومات حاصل کی ہیں جس کے بعد نظام شمسی میں نویں سیارے کی موجودگی کا نظریہ قوی ہوگیا ہے۔ پلوٹو کے ' جانشین' کی موجودگی کا تصور دو سال قبل کیلے فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے پیش کیا تھا۔ اس تصور کی بنیاد نظام شمسی کے آخری سرے پر برفانی اجسام کی دریافت پر تھی جو بیضوی مدار میں محوگردش تھے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان برفانی اجسام کے مدار کا بیضوی ہونا کسی سیارے کی کشش کا نتیجہ تھا جو نظام شمسی کا نواں سیارہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ہنوز اسرار کے پردے میں لپٹے ہوئے مبینہ نویں سیارے کے بارے میں مشی گن یونی ورسٹی کے ماہرین کے گروپ نے نئی معلومات حاصل کی ہیں۔ ان معلومات کے مطابق مبینہ سیارہ چٹانی ہے۔ اسے ماہرین نے 2015 BP519 کا نام دیا ہے۔ اس جرم فلکی میں سائنس دانوں کی دل چسپی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ اس کا مدار اس مستوی کی مخالف سمت میں غیرمعمولی طور پر جھکا ہوا تھا جس میں سورج کے گردش کرنے والے بیشتر اجرام فلکی پائے جاتے ہیں۔

سائنس دانوں نے کمپیوٹر سمولیشنز کی مدد سے جاننے کی کوشش کی کہ یہ غیرمعمولی خط حرکت کیسے تشکیل پایا ہوگا۔ کمپیوٹر پروگرام جس میں نظام شمسی آٹھ سیاروں پر مشتمل تھا، نے 2015 BP519 کا خمدار مدار ظاہر نہیں کیا۔ تاہم جب نظام شمسی میں ایک سیارے کا اضافہ کیا گیا تو پھر کمپیوٹر سمولیشن میں یہ خمدار مدار ظاہر ہوگیا۔ تاہم اس پیش رفت کے باوجود سائنس داں نویں سیارے کی موجودگی کے بارے میں پُریقین نہیں ہیں البتہ اس کے امکانات ضرور بڑھ گئے ہیں۔ مشی گن یونی ورسٹی کے ماہر فلکیات پروفیسر ڈیوڈ گرڈیز کہتے ہیں کہ کمپیوٹر سمولیشن میں خمدار مدار کا ظاہر ہونا ' پلینیٹ نائن' کے وجود کا ثبوت نہیں ہے البتہ اس سے پلوٹو کے جانشین کے بارے میں پائے جانے والے نظریے کو تقویت ضرور ملی ہے۔

کچھ سبزیوں اور پھلوں میں سے بجلی کیوں گزرتی ہے؟

اگر آپ کو سائنسی میلوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں دو تجربات کا لازماً آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا۔ لاوا اُگلتا کاغذی آتش فشاں اور اچار یا آلو سے بنی برقی بیٹری۔ کئی لوگ یقیناً سوچتے ہوں گے کہ ایک سادہ سی سبزی میں سے بجلی کیسے گزر جاتی ہے۔

جن اشیاء میں سے بجلی گزرسکتی ہے انھیں موصل کہا جاتا ہے۔ برقی موصل کئی طرح کے ہوتے ہیں، مثلاً تانبے اور چاندی کی تاریں، جو گھروں اور عمارات میں بجلی کی ترسیل میں استعمال ہوتی ہیں۔ پھر آیونی موصل ہوتے ہیں جو آزاد آیونوں کے ذریعے بجلی کا انتقال کرتے ہیں۔ سائنسی نمائشوں میں رکھے گئے تجربات میں آلو دراصل آیونی موصل کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی کام انسانی جسم کی بافتیں بھی کرسکتی ہیں۔ ان تمام اشیاء میں برق پاشیدے برقی رَو کا ایصال کرتے ہیں۔ برق پاشیدے وہ کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو پانی میں حل ہونے پر آیون تشکیل دیتے ہیں۔



نمک کے محلول میں سے برقی رَو گزر جاتی ہے کیوں کہ نمک کو پانی میں حل کرنے پر برق پاشیدگی کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ محلول میں آیون بن جاتے ہیں جو برقی سرکٹ کو مکمل کرتے ہیں یعنی بجلی کا انتقال کرتے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں بھی کچھ یہی معاملہ ہوتا ہے۔

آیونی موصل میں مثبت اور منفی چارج ہوتے ہیں، جنھیں باردار آیون کہا جاتا ہے۔ وولٹیج سے رابطے میں آنے پر یہ آزادانہ حرکت کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کھانے کے نمک کو پانی میں حل کیا جاتا ہے تو سوڈیم (Na+) اور کلورائیڈ (Cl-)، جن پر مخالف چارج ہوتا ہے آیونی محلول بناتے ہیں۔ یہ آیونی محلول برق پاشیدے کہلاتے ہیں اور ہر جان دار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، تیکنیکی طور پر ہر پھل یا سبزی آیونی موصل بن سکتی ہے لیکن کچھ سبزیاں یا پھل زیادہ اچھے موصل ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نمک کا محلول یا نلکے کا پانی تقطیرشدہ ( فلٹرڈ) پانی کی نسبت بہتر موصل ہوتے ہیں۔

کوئی بھی پھل یا سبزی جس میں بڑی تعداد میں سپرکنڈکٹیو آیون جیسے پوٹاشیم اور سوڈیم موجود ہوں اور اس کی اندرونی ساخت ایصال برق کے لیے موزوں ہو، اسے برقی بیٹری کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آلو، جس کی اندرونی ساخت یکساں ہوتی ہے، اور اچار جس میں سوڈیم اور تیزابیت کی بلند سطح پائی جاتی ہے، اس نوع کے پھل اور سبزیوں کی عمدہ مثالیں ہیں۔ آلو سے بجلی کے انتقال کو بہتر بنانے کے لیے آلو کو نمک کے پانی میں ڈبویا بھی جاسکتا ہے۔

آلو کی نسبت ٹماٹر کی اندرونی ساخت غیرمنظم اور مختلف حصوں (بیج، ریشے، گودا وغیرہ) میں منقسم ہوتی ہے۔ اسی نارنگی میں اگرچہ پوٹاشیم کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے مگر یہ بھی ایک اچھی برقی بیٹری کے طور پر کام نہیں کرپائے گی، کیوں کہ اس کی اندرونی ساخت ہموار نہیں ہوتی۔ گودا مختلف حصوں ( قاشوں) میں بٹا ہوتا ہے، جو کرنٹ کے بہاؤں میں رکاوٹ بنتا ہے۔


یہاں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا آلو کی بیٹری سے اتنی بجلی حاصل ہوسکتی ہے کہ سیل فون چارج ہوسکے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ آلو کی بیٹی صرف 1.2 وولٹ برقی رو پیدا کرسکتی ہے۔ اگر آپ موبائل فون کو چارج کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو آلو کی بہت سی بیٹریاں بنانی ہوں گی لیکن اس قدر بکھیڑے میں پڑنے سے بہتر ہے کہ چارجر سے فون چارج کرلیا جائے !

مواصلاتی ٹیکنالوجی جنگلی حیات کے لیے خطرہ
5G کی لانچ کے بعد صورت حال سنگین تر ہوجانے کا خدشہ

کرۂ ارض پر زندگی کا پہیہ اب مواصلاتی نظام کے سہارے رواں رہتا ہے۔ وائی فائی، ٹوجی، تھری جی، فور جی، راڈار، اور پاور لائنز پر مشتمل مواصلاتی نظام میں خلل واقع ہوجائے تو گردش دوراں گویا تھم سی جائے گی، زندگی کی نبض رُک جائے گی، سماجی، معاشی، تجارتی، تفریحی غرض ہر قسم کی سرگرمیاں معطل ہوجائیں گی۔ چناں چہ یہ مواصلاتی نظام سطح ارض پر زندگی کو رواں رکھنے میں بنیادی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔

دوسری جانب یہ نظام حیوانی اور نباتاتی زندگی کے لیے خطرہ بھی بنتا جارہا ہے۔ پودوں، کیڑے مکوڑوں، پرندوں، چوپایوں اور دوسرے جانوروں کو اس سے خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس کی نشان دہی ایک تحقیقی رپورٹ میں کی گئی ہے۔

ایک عالمی ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ میں مواصلاتی نظام سے جڑے آلات سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی تاب کاری کے جنگلی حیات پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس موضوع پر ماضی میں تحقیق ہوتی رہی ہے تاہم ستانوے صفحات پر مشتمل تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ تاب کاری سے جنگلی حیات کو خطرات کی سنگینی قبل ازیں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تاب کاری پرندوں اور حشرات کی، سمت کا اندازہ کرنے کی صلاحیت اور حرکت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس سے نباتات کی تحولی یا میٹابولک صحت بھی متأثر ہوتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فور جی کے بعد اب دنیا بھر میں فائیو جی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے عام ہوجانے کے بعد برقناطیسی تاب کاری سے جنگی حیات کو لاحق خطرات سنگین تر ہوجائیں گے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے اس ضمن میں آواز بلند کرتے رہے ہیں مگر ترقی کے پیچھے بھاگتی اقوام اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں۔ اس حقیقت کو انسان نظر انداز کررہا ہے کہ اگر ماحولیاتی توازن بگڑ گیا، جس کا آغاز ہو بھی چکا ہے تو کیا وہ باقی رہ پائے گا؟

مختلف عوامل کے باعث کرۂ ارض سے متعدد جنگلی اور نباتاتی انواع معدوم ہوچکی ہیں، بہت سی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور بہت سی انواع کو مستقبل میں اس خطرے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ذیل کی سطور میں اس حوالے سے صورت حال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔



٭ فقاریہ یعنی ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی دو انواع ہر سال صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ گذشتہ صدی سے یہ رجحان چلا آرہا ہے۔

٭ دورحاضر میں جل تھلیوں (پانی اور خشکی پر دونوں پر رہنے والے جانور) کی 41 فی صد انواع اور ممالیہ کی چوتھائی سے زیادہ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

٭ ایک تخمینے کے مطابق زمین پر حیوانات اور نباتات کی آٹھ کروڑ ستّر لاکھ اقسام پائی جاتی ہیں۔ خشکی کی 86 فی صد اور پانی کی91 فی صد جان دار انواع اب تک دریافت نہیں ہوپائیں۔

٭ جو جان دار انواع اب تک دریافت ہوئی ہیں، ان میں سے ممالیہ کی 1204، پرندوں کی 1469، خزندوں (رینگنے والے جانور) کی 1215، جل تھلیوں کی 2100 ، مچھلیوں کی 2386 انواع خطرے کی زد میں ہیں۔

٭ حشرات کی 1414، بے ریڑھ صدفیوں کی 2187، خول دار کی 732، گھونگھوں کی 237، پودوں کی 12505، کھمبیوں کی 33 اور بھوری الجی کی 6انواع مستقبل میں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔

٭ زیرمطالعہ ریڑھ کی ہڈی والی 3706 انواعِ (ان میں مچھلیاں، پرندے، ممالیہ، جل تھلیے اور خزندے شامل ہیں ) کی عالمی آبادی 1970ء سے 2012ء کے درمیان60 فی صد گھٹ چکی ہے۔
Load Next Story