پرویز مشرف اور آرٹیکل 6
جنرل مشرف کی اقتدار پر قابض ہونے کی خواہش انھیں پاکستان لے آئی
ملک کے چوتھے فوجی آمر کے خلاف آئین کو پامال کرنے کی درخواست کی سماعت ہورہی ہے ،پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے الزام میں کتنی سزا ہوگی یہ فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ اس ملک میں فوجی آمریت کی تاریخ خاصی قدیم ہے مگر کسی فوجی آمر کو آئین توڑنے کی سزا نہیں ہوئی مگر سویلین وزرائے اعظم کو سزا ملنے کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے ۔ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب قصوری کے قتل کے الزام میں چار ججوں کے فیصلے پر سزادی گئی، جب 3 ججوں نے بھٹو صاحب کو قصوروار قرار دینے سے انکار کیا تھا۔ مسلم لیگ کے وزیراعظم نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے طیارہ اغوا کرنے کے الزام میں 14 سال قید کی سزا ہوئی۔
سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو منتخب صدر کے خلاف اس بنیاد پر خط نہ بھیجنے پر کہ صدر کو بین الاقوامی قانون کے تحت کسی سول مقدمہ میں پیش ہونے پر استثنیٰ حاصل ہے، تابرخاست عدالت کی سزا ہوئی۔ سابق وزیراعظم پرویز اشرف کے خلاف سزا ہونے کا معاملہ آخری مرحلے پر ملتوی ہوا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے کرپشن کے مقدمے میں سزا دی۔ مگر 3 جنرلوں ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق کو آئین کی پامالی پر کسی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ تاریخ اتنی عجیب ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں شکست اور 90 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کے ذمے دار جنرل یحییٰ خان کو سزا دینے کے بجائے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
اگر ان فوجی حکمرانوں کے اقتدار پر قبضے کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ان جنرلوںکے اقتدار پر قبضے کی خواہش میں ان کے ساتھی جنرلوں اور سپریم کورٹ کے ججوں نے بھرپور مدد کی۔ جب پہلے سول بیوروکریٹ آمر جنرل غلام محمد نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا تو مضبوط ترین سویلین بیوروکریٹ اسکندر مرزا اور فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان ان کی پشت پناہی پر تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس منیر نے اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین کی پٹیشن مسترد کرکے غلام محمد کے فیصلے کو آئینی جواز فراہم کردیا۔
اس طر ح جسٹس منیر نے جنرل ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے کے فیصلے کو آئینی حیثیت دی، جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کے ساتھی جنرل اس فیصلے میں شریک تھے، مگر پہلی دفعہ سپریم کورٹ کے عظیم ججوں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کے غیر قانونی اقتدار کو تحفظ فراہم کرنے سے انکار کیا، مگر PCO کے ذریعے حلف اٹھانے والے جسٹس انوارالحق اور ان کے ساتھی ججوں نے جنرل ضیاء الحق کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹیں دور کیں۔ اکتوبر 1999 میں جب منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کا تختہ الٹا تو جنرل مشرف ملک میں نہیں تھے ۔
پرویز مشرف نے کراچی پہنچنے کے بعد رات گئے اپنے خطاب میں فیصلے کی توثیق کی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اجمل میاں اور جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس ناصر اسلم زاہد، جسٹس وجیہہ الدین وغیرہ نے جنرل مشرف کی خواہش کو آئینی شکل دینے سے انکار کیا جب کہ جسٹس ارشاد حسین خان سمیت متعدد ججوں نے جنرل مشرف کے اقتدار کی آئینی طور پر توثیق کی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے معزز جج صاحبان نے جنرل پرویزمشرف کو آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دے دیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے غیر قانونی اقدامات کی منتخب اسمبلیوں نے بھی آئینی ترامیم کے ذریعے منظوری دے کر ان جنرلوں کے غیر قانونی اقدامات کو قانونی جوازفراہم کردیا ۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے انحراف کے مقدمے کے اندراج کا سہرا ملک کی سیاسی جماعتوں، وکلا، صحافیوں، خواتین، مزدوروں، کسانوں کی انجمنوں اور سول سوسائٹی کو جاتا ہے۔ جب غلام محمد نے پہلے وزیراعظم کی حکومت کو برطرف کیا تھا تو اس وقت کی بائیں بازوکی جماعتوں، قوم پرست تنظیموں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا، اس طرح جنرل ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے فیصلے کے خلاف دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں، طلبا، مزدوروں، کسانوں، صحافیوں کی تنظیموں نے تاریخی جدوجہد کی تھی، اس مزاحمتی تحریک کے دوران کمیونسٹ رہنما حسن ناصر شاہی قلعے لاہور میں شہید کردیے گئے۔
جنرل یحییٰ خان کی آمریت کے خلاف عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، مزدور، طلبا، کسانوں اور صحافیوں نے تاریخی جدوجہد کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے کی حمایت پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتوں، جماعت اسلامی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ نے کی مگر پھر پیپلزپارٹی، بائیں بازو کی جماعتوں کے علاوہ صحافیوں، مزدوروں، خواتین، کسانوں اور وکلا کی تحریکوں نے عظیم مزاحمتی کردار ادا کیا تھا، اس طرح جنرل پرویز مشرف کے خلاف یوں تو تمام سیاسی جماعتیں تھیں مگر 2007 میں چلائے جانے والی وکلا تحریک نے ان کے اقتدار کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
اگر جنرل مشرف نے غداری کے مقدمے میں اپنے ساتھی جنرلوں، سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور ان کے اقتدار کی توثیق کے لیے آئین میں کی گئی 17 ویں ترمیم کے حامیوں کی فہرست اپنے دفاع میں پیش کی تو صورتحال ایک نئی کروٹ لے گی۔ اس سوال پر معزز جج صاحبان، متحدہ مجلس عمل کی قیادت یعنی جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے قائد ین کو غور کرنا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جنرل مشرف امریکی ایما پر پاکستان آرہے ہیں اس لیے فوج بھی ان کے ساتھ ہے مگر جنرل مشرف کی گرفتاری پر امریکی حکومت کا پالیسی بیان اور فوج کے سربراہ کی اس معاملے سے لاتعلقی سے بہت کچھ سوچنے کو ملتا ہے۔
جنرل مشرف کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے اتفاق رائے سے اقتدار چھوڑنا پڑا تھا مگر پھر ملک کی صورتحال کی بنا پر انھیں موقع ملا کہ پاکستان واپس آکر پھر قسمت آزمائی کریں، یہ بات خوش آیند ہے کہ اس صدی کے پہلے عشرے میں سیاسی جماعتوں نے جمہوری نظام کے استحکام کے لیے فقیدالمثال فیصلے کیے ہیں، 1973 کا آئین اپنی حقیقی شکل میں واپس آگیا مگر برسر اقتدار سیاسی جماعتیں اچھی طرز حکومت رائج نہیں کرسکیں، کرپشن عام ہوئی، اور ملک کی اقتصادی صورتحال خراب ہوئی، قومی ادارے زوال پذیر ہوئے، عوام کے حالات کار میں ابتری آئی اور طالع آزما قوتوں کے آلہ کار دانشوروں نے فوجی حکمرانوں کے ادوار میں ترقی اور اچھی طرز حکومت کی کہانی بیان کرنا شروع کی۔
یہ باتیں حقائق کے بہت زیادہ خلاف بھی نہیں ہیں۔ جنرل مشرف کی اقتدار پر قابض ہونے کی خواہش انھیں پاکستان لے آئی اور اب پھر انتخابات ہورہے ہیں جس میں تمام سیاسی جماعتیں شرکت کررہی ہیں، سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، ہر جماعت کو انتخابی نتائج تسلیم کرنا چاہیے اور برسرا قتدار حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے، اس کے ساتھ برسر اقتدار جماعتوں کو اچھی طرز حکومت کو یقینی بنانے، کرپشن کے خاتمے اور عوام کے حالات کار کو تبدیل کرنے کے لیے بنیادی اقدامات کرنے چاہئیںِ۔
یہ بات درست ہے کہ جنرل مشرف کو سزا دینے سے جمہوری نظام مستحکم نہیں ہوگا، تاریخ شاہد ہے کہ سزائوں نے ملک میں بحران کو شدید کیا، جمہوری نظام سماجی جمہوریت کے اثرات سے مستحکم ہوگا، اس صورتحال میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ خوش ہونے کی بات نہیں ہے، اگر سیاسی جماعتوں نے اچھی طرز حکومت پر توجہ نہ دی تو پھر کوئی اور جنرل مستقبل میں مہم جوئی کرسکتا ہے۔ یہ وقت نہ آئے کہ عوام کی اکثریت کسی نئے جنرل کی مہم جوئی کی حمایت پر مجبور ہوجائے۔