غلطیوں کا ازالہ ضروری ہے
اس دوران تین جماعتیں فکری کثرتیت اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی داعی کے طورپر سامنے آئیں
اب جب کہ الیکشن میں محض چند روزرہ گئے ہیں،مگر انتخابات کی روایتی گہماگہمی کہیں نظر نہیں آرہی۔کسی حد تک پنجاب میںکچھ سرگرمیاں نظر آرہی ہیں۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول، اس مرتبہ اصل انتخابی دنگل یہیں سجنا ہے۔ دوئم،یہاںاصل مقابلہ دائیں بازو ہی کی دو جماعتوں کے درمیان ہے۔جب کہ بقیہ تینوں صوبوں کے دہشت گروں کے نشانے پر ہونے کی وجہ سے بے یقینی کی دھند چھائی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ تین اہم سیاسی جماعتیںشدت پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے سبب کھل کر انتخابی سرگرمیوںمیں حصہ نہیںلے پارہیں۔یوں ان صوبوں میں سیاسی فضاء خاصی بوجھل ہے اور انتخابات کا ماحول صحیح طورپر نہیں بن پارہا۔ایک ایسے ماحول میںجہاں مذہبی جماعتوں کے علاوہ شدت پسندوں کی آشیر باد رکھنے والی دائیں بازو کی مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف توکھل کر اپنی انتخابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، مگرکسی حد تک لبرل تصورات رکھنے والی مقبول سیاسی جماعتوںپیپلز پارٹی،ایم کیوایم اورANPکوغیر ریاستی عناصر کی جانب سے قتل وغارت گری کی دھمکیوں کا سامنا ہو،انتخابات کے آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے کے بارے میں شکوک پیدا ہوچکے ہیں۔
اس بات کا ان صفحات پر بارہا اظہار کیاجاچکاہے کہ پاکستان میں ابتداء ہی سے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیے ماحول کبھی سازگار نہیں رہا۔کمیونسٹ پارٹی، جس نے تقسیم ہند کی کھل کر حمایت اور مسلم لیگ کا ساتھ دیاتھا، ابتدائی چندبرسوںکے دوران ہی زیر عتاب آگئی۔ اس کے برعکس وہ سیاسی ومذہبی جماعتیں، جو 13 اگست 1947 تک قیام پاکستان کی شدید مخالف رہی تھیں، انھیں بیوروکریسی نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر پاکستانیت کی چیمپئن بنادیا۔مذہبی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی، دائیں بازو کے دانشوروںکے پروپیگنڈے اور بعض دوست ممالک کے سفارتکاروں کی کھلی حمایت کے باوجود عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور مقبول ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔اس کے برعکس عوام کو جب بھی اپنے نمایندے منتخب کرنے کا آزادانہ موقع ملا، انھوں نے ان جماعتوں کو ترجیح دی جو عرف عام میں لبرل کہلاتی ہیں۔
حالانکہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میںلبرل سیاست کا خاتمہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔مگر جنرل ضیاء کی سفاکانہ آمریت بھی ان جماعتوں کی عوامی قبولیت ختم نہیں کرسکی۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعددنیا بھر میں دائیں اور بائیں بازو کی روایتی سیاسی فکری آویزش ختم ہوگئی، جس کی جگہ لبرل ازم اوررجعت پسندی کے درمیان نئی کشمکش کا آغاز ہوا۔جب کہ پاکستان میں 80 کے عشرے میں شروع ہونے والی مذہبی شدت پسندی اور متشددفرقہ واریت نے 9/11کے بعد ایک نئی شکل اختیار کرلی۔بائیں بازو کی روایتی سیاسی جماعتیں مذہبی شدت پسندی کے اس نئے رجحان کے چیلنج کا اپنی غیرفعالیت کے باعث مقابلہ نہیں کرسکیں اور مزید اضمحلال کاشکار ہوکر قصہ پارینہ ہوگئیں۔
اس دوران تین جماعتیں فکری کثرتیت اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی داعی کے طورپر سامنے آئیں،جن میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ تینوں جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی تاریخ سب سے زیادہ طویل ہے۔یہ قیام پاکستان سے قبل خدائی خدمت گارتحریک سے نیشنل عوامی پارٹی(NAP) سے ہوتی ہوئی اس مقام تک پہنچی ہے۔پیپلز پارٹی بھی 1967 میںمتوسط طبقے کی ایک ترقی دوست، روشن خیال اور لبرل جماعت کے طورسامنے آئی اور مختلف تلخ وشیریں مراحل سے گذرنے کے باوجود اس نے اپنے لبرل تشخص کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ایم کیوایم1984 میں ایک لسانی تنظیم کے طورپر ابھری ،مگر ابتداء ہی سے اس نے فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کی۔1990 کے عشرے میں اس میں ٹرانسفارمیشن کا عمل شروع ہوا اور اس نے لسانی تشخص سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی۔اس میں کس حد تک کامیاب یا ناکام رہی یہ الگ بحث ہے، لیکن اس کی شناخت ایک لبرل جماعت کے طورپر بہر حال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان تینوں جماعتوں کے آئین اور انتخابی منشور بھی خاصی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔
اصولی طورپرہونا یہ چاہیے تھا کہ بدلتے حالات کے تحت ملک میں سیاسی تقطیب(Polarization)کی بنیاد سیاسی جماعتوں کے فکری میلانات ہوتے۔ مگر پاکستان کے معرضی حالات اس قدر گنجلک اور پیچیدہ ہیں کہ سیاسی عمل کی نظریاتی بنیادوں پر استوار ہونے کے بجائے دیگر عوامل کے زیر اثر رہتاہے۔یہی سبب ہے کہ یہ تینوں جماعتیں جو ایک دوسرے کے ساتھ فکری اور نظریاتی طورپر زیادہ قریب تھیں اوران میں باہمی تعاون کرنے کا پوٹینشیل بھی موجود ہے،صحیح طر پر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
بلکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایک دوسرے کی حلیف ہونے کے باوجودملک کے اندر اور اطراف میں جنم لینے والی تبدیلیوں کا ادراک کرنے اور شدت پسندی کے خلاف کسی ٹھوس ایجنڈے پر کام کرنے کے بجائے اپنی تمامتر توانائیاں کراچی پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے میں ضایع کر دیں۔باہمی تنائو اور عدم اعتماد کی اس فضاء کے نتیجے میں جہاںایک طرف کراچی میں امن وامان کے سنگین مسائل پیدا ہوئے اور اس کی معاشی نمو متاثر ہوئی،وہیں دوسری طرف شدت پسند اور متشددفرقہ وارانہ قوتوں کو پنپنے اور شہر کے مختلف حصوں میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے کا موقع ملا۔
انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق شدت پسند عناصر نے 1990کے بعد سے کراچی میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کرناشروع کردیں تھیں۔پیپلز پارٹی،ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں۔بلکہ 2009 میںجب ایم کیو ایم نے باقاعدگی کے ساتھ کراچی میںہونے والی طالبانائزیشن پرآواز اٹھناشروع کی،تو اس کے انکشافات کو منفی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ پیپلز پارٹی نے تمسخر اڑایا، جب کہ ANPنے اس انکشاف کو پختونوں کے خلاف سازش قرار دے کرشدت پسندی کے خلاف کسی ریاستی اقدام کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
یہ رپورٹس بھی تسلسل کے ساتھ سامنے آرہی تھیں کہ کراچی میں ہونے والی90 فیصد بینک ڈکیتیوں،اغوا برائے تاوان اوربھتہ خوری میںشدت پسند عناصر ملوث ہیں۔مگر اس مسئلے کے حل کے لیے باہمی مشاورت سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دینے کے بجائے پوری توجہ کراچی کی Demographyمیں تیزی سے رونماء ہونے والی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانے پر مرکوزکردی گئی۔ ہر جماعت اس کوشش میں مصروف رہی کہ اس نئی صورتحال میں اپنے مینڈیٹ کوکس طرح بڑھایا یا بچایاجاسکتا ہے۔
کراچی 1990 کے عشرے سے پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔2008 کے انتخابات میں ANPکو شہر میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ شہر کے دیگرشراکت داروں کے ساتھ مل کر شہر میں پختونوں کی فلاح کے لیے نئے راستے تلاش کرتی،اس نے تنائو کی نئی سیاست کو جنم دیا۔ حالانکہ شہر میں ایسے ان گنت غیر پختون موجود تھے، جو ANP کے ماضی کی وجہ سے اس سے ہمدردی رکھتے تھے۔مگر اس جماعت میں موجود بعض عناصر نے اپنی غلط اور انتہاء پسندانہ روش کے باعث ان عناصر کو خاموشی اختیار کرنے پرمجبور کردیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی کی بعض اہم بستیوںمیں ANPکے جھنڈے لہراتے تھے۔مگر2011 کے بعد سے شہر کے کسی بھی حصے میں یہ جھنڈے نظر نہیں آرہے۔
اس عمل میں ایم کیوایم یا کسی دوسری جماعت کا کوئی کردار نہیںہے۔دراصل ان تینوں جماعتوں کی باہمی آویزش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں پرشدت پسند عناصر انتہائی خاموشی کے ساتھ قابض ہوتے چلے گئے اور انھوں نے ANPکے نہ صرف جھنڈے اتار دیے بلکہ ان علاقوں میں موجود اس کے دفاتر بھی بند کردیے۔کچی بستیوں پراپنا قبضہ مکمل کرنے کے بعد اب یہ عناصر پکی بستیوں کی طرف راغب ہورہے ہیں اور ان بستیوں میں اپنا اثرونفوذ بڑھارہے ہیں۔ پولیس اور دیگرانٹیلی جنس کی رپورٹس کے مطابق سہراب گوٹھ، لانڈھی کے مضافاتی علاقے ،ضلعی غربی اورجنوبی کے سرحدی علاقے وغیرہ اب سیاسی جماعتوں کے لیے No goایریا بن چکے ہیں۔ان علاقوں میں شدت پسند عناصر کا اپناانتظامی اور عدالتی نظام رائج ہے، جوریاستی رٹ کے لیے کھلا چیلنج ہے۔
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اورANPکے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کریں اور ضد، انا، ہٹ دھرمی اور شہر پر قبضے کی غیر سیاسی سوچ سے باہر نکل کر شدت پسندی کی عفریت سے نمٹنے کی واضح اور ٹھوس حکمت عملی تیار کریں۔ انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آج انھیں شدت پسندوں نے جس طرح اپنی سیاسی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور کیا ہے، کل ان کے لیے اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔اس کے علاوہ اس پہلوپر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اس میں کوئی جماعت تنہا چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نظریاتی طورپر ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والی سیاسی قوتوں کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اگر کراچی شدت پسندوں یا ا ن کی ہمدرد جماعتوں کی گرفت میں چلاگیا تو اس ملک میں لبرل سیاست کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ تین اہم سیاسی جماعتیںشدت پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے سبب کھل کر انتخابی سرگرمیوںمیں حصہ نہیںلے پارہیں۔یوں ان صوبوں میں سیاسی فضاء خاصی بوجھل ہے اور انتخابات کا ماحول صحیح طورپر نہیں بن پارہا۔ایک ایسے ماحول میںجہاں مذہبی جماعتوں کے علاوہ شدت پسندوں کی آشیر باد رکھنے والی دائیں بازو کی مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف توکھل کر اپنی انتخابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، مگرکسی حد تک لبرل تصورات رکھنے والی مقبول سیاسی جماعتوںپیپلز پارٹی،ایم کیوایم اورANPکوغیر ریاستی عناصر کی جانب سے قتل وغارت گری کی دھمکیوں کا سامنا ہو،انتخابات کے آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے کے بارے میں شکوک پیدا ہوچکے ہیں۔
اس بات کا ان صفحات پر بارہا اظہار کیاجاچکاہے کہ پاکستان میں ابتداء ہی سے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیے ماحول کبھی سازگار نہیں رہا۔کمیونسٹ پارٹی، جس نے تقسیم ہند کی کھل کر حمایت اور مسلم لیگ کا ساتھ دیاتھا، ابتدائی چندبرسوںکے دوران ہی زیر عتاب آگئی۔ اس کے برعکس وہ سیاسی ومذہبی جماعتیں، جو 13 اگست 1947 تک قیام پاکستان کی شدید مخالف رہی تھیں، انھیں بیوروکریسی نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر پاکستانیت کی چیمپئن بنادیا۔مذہبی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی، دائیں بازو کے دانشوروںکے پروپیگنڈے اور بعض دوست ممالک کے سفارتکاروں کی کھلی حمایت کے باوجود عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور مقبول ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔اس کے برعکس عوام کو جب بھی اپنے نمایندے منتخب کرنے کا آزادانہ موقع ملا، انھوں نے ان جماعتوں کو ترجیح دی جو عرف عام میں لبرل کہلاتی ہیں۔
حالانکہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میںلبرل سیاست کا خاتمہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔مگر جنرل ضیاء کی سفاکانہ آمریت بھی ان جماعتوں کی عوامی قبولیت ختم نہیں کرسکی۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعددنیا بھر میں دائیں اور بائیں بازو کی روایتی سیاسی فکری آویزش ختم ہوگئی، جس کی جگہ لبرل ازم اوررجعت پسندی کے درمیان نئی کشمکش کا آغاز ہوا۔جب کہ پاکستان میں 80 کے عشرے میں شروع ہونے والی مذہبی شدت پسندی اور متشددفرقہ واریت نے 9/11کے بعد ایک نئی شکل اختیار کرلی۔بائیں بازو کی روایتی سیاسی جماعتیں مذہبی شدت پسندی کے اس نئے رجحان کے چیلنج کا اپنی غیرفعالیت کے باعث مقابلہ نہیں کرسکیں اور مزید اضمحلال کاشکار ہوکر قصہ پارینہ ہوگئیں۔
اس دوران تین جماعتیں فکری کثرتیت اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی داعی کے طورپر سامنے آئیں،جن میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ تینوں جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی تاریخ سب سے زیادہ طویل ہے۔یہ قیام پاکستان سے قبل خدائی خدمت گارتحریک سے نیشنل عوامی پارٹی(NAP) سے ہوتی ہوئی اس مقام تک پہنچی ہے۔پیپلز پارٹی بھی 1967 میںمتوسط طبقے کی ایک ترقی دوست، روشن خیال اور لبرل جماعت کے طورسامنے آئی اور مختلف تلخ وشیریں مراحل سے گذرنے کے باوجود اس نے اپنے لبرل تشخص کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ایم کیوایم1984 میں ایک لسانی تنظیم کے طورپر ابھری ،مگر ابتداء ہی سے اس نے فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کی۔1990 کے عشرے میں اس میں ٹرانسفارمیشن کا عمل شروع ہوا اور اس نے لسانی تشخص سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی۔اس میں کس حد تک کامیاب یا ناکام رہی یہ الگ بحث ہے، لیکن اس کی شناخت ایک لبرل جماعت کے طورپر بہر حال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان تینوں جماعتوں کے آئین اور انتخابی منشور بھی خاصی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔
اصولی طورپرہونا یہ چاہیے تھا کہ بدلتے حالات کے تحت ملک میں سیاسی تقطیب(Polarization)کی بنیاد سیاسی جماعتوں کے فکری میلانات ہوتے۔ مگر پاکستان کے معرضی حالات اس قدر گنجلک اور پیچیدہ ہیں کہ سیاسی عمل کی نظریاتی بنیادوں پر استوار ہونے کے بجائے دیگر عوامل کے زیر اثر رہتاہے۔یہی سبب ہے کہ یہ تینوں جماعتیں جو ایک دوسرے کے ساتھ فکری اور نظریاتی طورپر زیادہ قریب تھیں اوران میں باہمی تعاون کرنے کا پوٹینشیل بھی موجود ہے،صحیح طر پر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
بلکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایک دوسرے کی حلیف ہونے کے باوجودملک کے اندر اور اطراف میں جنم لینے والی تبدیلیوں کا ادراک کرنے اور شدت پسندی کے خلاف کسی ٹھوس ایجنڈے پر کام کرنے کے بجائے اپنی تمامتر توانائیاں کراچی پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے میں ضایع کر دیں۔باہمی تنائو اور عدم اعتماد کی اس فضاء کے نتیجے میں جہاںایک طرف کراچی میں امن وامان کے سنگین مسائل پیدا ہوئے اور اس کی معاشی نمو متاثر ہوئی،وہیں دوسری طرف شدت پسند اور متشددفرقہ وارانہ قوتوں کو پنپنے اور شہر کے مختلف حصوں میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے کا موقع ملا۔
انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق شدت پسند عناصر نے 1990کے بعد سے کراچی میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کرناشروع کردیں تھیں۔پیپلز پارٹی،ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں۔بلکہ 2009 میںجب ایم کیو ایم نے باقاعدگی کے ساتھ کراچی میںہونے والی طالبانائزیشن پرآواز اٹھناشروع کی،تو اس کے انکشافات کو منفی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ پیپلز پارٹی نے تمسخر اڑایا، جب کہ ANPنے اس انکشاف کو پختونوں کے خلاف سازش قرار دے کرشدت پسندی کے خلاف کسی ریاستی اقدام کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
یہ رپورٹس بھی تسلسل کے ساتھ سامنے آرہی تھیں کہ کراچی میں ہونے والی90 فیصد بینک ڈکیتیوں،اغوا برائے تاوان اوربھتہ خوری میںشدت پسند عناصر ملوث ہیں۔مگر اس مسئلے کے حل کے لیے باہمی مشاورت سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دینے کے بجائے پوری توجہ کراچی کی Demographyمیں تیزی سے رونماء ہونے والی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانے پر مرکوزکردی گئی۔ ہر جماعت اس کوشش میں مصروف رہی کہ اس نئی صورتحال میں اپنے مینڈیٹ کوکس طرح بڑھایا یا بچایاجاسکتا ہے۔
کراچی 1990 کے عشرے سے پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔2008 کے انتخابات میں ANPکو شہر میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ شہر کے دیگرشراکت داروں کے ساتھ مل کر شہر میں پختونوں کی فلاح کے لیے نئے راستے تلاش کرتی،اس نے تنائو کی نئی سیاست کو جنم دیا۔ حالانکہ شہر میں ایسے ان گنت غیر پختون موجود تھے، جو ANP کے ماضی کی وجہ سے اس سے ہمدردی رکھتے تھے۔مگر اس جماعت میں موجود بعض عناصر نے اپنی غلط اور انتہاء پسندانہ روش کے باعث ان عناصر کو خاموشی اختیار کرنے پرمجبور کردیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی کی بعض اہم بستیوںمیں ANPکے جھنڈے لہراتے تھے۔مگر2011 کے بعد سے شہر کے کسی بھی حصے میں یہ جھنڈے نظر نہیں آرہے۔
اس عمل میں ایم کیوایم یا کسی دوسری جماعت کا کوئی کردار نہیںہے۔دراصل ان تینوں جماعتوں کی باہمی آویزش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں پرشدت پسند عناصر انتہائی خاموشی کے ساتھ قابض ہوتے چلے گئے اور انھوں نے ANPکے نہ صرف جھنڈے اتار دیے بلکہ ان علاقوں میں موجود اس کے دفاتر بھی بند کردیے۔کچی بستیوں پراپنا قبضہ مکمل کرنے کے بعد اب یہ عناصر پکی بستیوں کی طرف راغب ہورہے ہیں اور ان بستیوں میں اپنا اثرونفوذ بڑھارہے ہیں۔ پولیس اور دیگرانٹیلی جنس کی رپورٹس کے مطابق سہراب گوٹھ، لانڈھی کے مضافاتی علاقے ،ضلعی غربی اورجنوبی کے سرحدی علاقے وغیرہ اب سیاسی جماعتوں کے لیے No goایریا بن چکے ہیں۔ان علاقوں میں شدت پسند عناصر کا اپناانتظامی اور عدالتی نظام رائج ہے، جوریاستی رٹ کے لیے کھلا چیلنج ہے۔
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اورANPکے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کریں اور ضد، انا، ہٹ دھرمی اور شہر پر قبضے کی غیر سیاسی سوچ سے باہر نکل کر شدت پسندی کی عفریت سے نمٹنے کی واضح اور ٹھوس حکمت عملی تیار کریں۔ انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آج انھیں شدت پسندوں نے جس طرح اپنی سیاسی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور کیا ہے، کل ان کے لیے اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔اس کے علاوہ اس پہلوپر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اس میں کوئی جماعت تنہا چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نظریاتی طورپر ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والی سیاسی قوتوں کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اگر کراچی شدت پسندوں یا ا ن کی ہمدرد جماعتوں کی گرفت میں چلاگیا تو اس ملک میں لبرل سیاست کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہوسکتا ہے۔