ایڈز ملک میں پھیل رہی ہے
مغرب میں اَسی کی دہائی میں اس مرض کے متعلق دنیاکومعلوم ہواتوقیامت آگئی۔
سرکاری دفترمیںہربابو کاپہلاکام، آنے والے خطوط کو پڑھنااورضروری ہدایات لکھنی ہوتی ہیں۔یہ ایک عام سی روش ہے۔سرکارکی زبان میں اسے "ڈاک" کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل حکومتی اداروں، ملازمین اوراہلکاروں کی لکھی ہوئی روزانہ ملاقات ہے۔کچھ عرصہ پہلے دفترمیں"ڈاک"دیکھتے ہوئے چھٹی کی درخواست سامنے آئی۔درج تھاکہ فدوی بیمارہے۔لہذاچارماہ کی چھٹی درکارہے۔ذہن میں اس شخص کے لیے ہمدردی کاجذبہ اُٹھا۔لیکن یہ معلوم نہ ہواکہ مرض یا مسئلہ کیاہے۔
بیماری کی بنیادپردرخواست میں اکثر ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ لگاہوتاہے۔مگرہاتھ سے لکھی گئی اس چٹھی کے ساتھ کچھ بھی نتھی نہیں تھا۔کاغذپر لکھاکہ مہربانی کرکے ڈاکٹرکی رپورٹ یالیبارٹری کاتجزیہ ساتھ لگادیں تاکہ چھٹی منظورکی جاسکے۔عام طورپرلوگ ایک ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کی رخصت نہیں لیتے۔اس لیے کہ فارغ ہوکرگھربیٹھنابھی ایک عذاب ہے۔کام اورجستجودراصل انسان کوزندہ رکھتے ہیں۔ اگرآپکے پاس کوئی کام نہ ہو،تودن گزارناناممکن ہوجاتا ہے۔ مکمل فراغت ایک عذاب ہے۔مشاہدہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعدجوسرکاری بابوکام نہیں کرتے،بڑی جلدی ملک عدم کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔
بات چھٹی کی درخواست کی ہورہی تھی۔دس دن کے بعددرخواست دوبارہ موصول ہوئی۔اس کے ساتھ مستند لیبارٹری کی رپورٹ لگی ہوئی تھی۔ڈاکٹرہونے کی بدولت رپورٹ پڑھی توذہنی جھٹکاسالگا۔درج تھاکہ اس مریض کو "ایڈز" ہے۔گمان ہے کہ ایڈزکے متعلق لوگوں کوعلم ہوگا۔ مگر پھربھی عرض کرتاچلوں کہ دنیاکی سب سے مہلک ترین بیماری یہی ہے۔اس کاپوری دنیامیں کوئی معتبرعلاج نہیں۔
امریکا سے لے کرمغربی ممالک کے بہترین اسپتالوں میں بھی مریض ٹھیک نہیں ہوسکتا۔مغرب میں اَسی کی دہائی میں اس مرض کے متعلق دنیاکومعلوم ہواتوقیامت آگئی۔ 1984 سے آگے،دنیاکے معتبرجریدوں پرنظرڈالی جائے توایڈز کے حوالے سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مضامین نظر آتے ہیں۔پوری دنیامیں کہرام مچ گیا۔سائنسدانوں نے تحقیق کی بنیادپرلوگوں کومعلومات فراہم کرنی شروع کردیں۔ مہلک بیماری پرفلمیں،ڈرامے اورڈوکومینٹریاں بننی شروع ہوگئیں۔
مغرب میں باقاعدہ مہم شروع کی گئی کہ"قربت کے تعلقات" کوکتنامحفوظ ہوناچاہیے۔آگاہی کی بدولت اَسی کی دہائی سے آگے یہ مرض مغرب میں کم ہوتاگیا۔ مگر بدقسمتی سے ترقی پذیرممالک میں معلومات کی رسداس طرح آگے نہیں بڑھ سکی جس طرح مغرب میں چل پائی تھی۔نتیجہ بے حد خطرناک ثابت ہوا۔موت کی یہ بلاتیسری دنیاکے ملکوں میں منتقل ہوگئی۔افریقہ کاپورابراعظم اس کی لپیٹ میں آگیا۔شروع میں ایشیائی ممالک میں اس قیامت کے منتقل ہونے پرخاموشی قائم رکھی گئی۔
تھائی لینڈ،جہاں پوری دنیاسے سیاح "سیروتفریح"کے لیے آتے تھے۔اسکاگڑھ بن گیا۔حکومت کو جب اندازہ ہواکہ سیاحت اس عنصرکی بدولت کمزورپڑرہی ہے توانھوں نے ڈاکٹروں کے مشورے سے تمام ممکنات پرعملی اقدامات لینے شروع کر دیے۔تمام خواتین جوکسی نہ کسی طرح دنیاکے قدیم ترین پیشے سے تعلق رکھتی تھیں،ان کے باقاعدہ ٹیسٹ ہونے شروع ہوگئے۔
اعدادوشمارکے مطابق صرف تھائی لینڈمیں ہزاروں خواتین اورمردH.I.Vکے کیرئیر نکلے۔ ان تمام افراد کو قدیم دھندے سے فارغ کر دیا گیا۔پورے ملک میں ایڈزکے متعلق بھرپورمہم چلائی گئی جو کافی حدتک کامیاب رہی۔انڈیانے بھی تھائی لینڈکی مثال کوسامنے رکھتے ہوئے اس قیامت کے متعلق معلومات کی مہم چلائی مگریہ مکمل طورپر کامیاب نہ ہوسکی۔اس کی بڑی وجہ غربت، جہالت اورآبادی کاسیلاب تھااورہے۔بہرحال وہاں، اس بیماری کوحکومتی سطح پرآڑے ہاتھوں لیاگیا۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی شایع شدہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیامیں ہرسال دس لاکھ کے قریب مرداور خواتین ایڈزکی بدولت زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔سنجیدہ بات یہ ہے کہ ترقی پذیرممالک میں لوگوں کواس کی تباہ کاری کاادراک ہی نہ ہوپایا۔ہمسایہ ممالک میں افغانستان اس کا خصوصی نشانہ بن گیا۔بنگلہ دیش میں ایڈزنے معاشرے کی جڑیں ہلاکر رکھ دیں۔ایران بھی اس زلزلہ کی زد میں آگیا۔پاکستان میں ایڈزکی بدولت سن2000میں تقریباً سوہلاکتیں ہوئیں۔مگر تعدادسترہ اوراٹھارہ میں بڑھ کرچھ ہزارسالانہ تک پہنچ گئی۔ پوری دنیاسے کوئی غرض نہیں۔ اس لیے کہ مجھے سب سے عزیز اپناملک ہے۔
پاکستان میں، 1986میں مرض میں مبتلا لوگوں کی تعدادصرف چار ہزارتھی۔مگرآج یہ تعدادحیران کن حدتک بڑھ کر تقریباً دولاکھ تک پہنچ چکی ہے۔یہ بین الاقوامی اداروں کی مرتب شدہ تعدادہے۔ہمارے حکومتی ادارے ان مریضوں کی تعدادتقریباًایک لاکھ بتاتے ہیں۔نکتہ سے قطعہِ نظرکہ مریضوں کی تعداددولاکھ ہے یا ایک لاکھ۔یہ بات بے حدخطرناک ہے کہ ہمارے ملک میں یہ مہلک مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔یہاں یہ بات کہنی اَزحد مناسب ہے کہ "ایڈز"میں مبتلامریض بے حدرازداری سے کام لیتے ہیں۔ کسی کو بتاتے ہی نہیں کہ انھیں لاپرواہی کی بدولت یہ بلاچمٹ چکی ہے۔اس رازداری کے خانے سے باہرنکل کر اگرسائنسی بنیادوں پرتجزیہ کیاجائے تویہ تعداددس لاکھ سے بھی اوپر جاسکتی ہے۔
یاشائداس سے بھی زیادہ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس پرتوجہ دینے کے لیے تیارنہیں۔نہ حکومت اورنہ نجی شعبہ۔اس موضوع پربولناایک سماجی داغ کی حیثیت اختیارکرچکاہے۔یہ ایک ایساگندہے جسے ہرکوئی قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتاہے۔مرداورخواتین مرجاتے ہیں مگراس بات پرتیارنہیں ہوتے کہ لواحقین کو بتا دیں کہ ایڈزمیں مبتلاہیں۔یہ باعث شرم اعتراف گمان ہوتا ہے۔عزیزواقارب بھی مرنے والے کی اصل بیماری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ ہمارے اسلامی ملک میں معلومات نہ ہونے کی بدولت ہزاروں شخص سالانہ کی بنیادپرمررہے ہیں۔درست ہے کہ علاج ممکن نہیں ہے مگر بچائوضرورممکن ہے۔مناسب علاج سے موت کو کافی عرصے کے لیے ٹالاجاسکتاہے۔مگرنہیں،یہاں اس طرح کی گفتگو کرنی توبڑی دورکی بات،سوچنابھی گناہ ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب ایک دہری زندگی گزاررہے ہیں۔منافق کالفظ استعمال نہیں کررہا۔کیونکہ وہ مجموعی طور پر ہمارے سماجی دہرے پن کی صحیح عکاسی نہیں کرسکتا۔ہم تمام لوگ ایک دوسرے کے سامنے فرشتہ بننے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں۔ہرعیب کواپنی بزرگی،رتبے اورشخصیت کے لفافے میں بندکرکے رکھتے ہیں۔ہم میں سے ہرشخص دوسرے کے سامنے اس طرح ظاہرکرتاہے کہ وہ پاکیزگی کا نمونہ ہے۔اس سے کوئی گناہ ہوہی نہیں سکتا۔یہ کیفیت بے حدخطرناک ہے۔مگرحقیقت یہی ہے کہ ہم ہرچیزپرغلاف چڑھاکررکھتے ہیں۔اتنے مشکل معاشرے میں یہ تسلیم کرنا کہ ملک میں"ایڈز"تیزی سے پھیل رہی ہے۔
بے حد دشوار بات ہے۔مگرہم تمام لوگ حقیقت سے بے خبرنہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ جس چیزکاوجودہو،وہ اپناردِعمل ضرور ظاہر کرتی ہے۔ آپ مانیں یانہ مانیں مگرجوسچ ہے،وہ سامنے آکررہتاہے اورتلخ سچ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں"محفوظ زندگی"کاکوئی تصورہی موجودنہیں ہے۔دنیاکے سب سے "قدیم پیشہ" سے تعلق رکھنے والی لاکھوں خواتین موجود ہیں۔ ہر شہر، ہر قصبہ،ہردیہات میں ان کا وجود ہے۔ مگر کبھی بھی ان کے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اس لیے کہ ہم تسلیم ہی نہیں کرتے کہ معاشرے میں مردوں کے دوسری خواتین سے قربت کے تعلقات ہیں۔ کچھ کہنا نہیں چاہتا۔پوری دنیاپھرچکاہوں۔
برانہ منائیے گا۔ہمارے معاشرے میں "جنسی بگاڑ"مغربی معاشرہ سے کہیں زیادہ ہے۔فرق صرف یہ سب کچھ پردے کے پیچھے ہورہاہے اورمسلسل ہورہا ہے۔ یہ سب کچھ روکنا تقریباً ناممکن ہے۔کیونکہ انسان کی فطرت پوری دنیامیں بالکل ایک جیسی ہے۔ایڈزمیں مبتلاپیشہ ور خواتین کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں میں پیشہ ورجوان بھی موجودہیں۔ان کی طرف بھی کبھی دھیان نہیں دیاگیا۔ انتقال خون کے غلط طریقے،خواجہ سرائوں کی بہتات اور نشہ کے لیے غیرمعیاری سرنجوں کااستعمال اس بیماری کوبے حد بڑھاوا دے رہی ہے۔ مگر افسوس اس بات کاہے کہ اس کی پھیلتی ہوئی موجودگی سے انکارکیاجارہاہے۔
میڈیاپرنظردوڑائیے۔معمولی سی سیاسی بات پر گھنٹوں لایعنی قسم کی بحث ہوتی رہتی ہے۔فلاں سیاستدان نے انگلی میں انگوٹھی پہن لی یااُتاردی،اس پربھی بات ہوتی ہے۔ فلاں قومی سیاستدان نے ملکی اور غیرملکی دوروں کے درمیان کیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس پربھی سیکڑوں پروگرام ہوتے ہیں۔ ہمارا میڈیا حددرجہ ناقص معلومات کی بنیاد پر لاحاصل اوربے معنی بحث کرتا رہتا ہے۔ مگر وہ منفی عناصر جو ملک کی جڑیں کھا چکے ہیں۔
وہ بیماریاں جوعام آدمی کو برباد کررہی ہیں۔اس پرتحقیق کی بنیادپر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔منافقت کے اس کلچر میں دلیل سے ایڈز پر بات کرنی ناممکن ہوچکی ہے۔یہ مرض کس طرح حملہ کرتاہے،ہم ان بشری کمزوریوں کو ماننے کے لیے تیارہی نہیں۔مگرحقیقت میں ایڈزملک میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔مگرہمیں فکرہے توغیرمعیاری سیاستدانوں کے الیکشن کی،جس سے ملک میں عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثرنہیں پڑیگا۔اصل میں ہم سارے فرشتے ہیں اورفرشتوں کوکوئی بیماری نہیں ہوتی!