بھوکے اور گونگے

انسانوں کو بہت زیادہ دیر تک جانور بنا کے نہیں رکھا جا سکتا ہے انہیں دیر تک گونگا اور بھوکا نہیں رکھا جا سکتا ہے۔


Aftab Ahmed Khanzada May 26, 2018

آئیں! اس بات کا سراغ لگاتے ہیں کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں اور منصبوں پر بیٹھے ہوئے ملک کے عام بیس کروڑ پاکستانیوں کو آیا انسان مانتے بھی ہیں یا انہیں جانور تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ ماضی کے بہت سے معاشرے عوامی بحث کو اچھے فیصلوں تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ تصورکرتے رہے ہیں اور اسے بہت زیادہ اہمیت و وقعت دیتے رہے ہیں۔

قدیم ایتھنز ہمیشہ اختلا ف اور بحث و مباحثے کا اکھاڑا بنا رہتا تھا۔ بدھ اور جین روایتیں عوامی بحث مباحثے کی حوصلہ افزائی کے لیے مشہور تھیں اور رسمی حاکمیت کو زیادہ محترم نہ جانتی تھیں۔ اشوک نے ایک لاٹھ پرکنندہ کروایا تھا کہ اپنے مسلک کی بڑائی اور دوسرے مسلکوں کی تذلیل نہ ہونی چاہیے۔

نیلسن منڈیلا نے اپنی خود نوشت سوانح میں عوامی بحث مباحثے کی ان افریقی روایات کاذکرکیا ہے جن کا مشاہدہ اسے بچپن میں اپنے علاقے کے ریجنٹ ہائوس میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں ہوا کرتا تھا'' وہ ہر شخص جو بولنا چاہتا تھا بو لتا تھا'' وہ لکھتا ہے اور ''خود انتظامی کی بنیاد یہ تھی کہ تمام لوگ اپنی آرا کے اظہار میں آزاد ہیں اور شہریوں کی حیثیت سے سب کی قدر ایک سی تھی۔ قدیم عہد کے چین میں ماہانہ اجلاس کا رواج شروع کیاگیا تھا جن میں کھانے پینے کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا لوگ ان اجلاسوں میں رویوں، انعامات اور اخلاقیات کو زیر بحث لاتے تھے اور یہ بحثیں اکثر شاہی فرمانوں کے رد عمل میں واقع ہوتی تھیں۔ مکالمے کا مطلب صرف یہ نہیں تھا کہ ہم حریف دعا وی کے درمیان یہ فیصلہ کر یں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم سوچتے کیسے ہیں۔

سقراط ایک بات بار بارکہتا تھا کہ''سوچو''کیونکہ انسان صرف اس وقت تک انسان ہے جب تک وہ سوچتا ہے جب وہ سوچنا بندکر دیتا ہے تو پھروہ انسان نہیں جانور بن جاتا ہے، اس لیے کہ جانور سوچتے نہیں ہیں۔ آج پاکستان میں چند ہزار اعلیٰ ترین طاقتور لوگ اس حق کے دعویدار بنے بنے پھرتے ہیں کہ صرف انہیں ہی ملک میں سوچنے اور بولنے کا حق حاصل ہے صرف وہ ہی سو چیں گے، بولیں گے اور فیصلے صادرکریں گے۔ باقی بیس کروڑ انسان نہ تو سوچیں گے اور نہ ہی بولیں گے بلکہ چپ چاپ ہمارے فیصلوں کو جوں کا توں نہ صرف یہ کہ مانیں گے بلکہ ان پر عمل بھی کریں گے۔

یہ بیس کروڑ انسانوں کے خود ساختہ ٹھیکیدار اس حد تک اپنی من مانی اور زور زبردستی کر رہے ہیں کہ جو انسان ان کے خلا ف بغاوت کر دیتے ہیں تو وہ انہیں کافر، مرتد اور جمہوریت دشمن کا فرمان جاری کر دیتے ہیں اور ان کے پیچھے اپنے زر خرید لوگوں کو لگا دیتے ہیں جو ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں پھر مجبور ہو کر یا تو وہ ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر تو بہ کر کے گوشہ نشین ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اپنی زبان بندی کر لیتے ہیں۔

ان کے نزدیک صرف وہ ہی انسان ہیں، باقی سب لوگ جانور ہیں اور جانور نہ تو سوچتے ہیں اور نہ ہی بولتے ہیں اور بحث و مباحثے تو ان کے نزدیک کفرکے زمرے میں آتے ہیں۔ جب معاشروں کو انسانوں کی طرح قیدکر لیا جاتا ہے انہیں یرغمال بنا لیا جاتا ہے تو پھر ایسے معاشروں میں لوگ بموں کے ساتھ پھٹتے ہیں لوگ بے کفن دفنائے جاتے ہیں۔ لوگ اپنے آپ کو مارتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی مار لیتے ہیں۔

ایسے معاشرے ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل ہو جاتے ہیں جہاں صرف جیلر اور اس کے ساتھی انسان تسلیم کیے جاتے ہیں باقی سب کا رتبہ صرف قیدی جانور کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بات ہم سب بیس کروڑ کو اچھی طرح سے ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ ہم سب آہستہ آہستہ زہر کھا کر بتدریج موت کی طرف جا رہے ہیں۔ اجتماعی موت کی طرف، ایک ایسی موت کی طرف جو بے وقت ہے ایسی موت کی طرف جو تمام اموات سے زیادہ تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔

ہم سب ایسے انسان ہیں جنہیں چند ہزار لوگوں نے جانور بنا کے رکھ دیا ہے دنیا بھر میں جانوروں کے بھی حقوق ہیں کچھ تو ایسے معاشرے بھی ہیں جہاں جانوروں کو حد سے زیادہ حقوق حاصل ہیں جب کہ ہم توان جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں جنہیں تو ان جانور جتنے حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ ایک بات توجیلر اور ان کے ساتھیوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینی ہوگی کہ انسانوں کو بہت زیادہ دیر تک جانور بنا کے نہیں رکھا جا سکتا ہے انہیں دیر تک گونگا اور بھوکا نہیں رکھا جا سکتا ہے۔

یہ ناممکن ہے کہ صرف آپ بول رہے ہوں اور آپ کے قیدی ہونٹ سیئے رہیں آپ کھا رہے ہوں اور باقی سب بھوکے آپ کو کھاتا دیکھ رہے ہوں۔ اس صورتحال میں ایک نہ ایک روز بھوکے اورگونگے آپ پر حملہ کر ہی دیں گے، جتنے زیادہ بھوکے اورگونگے ہونگے، اتنی ہی زیادہ شدت سے حملہ آور ہوں گے۔

یہ بات امریکا، چین، یورپ، برطانیہ نے فرانس اور روس کے بھوکوں اورگونگوں سے صدیاں پہلے سیکھ لی تھی، اس لیے وہاں اب ڈھونڈے سے بھی بھوکے اور گونگے نہیں ملتے۔یاد رکھو! تم نے اتنے خوفناک حالات ملک میں پیدا کر دیے ہیں اب سب ہی کو سب ہی سے خطرہ ہے۔ آسٹریلوی فلسفی پیٹرسنگر نے کہا ہے تکلیف اور اذیت میں حیوان ہمارے برابر ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے تکلیف تو تکلیف ہوتی ہے چاہے یہ مجھے ہو آپ کو ہو یا کسی اور کو ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں