امریکا میں اسکول شوٹنگ کے پس پردہ محرکات

یہ حقیقی مناظر ہیں جو امریکا کی سرزمین پر کئی سال سے بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔

گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کی کوشش میں بھاگتے ہوئے لوگ، موت کے خوف سے سیاہ پڑجانے والے چہرے اور ان پر پھیلی وحشت، چاروں اور مچنے والی ہاہاکار سے لگ رہا ہے کہ یہ کسی ہالی وڈ ایکشن مووی کا منظر ہے! مگر افسوس، یہ حقیقی مناظر ہیں جو امریکا کی سرزمین پر کئی سال سے بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔

سب واقعات ایک جیسے ہیں بس کردار مختلف ہیں۔ پورے امریکا میں بالعموم اور امریکی اسکولوں میں بالخصوص ہونے والے فائرنگ کے واقعات بظاہر تو الگ الگ دماغوں کی کارستانی ہے، لیکن ان سب کی کڑیاں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں۔ تمام صورت حال کو سمجھنے کے لیے آئیے ذرا پیچھے چلتے ہیں۔

یہ 15دسمبر1791ء کا تاریخی دن ہے۔ اس دن امریکی آئین میں دوسری تاریخی ترمیم کی گئی اور امریکی سپریم کورٹ نے اسلحہ رکھنا ہر فردکا بنیادی حق قرار دے دیا۔ اس فیصلے کو امریکا میں ایک طرف اگر بہت سراہا گیا، دوسری طرف اس کے خلاف آوازیں بھی بلند ہوئیں، جو بالآخر صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئیں۔ وقت آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ امریکا کے سپرمارٹ پر اسلحہ کھلے عام ایسے ہی فروخت ہونے لگا جیسے عام اشیاء۔ اور پھر وہ وقت بھی جلد ہی آیا کہ جب عام فرد تک اسلحے کی رسائی کا فیصلہ امریکا کا اپنا ہی سردرد بن گیا اور دوسری آئینی ترمیم کے خاتمے کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔

امریکی آئین میں ترمیم کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ایک اور آئینی ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی ارکان کی حمایت لازمی درکار ہے۔ یا پھر تمام ریاستی اسمبلیوں کے دو تہائی ارکان کو آئینی کنونشن طلب کرنا ہوتا ہے۔ شرائط پوری ہونے کے بعد بھی آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے امریکا کی تین چوتھائی یعنی کم از کم 38 ریاستوں کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

2008ء میں امریکی سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس فیصلے کی توثیق کی کہ دوسری آئینی ترمیم امریکی شہریوں کو اپنے دفاع کے لیے اسلحہ رکھنے کا حق فراہم کرتی ہے۔ اس بنچ میں شامل جان پال اسٹیونز نے اس وقت بھی بنچ کے فیصلے کے خلاف رائے دی اور کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ این آر اے (نیشنل رائفل ایسوسی ایشن) کے لیے سود مند ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ امریکی قانون کے مطابق اٹھارہ سال کا نوجوان بھی خطرناک ہتھیار خرید سکتا ہے۔ موجودہ حکمراں پارٹی کا موقف یہ ہے کہ اسلحہ خریدنا ہر امریکی کا بنیادی حق ہے اور اس پر پابندی لگانا دوسری آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔

امریکی اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات تیزی سے بڑھنے کے ساتھ ہی یہ بحث بھی بڑھ چکی ہے کہ آیا دوسری آئینی ترمیم امریکی شہریوں کی حقیقی ضرورت ہے یا ان کی دشمن۔ امریکا کی تاریخ اس آئینی ترمیم کے باعث خونی واقعات سے رنگتی جا رہی ہے۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق صرف 2009ء سے اب تک اسکولوں میں فائرنگ کے 288 واقعات ہوئے ہیں۔ اس سے قبل 1997ء سے2001ء کے درمیانی عرصے میں امریکی اسکولوں میں ہونے والے فائرنگ کے واقعات میں32افراد جان سے گئے۔2001ء وہ سال تھا جب نائن الیون کے باعث امریکی قوم کی تمام ترجیحات ہی بدل گئیں، تو فائرنگ کے واقعات بھی یک دم رک گئے۔


لیکن2009ء سے دوبارہ شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہاں تک کہ اسکولوں کے طلبا کی طرف سے ایک سلوگن بہت مشہور ہو رہا ہے کہ مجھے اپنا گریجویشن مکمل کرنے جانا ہے قبرستان نہیں۔ رواں سال فروری میں پارک لینڈ میں ہونے والے فائرنگ کا واقعہ جس میں ایک نوجوان نے خودکار اسلحہ سے انیس افراد کو ہلاک کیا، اس کے بعد مشہور امریکی سپر مارکیٹ چین وال مارٹ نے کہا کہ اب وہ اکیس سال سے کم عمر افراد کو آتشیں اسلحہ فروخت نہیں کرے گی۔

اتنے بڑے مسئلے کے اس بودے سے حل پر سوائے ہنسنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ پھر ٹرمپ ایک اور مضحکہ خیز حل دریافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ اساتذہ کو بھی اسلحہ فراہم کر دیا جائے۔

اہم سوال تو یہ ہے کہ امریکی حکمراں کیا واقعی دوسری آئینی ترمیم کے ہاتھوں اتنا مجبور ہیں کہ اپنے ان شہریوں کی جانوں کے نذرانے دینے کو بھی تیار ہیں ، جن کی حفاظت اور سلامتی کو بنیادی وجہ بناکر دوسرے خطوں کو بنجرکردیا، یا پھر حقیقت کچھ اور ہے؟ اسکول شوٹنگ کے ہر واقعے کے بعد امریکی ارکانِ حکومت کا من پسند کام ٹوئٹر پر تعزیتی پیغامات جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، لیکن ان کا اس سے زیادہ من پسند کام نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے تعلقات بنانا اور مال کمانا ہے۔

صرف ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت کا ہی جائزہ لیا جائے تو ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نے اکیس ملین ڈالرکی خطیر رقم عطیہ کی تھی جس میں سے9.6 ملین ڈالر ٹرمپ کی تشہیری مہمات کے لیے جب کہ12 ملین ڈالر ہیلری کلنٹن کی بھرپور مخالفت میں صَرف کیے گئے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ رقم اکیس نہیں بلکہ تیس ملین ڈالر تھی۔ اس کے بدلے ٹرمپ نے نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے دوستی کا حق خوب خوب ادا کیا اور مختلف مواقعے پر دوسری آئینی ترمیم کے حق میں بیانات دیے، حتی کہ ہیلری کلنٹن نے جب دوسری آئینی ترمیم کے خلاف بات کی تو ٹرمپ نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا،''پہلے ہیلری اپنے اطراف سے یہ سارے بندوق بردار ہٹا دے پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔''

اسکولوں میں فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف امریکا کے مذہبی طبقے نے بھی آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ''مسٹر ٹرمپ ! اگر آپ کو خدا اور اس کے کہے ہوئے پر یقین ہے تو اسلحہ پر پابندی لگائیے۔ عیسائیت میں بندوق کی کوئی گنجائش نہیں۔''

صرف ٹرمپ ہی نہیں بلکہ دیگر ریپبلیکن سینیٹرز کی بھی ایک لمبی فہرست موجود ہے جنھوں نے نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے بھاری رقوم وصول کیں۔ جن میں مارکو روبیو، جونی ارنسٹ، بل کیسڈی، کوری گارڈنر سمیت بے شمار ارکان حکومت شامل ہیں۔ راب پورٹ مین نے تو 2016ء میں اسلحے کی حمایت میں مہم ہی چلا ڈالی، جس کے لیے نیشنل رائفل ایسوسی ایشن سے تین ملین ڈالر وصول کیے تھے۔

یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ تمام امریکی ارکان حکومت نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے ہاتھوں بک چکے ہیں جن کے ہاتھوں میں امریکا کی تقدیر ہے۔ ان میں سے تقریباً تمام ارکان ہر بار اسکولوں میں فائرنگ اور حادثات کے بعد لواحقین سے اظہارہمدردری کرتے کرتے نہیں تھکتے۔ گزشتہ سال نیویارک ٹائمز نے دس امریکی سیاستدانوں کی قلعی کھولی تھی جن کو نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی طرف سے بھاری فنڈز دیے گئے اور یہ سب ہر حادثے کے بعد کم و بیش یہی کہتے ہیں کہ افسوس! اب امریکا رہنے کی جگہ نہیں۔

جیسے جیسے میں امریکا میں اسلحے کے پھیلائو اور اس کے حکومتی ارکان کی بے حسی کا قریب سے مشاہدہ کر رہی ہوں، نہ جانے کیوں مجھے اپنا وطن جنت لگنے لگا ہے۔ اب بھی اگر کوئی ہمارے حکمرانوں کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے امریکی حکمرانوں کی حب الوطنی کا پاٹھ پڑھاتا ہے تو سوائے مسکرا کر چپ سادھ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
Load Next Story