بیریئراور پبلک سیفٹی…

جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے اور قانون نافذ کرنے والے بھی بے بس ہو جائیں۔ تو عوام کا کون پرسان حال ہو گا۔


Syed Asadullah April 24, 2013

عدالت عالیہ، نگراں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ شہر میں جن جن مقامات اور محلوں میں گیٹ اور بیریئرز نصب کیے گئے ہیں انھیں فوراً گرا دیا جائے۔ عوام کی فلاح و بہبود اور سیکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ نازک ترین حالات میں اور مسائل کے انبار میں کیا عوام کو اتنا بھی حق نہیں پہنچتا کہ قانون نافذ کرنے والوں کی دہشت گردوں اور شرپسند عناصر کی کارروائیوں پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے اپنے طور پر اپنی، اپنے بچوں کی، اپنے محلے داروں کی حفاظت کے لیے حفاظتی اقدامات اپنے طور پر کریں۔

کیا حکومتی ذمے داران اور عدالتی حکام کو معلوم نہیں کہ جرائم پیشہ افراد کس قدر ڈھٹائی اور آزادی کے ساتھ بڑی بڑی شاہراہوں، مالیاتی اداروں یا قانون نافذ کرنے والوں اور دیگر سرکاری املاک، ٹرانسپورٹ اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ محلوں، گلیوں اور بازاروں میں وارداتیں نہیں کر رہے ہیں، سرعام ٹریفک جام میں پھنسے شہریوں سے لوٹ مار نہیں ہو رہی ہے، معلوم کیوں نہیں ہے؟ معلوم سب ہے کیونکہ یہ وارداتیں کھلے عام سب کی آنکھوں کے سامنے اور سورج کی روشنی کے علاوہ رات کے اندھیروں میں بھی کی جا رہی ہیں۔

جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے اور قانون نافذ کرنے والے بھی بے بس ہو جائیں۔ تو عوام کا کون پرسان حال ہو گا۔ یا پھر عوام بھی بے بسی کے عالم میں اسی طرح جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں لٹتے رہیں اور مرتے رہیں۔ واہ! کیا انصاف کا معیار آپ نے اپنایا ہے کہ ان ظالموں کے وار بھی سہیں اور حکومتی ذمے داروں کے ہاتھوں بھی نا انصافی اور مبہم فیصلوں کے سامنے بھی ہتھیار ڈال دیں۔ کیا عمدہ مثال قائم ہو رہی ہے عوام کی خدمت کی۔ اسی لیے شاید یہ مقولہ تیار کیا گیا ہے کہ ''پولیس کا فرض ہے عوام کی خدمت'' ظاہراً تو بہت اچھا لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کو دن رات عوام کی خدمت کی خاطر دھوپ، سردی، گرمی، بارش، آندھی، طوفان میں سڑکوں پر ڈیوٹی انجام دینا پڑتا ہے اور ان کی اس سخت جان کارکردگی کو سراہا نہ گیا تو ان کی حوصلہ شکنی ہو گی اور وہ مایوسی کا شکار ہو کر بضد خراب کارکردگی دکھانے پر آمادہ ہو جائیں گے۔

مگر عملاً میدان میں کیا ہو رہا ہے، کیسے کھیل تماشے کر رہے ہیں ان کو بھی تو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہی بات سامنے آتی ہے کہ ''ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور''۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ عوام تو خود دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، قتل و غارت گری، اغواء کاری، بھتہ خوری کا شکار ہیں اور انتظامیہ ان ہی پر ان کے جائز حقوق پر سفاکانہ حملے کرتے رہیں۔ کبھی ڈبل سواری پر پابندی، تو کبھی سی این جی پر پابندی، کہیں لوڈ شیڈنگ کا طوفان تو کہیں گیس کا بحران، پانی کا بحران، مہنگائی کی مار (ایسی ویسی مار کہ بندہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ''زبردست مارے بھی اور رونے نہ دے'') کیا یہی عوام کی خدمت کہلاتی ہے؟ اگر عام اپنی اور اپنے محلے کی حفاظت کے لیے بیریئرز لگا رہے ہیں تو کوئی جرم نہیں کر رہے ہیں۔

وہ خود کار حفاظت یعنی اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہیں۔ اور ان بیریئرز کے نصب کرنے سے جرائم (چوری، ڈکیتی، رہزنی، مشکوک افراد کی نقل و حرکت وغیرہ) کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ اس کے باوجود بھی محلہ کمیٹی کے ارکان باری باری ڈیوٹی لگا کر راتوں کو گشت بھی کرتے ہیں اور جگہ جگہ محلوں میں گلیوں کے نکڑوں پر سیکیورٹی چیک پوسٹ بھی بنائے گئے ہیں۔ سیکیورٹی گارڈز بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ تمام حفاظتی اقدامات صرف محلے داروں کے اور متمول حضرات کے تعاون سے کیے جاتے ہیں۔ اور ہاں! یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے قانون نافذ کرنے والوں اور محلے کے سفید پوش کارنشینوں کو بھی آنے جانے میں دقت ہوتی ہے۔

یہ بالکل جھوٹ ہے، کہیں بھی اور کسی محلے سے بھی ایسی شکایات موصول نہیں ہوئیں۔ بلکہ ان اقدامات کے ذریعے محلے داروں کو جو تحفظ ملا اس کو سراہا گیا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں برتا گیا سب جگہ ہم آہنگی، ہم خیالی اور محلہ پرستی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اور یہ بھی کہنا غلط ہے کہ بیریئرز کے ذریعے تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر گلیوں میں دو طرفہ آمد و رفت کے راستے ہیں تو ان میں سے ایک طرف کا راستہ بالکل کھلا رہتا ہے اور صرف رات کے وقت (ایک معینہ وقت) کے بعد دونوں راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر رات بارہ بجے کے بعد بند کیے جاتے ہیں اور اگر کوئی اس معینہ وقت کے بعد بھی آ جائے تو سیکیورٹی گارڈ یا گشت پر مامور افراد باقاعدہ شناخت کرنے کے بعد انھیں آنے کی اجازت دیتے ہیں۔

اگر کوئی ایمرجنسی ہو جاتی ہے تو اسی وقت متاثرہ شخص یا فیملی کو اسپتال یا دیگر جگہوں پر اپنی مدد آپ کے تحت پہنچا دیا جاتا ہے بصورت دیگر فوراً ایمبولینس کو مطلع کر کے آمد کی اجازت دے دی جاتی ہے اور مطلوبہ راستے کے گیٹ کھول دیے جاتے ہیں اور بیریئرز بھی ہٹا دیے جاتے ہیں۔ اتنے عرصے سے یہ نظام قائم ہے لیکن اللہ کے فضل سے نہ کوئی دنگا فساد ہوا، نہ مجرمانہ کارروائیاں ہوئیں، نہ شکایات ہوئیں۔ نظام بہ حسن و خوبی انجام پا رہا تھا۔ لیکن اب اس نظام کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی اداروں کو معلوم نہیں کیا سوجھی کہ اس نظام میں خرابی نظر آ گئی۔ اور ان کے شک و شبہات امڈ کر آئے اور انھوں نے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر بھی پابندی لگا دی اور سخت احکامات جاری کر دیے۔ اللہ تعالیٰ حکمرانوں (چاہے اصلی ہوں یا نگراں ہوں) کو نیک ہدایت اور نیک توفیق دے کہ وہ عوام کی خدمت، عوام کی فلاح و بہبود اور معاشرتی امور جیسے اقدامات میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے بجائے اس میں تعاون کریں۔

کہنے کو تو شور بہت مچایا جاتا ہے کہ عوام کی بھلائی، عوام کی فلاح و بہبود، عوام کے مسائل حل کرنا، صرف حکومت ہی اکیلے سر انجام نہیں دے سکتی بلکہ اس میں عوام کو بھی شامل ہونا چاہیے انھیں خود بھی کچھ کام کرنا چاہیے۔ سارا بوجھ حکومت کے کاندھوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس کے برعکس جب عوام خود اپنی مدد آپ کے تحت فلاحی و خیراتی ادارے قائم کر کے یا سوسائٹیاں بنا کر مختلف امور نمٹاتے ہیں تو اس پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، غیر قانونی موشگافیاں اٹھائی جاتی ہیں، عوام کو طرح طرح کے حربوں سے تکلیف دے کر ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔

اس ساری بحث سے کیا یہ بات ثابت نہیں ہو گئی کہ بیریئرز اور گیٹس کے نصب کیے جانے کے اقدامات، انسانیت کی خدمت اور عوام کی فلاح و بہبود کے زمرے ہی میں آتے ہیں۔ یہ کوئی ملک دشمن اور مجرمانہ عمل تو نہیں ہے۔ ارے بھائی! موجودہ سنگین امن و امان کی صورت حال کے مدنظر آپ اگر کوئی خدمت عوام کی نہیں کر سکتے ہیں تو عوام کو خود ہی اپنے محلوں کا تحفظ اور جان و مال کے تحفظ کے اقدامات کرنے سے مت روکیے بلکہ ان کاموں کو ترقی دینے یا بہتر بنانے میں تعاون کریں۔

میں بار بار یہی بات دہرائے جا رہا ہوں اس لیے کہ آپ کا آئینی، قانونی، اخلاقی اور انسانی فرض ہے کہ عوام کے اپنی مدد آپ کے تحت سر انجام دینے والے منصوبوں کو آگے بڑھائیں۔ ان میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اس کے تدارک کے لیے اقدامات کریں نہ کہ ان منصوبوں کو سبوتاژ کر دیں۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیجیے، اپنے طور و اطوار درست کر لیجیے۔ ملک پہلے ہی نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے، اسے مزید تباہ کرنے کی کوشش مت کیجیے۔ ورنہ۔۔۔۔۔ورنہ کیا ہو گا؟ ارے ! وہی ہو گا جو 5 سال تک ہوتا رہا ہے اور 65 سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ آنکھوں پر سے تعصبات کی عینک اتاریئے اور سب کے ساتھ انصاف کیجیے۔ تفرقات، تضادات اور نفرتوں کا ماحول پیدا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

''عوام کی خدمت۔۔۔۔پاکستان کی خدمت''

یہی اپنا شعار بنائیے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ایسا ویسا سخت کہ جو بھی اس سے ٹکرائے گا، پاش پاش ہو جائے گا۔ سوچیے مت، سر پکڑیئے مت، بس عوام کی خدمت کے لیے کمربستہ رہیے، شکریہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں