بھٹو کا مشن اب سوالیہ نشان
پیپلزپارٹی کےقائد ذوالفقار علی بھٹو کا منشور عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دلانا تھا جو کسی پارٹی رہنماء کو یاد نہیں آیا.
گزشتہ ماہ اپنی میعاد مکمل کرنے والی قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ ذوالفقار مرزا نے کہا ہے کہ11مئی کو دوبارہ منتخب ہو کر ہم بھٹو کے مشن کو پورا کریں گے، انتخابی مہم میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے شوہر سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے3 سال قبل کے مشن کو مکمل کریں گے، انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ 11مئی کو فہمیدہ مرزا اور ہمارے صاحبزادے کو ووٹ دیکر کامیاب بنائیں، سابق اسپیکر سمیت پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی حیران کن نتائج دیکر کامیابی دوبارہ حاصل کرے گی، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کا تعلق بھٹو خاندان سے ہے اس لیے عوام پیپلز پارٹی کو دوبارہ کامیاب بنائیں گے۔
عام انتخابات کے لیے اب انتخابی مہم ملک بھر میں شروع ہو چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے تمام رہنما اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم میں مصروف ہو گئے ہیں اور اپنی حکومت کی5 سالہ کارکردگی کو بنیاد بنا کر عوام کے پاس جا رہے ہیں، پیپلز پارٹی کی طرف سے اخبارات میں اپنی5 سالہ کارکردگی کے اشتہارات بھی شایع ہو رہے ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آج عالمی کساد بازاری کے باوجود پاکستان کی برآمدات 23.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جو 5 سال قبل19 ارب ڈالر تھی، پی پی کے دعوئوں کے برعکس لاہور میں تاجر تنظیموں کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ملکی معیشت بند گلی میں پہنچ گئی ہے، بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ملک کی صنعتیں بند اور تباہ کر دیں باقی ملک سے باہر منتقل ہو رہی ہیں۔
آج صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو عوام کے پاس جانے اور انتخابی مہم چلانے میں سخت مشکلات حائل ہیں، پیپلز پارٹی کے سیکڑوں رہنماء اور دیرینہ کارکن اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ پی پی چھوڑ گئے ہیں، پی پی سندھ کے 40 سال سے ساتھ رہنے والے سندھ کونسل کے رکن نے کہا ہے کہ اب پیپلز پارٹی میں فیصلے کیے نہیں سنائے جاتے ہیں، ایکسپریس کی خبر کے مطابق ایک پرانے جیالے نے اپنے ضلعی جنرل سیکریٹری کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے کپڑے پھاڑ دیے کیونکہ جیالے سے اس نے ایک سال قبل سرکاری نوکری دلانے کے لیے رقم لی تھی مگر نوکری نہیں دلائی۔
لاڑکانہ کے انتخابی سروے میں بتایا گیا ہے کہ سابق اسپیکر نثار کھوڑو اور سابق وزیر قانون ایاز سومرو کو ان کے حلقے میںمشکلات کا سامنا ہے، پیپلز پارٹی کے سابق وزراء اور ارکان اسمبلی کی اکثریت اپنے حلقوں سے دور جا چکی تھی اب واپس آنے پر انھیں اپنے لوگوں کا ہی نہیں بلکہ پارٹی کے جیالوں کے بھی غیض و غصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، چند ماہ قبل تک حکومت میں ہوتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کے سامنے وزیروں اور ارکان اسمبلی پر ملازمتوں کی فروخت کے الزامات لگائے جاتے تھے، آئے دن سرکاری تقریبات میں ہنگامہ آرائی ہوتی تھی، قاضی مظہر عوام کی ناراضگی کے باعث خود انتخابات نہیں لڑ رہے، پی پی حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے اب عوام کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔
سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی کا کہنا ہے کہ شہید بھٹو اور محترمہ کی زندگی میں پیپلز پارٹی نظریاتی تھی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم نے پارٹی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور میں جلد سندھ کے نظریاتی کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں گا، پی پی سندھ کونسل کے رکن مظہر تالپور نے پی پی سے اپنی21 سالہ رفاقت ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی پی کی جد و جہد میں بھرپور ساتھ دینے والے کارکن آج مایوس ہیں۔
پیپلز پارٹی میں33 سال رہنے والے میرپور خاص کے رہنما ٹھارو پنہور نے پارٹی میں نظر انداز کیے جانے پر کہا برے وقتوں میں جیلیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں کو صلہ دینے کے بجائے نئے آنیوالے ان لوگوں کو نوازا گیا جو اقتدار کے مزے لوٹتے اور پارٹی کو بلیک میل کرتے رہے۔
ٹنڈو الٰہ یار میں ٹکٹ دیکر واپس لیے جانے پر 107کارکنوں نے پیپلز پارٹی سے استعفے دے دیے۔ کیونکہ جس امداد پتافی کو ٹکٹ دیا گیا انھوں نے5 سال تک کارکنوں کو نظر انداز کیا۔
سندھ پیپلز پارٹی کا اہم گڑھ ہے اور پی پی پی کی سابق سندھ حکومت میں پیپلز پارٹی کے وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد اتنی زیادہ رہی جتنی پیپلز پارٹی کی ماضی کی کسی بھی حکومت میں کبھی نہیں رہی اور ان سب نے5 سالوں تک کارکنوں کو نظر انداز کیے رکھا۔ پارٹی عہدیدار بھی پیچھے نہیں رہے وہ ملازمتیں دلانے میں پیش پیش تو رہے۔ پیر پگارا نے بھی اس سلسلے میں متعدد بار نشاندہی کی مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کا منشور عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دلانا تھا جو کسی پارٹی رہنماء کو یاد نہیں آیا بلکہ یہ تینوں چیزیں غریبوں سے چھین لی گئیں، پی پی دور میں مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم ہوا، کرپشن انتہاء پر پہنچی، سرکاری زمینیں کوڑیوں کے دام فروخت کر دی گئیں مگر فروخت کم اور قبضے زیادہ ہوئے، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتیں بند اور تباہ کر دیں اور کہا جا رہا ہے کہ1997میں برسر اقتدار آنے والے اس کے ذمے دار ہیں تو پی پی نے خود 5 سالوں میں کیا کیا؟ کمیشن کے لیے رینٹل پاور پلانٹس حاصل کیے گئے مگر لوڈ شیڈنگ بڑھتی ہی گئی۔
بہر حال ان تمام مشکلات کے باوجود سندھ میں پیپلزپارٹی سب سے بڑی جماعت ہے' دہشت گردی کا خوف بھی موجود ہے لیکن ان تمام خطرات کے باوجود پارٹی کے امیداوار اپنی مہم چلا رہے ہیں' اب 11 مئی کی سخت گرمی میں لوگ ووٹ دینے نکلیں گے' اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنا ووٹ کس کے حق میں ڈالتے ہیں۔ سندھ پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے کیا اس کی یہ حیثیت برقرار رہے گی یا نہیں۔