ٹکراؤ
عمران خان کو تو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہونے کا کھلے الفاظ میں طعنہ دیا جا رہا ہے۔
ISTANBUL:
میاں صاحب اپنے اوپر چاروں اطراف سے مختلف مقدمات کی بھرمار، پھر نااہلی کے زخم اور ساتھ ہی وزارت عظمیٰ کے چھن جانے سے کس کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں کیا کسی کو اس کا احساس بھی ہے۔ ان کا نام پاناما لیکس میں نہ ہوتے ہوئے بھی انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے جیسی معمولی بات پر عام قانون سے ہٹ کر بلیک لا ڈکشنری کی مدد سے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا جانا کیا یہ ان کے دل و دماغ پر گہرے گھاؤ نہیں لگا گیا؟ لگتا ہے وہ اسی دن سے اپنے ہوش وحواس کھوچکے ہیں اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پل کر بڑے عہدوں تک پہنچے تھے۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے کی وجہ سے ہی ان کے مخالفین انھیں ہمیشہ ہی طعنہ دیتے رہے ہیں مگر اب یہ کیا ہوا کہ وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خم ٹھوک کرکھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاستدان اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زرداری جیسا جاندار لیڈر آخر مصالحت کرکے اب شاید اسی کو خوش کرنے کے لیے میاں صاحب کے خلاف روز ہی بیانات داغ رہا ہے۔
ادھر عمران خان کو تو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہونے کا کھلے الفاظ میں طعنہ دیا جا رہا ہے۔ میاں صاحب نے دراصل سرل المیڈا کو انٹرویو دے کر اپنے لیے نااہل ہونے سے بڑی پریشانی اپنے گلے لگا لی ہے۔ جس دن سے ان کا انٹرویو شایع ہوا ہے پورے ملک کے سیاستدان انھیں غدار اور وطن فروش کا خطاب دے رہے ہیں۔ عمران خان تو انھیں میر جعفر اور میر صادق کی صف میں شامل کرچکے ہیں۔
کوئی اخبار ایسا نہیں ہے جس کے کالم نگار ان کے خلاف نہ لکھ رہے ہوں بلکہ وہ لوگ جو پہلے ان کے حق میں لکھنے میں فخر محسوس کرتے تھے وہ بھی اب انھیں آئینہ دکھا رہے ہیں۔ ادھر ہر ٹی وی چینل پر اینکر حضرات سے لے کر ٹاک شو میں شریک تجزیہ کار بھی انھیں ملک کا مجرم قرار دے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کے انٹرویو کے بعد مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت میں بھی کی آگئی ہے۔
کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب اب ریاست سے اتنے بد دل ہوگئے ہیں کہ مارو اور مر جاؤ کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں۔ انھی لوگوں کے مطابق اب وہ اپنے بھائی کے وزیر اعظم بننے کے راستے کا روڑہ بننے سے بھی نہیں ہچکچا رہے ہیں۔ اگر وہ شہباز شریف کا کہنا مان لیتے اور اپنے بیان کو واپس لے لیتے یا اس کی وضاحت کردیتے تو یقینا پارٹی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ اپنے بیان پر کیوں ڈٹے ہوئے ہیں اور جان بوجھ کر اپنا نقصان کرانے پر بضد ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی سویلین حکومت پر برتری کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے انھیں کچھ فائدہ پہنچنے کے بجائے سارا فائدہ بھارت نے اٹھا لیا ہے۔ اب وہ سب طرف ڈھنڈورا پیٹتا پھر رہا ہے کہ ممبئی حملوں میں پاکستانی حکومت ملوث تھی۔ میاں صاحب کے حالیہ انٹرویو سے قبل ڈان لیکس کے سلسلے میں جو خبر ڈان اخبار تک پہنچائی گئی اور اخبار نے اپنی قومی ذمے داری کا خیال کیے بغیر اسے شایع کردیا تھا۔
اس خبر کا بھی بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا تھا اور امریکا کے مسلم کش صدر ٹرمپ کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی کھلے عام بے عزتی کرائی تھی اور پاکستان کی امداد بھی بند کرا دی تھی۔ بعد میں نواز حکومت نے اپنے وزیر اطلاعات کو اس خبر کے لیک ہونے کا ذمے دار قرار دے کر انھیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ تاہم لگتا ہے انھوں نے اس وقت بھی اس لیک کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا۔
اس واقعے پر چوہدری نثار حکومت پر سخت سیخ پا ہوئے تھے وہ تب سے ہی میاں صاحب سے دور اور شہباز شریف کے قریب ہیں۔ چھوٹے میاں ملکی سیاست کی باریکیوں کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں اور اسی لیے ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کبھی ان بن نہیں ہوئی۔ میاں صاحب چونکہ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور وہ ملکی رازوں سے واقف ہیں چنانچہ اسٹیبلشمنٹ ان کی حکومت سے وضاحت طلب کرنے کے لیے قومی سلامتی کونسل کا دو مرتبہ اجلاس بلاچکی ہے۔ میاں صاحب نے اس کی قراردادوں کو ہی رد کردیا ہے۔
بہرحال میاں صاحب کا اپنے بیان پر ڈٹ جانا ضرور معنی خیز ہے۔ ان کا شاید یہ خیال ہے کہ انھوں نے سوالیہ انداز میں بات کہی ہے چنانچہ اس کا کوئی مطلب نہیں نکالا جاسکے گا مگر انھیں سوچنا چاہیے تھا کہ کیا غیر ریاستی عناصر بھی کسی کی اجازت کے طلب گار ہوتے ہیں۔
پوری دنیا یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ غیر ریاستی دہشت گردوں پر کسی حکومت کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ جب نومبر 2008 میں ممبئی میں حملے ہوئے اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی اس نے بغیر تحقیق انھیں پاکستانی غیر ریاستی عناصر کی کارروائی تسلیم کرلیا تھا مگر ایسا امریکی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے کرنا پڑا تھا۔
امریکی دباؤ ہی کی وجہ سے کسی ثبوت کے نہ ہونے کے باوجود بھی بھارت کی خواہش پر پاکستان میں چند نوجوانوں پر مقدمات قائم کرکے انھیں حراست میں لے لیا گیا تھا اور یہ وہ لوگ تھے جو کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں مدد کرنے پر ایک عرصے سے بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے۔ یہ مقدمہ تو اب بھی چل رہا ہے مگر بھارت ان میں سے کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کے سلسلے میں آج تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ممبئی کا واقعہ کشمیریوں کی آزادی کو سبوتاژ کرانے اور پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ثابت کرنے کی سازش کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ دراصل بھارت کے اپنے پالتو بی جے پی کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کا فعل تھا۔ ممبئی پولیس کا ایک سینئر افسر ہیمنت کرکرے اس واقعے میں بی جے پی کے غنڈوں کے ملوث ہونے کے سلسلے میں بیان دے چکا تھا چنانچہ اسے فوراً ہی قتل کردیا گیا تھا۔ اس کی بیوہ آج بھی اس واقعے کو بھارتی کارروائی مانتی ہے اس نے تو بھارتی حکومت کی جانب سے اسے چپ کرانے کے لیے دی جانے والی رقم کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ان حملوں پر ایک جرمن محقق ایلس ڈیوڈسن کی آٹھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ''بھارتی دھوکے'' کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے۔ اس میں ممبئی حملوں کو بھاری ''را'' کی کارروائی ثابت کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے شایع ہونے کے بعد سے بھارت بہت بوکھلایا ہوا ہے کیونکہ ممبئی حملوں کے ان کے ڈرامے کا راز فاش ہوگیا ہے اور وہ اب کشمیریوں کی آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے مزید ڈرامے رچا کر دنیا کو دھوکہ نہیں دے سکے گا۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں سول اور اسٹیبلشمنٹ تعلقات شروع سے ہی کشیدہ رہے ہیں۔ ان تعلقات کی خرابی کی وجہ سے ہی ملک نہ تو عالمی برادری میں اپنا جائز مقام حاصل کرسکا ہے اور نہ ہی اندرون خانہ امن و استحکام کا قیام حقیقی شکل اختیار کرسکا ہے۔ ملک کی سلامتی اور عوام کی فلاح کے لیے اب ضروری ہے کہ دونوں اپنے دائروں میں رہ کر اپنا کام کریں ساتھ ہی عوام سے جمہوریت کو کبھی نہ ڈی ریل ہونے دینے کا پکا وعدہ کریں۔