گرمی کی شدت اور کراچی

عالمی تپش میں اضافہ اس وقت کرۂ ارض کا سب سے بڑہ مسئلہ ہے۔

صوبہ سندھ میں جاری گرمی کی حالیہ شدید لہر کی وجہ سے جہاں کاروبار ِ زندگی متاثر ہوا ہے ،وہیں کئی افراد جاں بحق بھی ہوئے ہیں ۔ حالانکہ سرکار کی جانب سے کسی بھی فرد کے گرمی کی وجہ سے جاں بحق ہونے کی تردید کی جارہی ہے لیکن ریسکیو کی خدمات سرانجام دینے والے بڑے ادارے کی جانب سے اب تک 50سے زائد افراد کے صرف کراچی میں جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔

جہاں تک سرکار ی ذرائع کی بات ہے تو وہ تو تین سال قبل 2015میں بھی کراچی میں اسی طرح کی شدید گرمی میں لُو لگنے ، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گھروں میں پیدا ہونے والی گھٹن کی وجہ سے جاں بحق ہونیوالے 1300افراد کے اعداد و شمار پر بھی اعتراضات کرتے رہے ۔ یوں تو اس وقت بھی پورا سندھ صوبہ گرمی کی شدید لپیٹ میں ہے لیکن بلوچستان سے شروع ہوکر سندھ کے بدین ضلع تک پھیلی ساحلی پٹی بالخصوص کراچی کی حالت بہت زیادہ نازک ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا معاشی و صنعتی حب ہونے کے ساتھ ساتھ ساحلی شہر بھی ہے مگر یہاں پر عالمی سطح کی شہری سہولیات کی فراہمی ، تعمیر سازی ، صنعتی و آبادی سے متعلق کوئی واضع اور فعال پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے جس کا جس طرف جی چاہتا ہے منہ اٹھاکر عمارت تعمیر کردیتا ہے ، شہری گند و کچرہ اورصنعتی فضلہ پھینک دیتا ہے ۔ شہر بھر کا نکاسی ِ آب ، ڈیری ، پولٹری اور کیمیائی و صنعتی فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں ڈالا جارہا ہے ۔

اکثر صنعتیں ٹریٹمنٹ پلانٹ کے بغیر چل رہی ہیں ، جس سے کارخانوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں خطے کی آب و ہوا کو مسلسل آلودہ کرتے ہوئے اس نہج پر پہنچا چکا ہے ۔ جس میں نمی (Moisture) اور آکسیجن کی شدید کمی واقع ہوگئی ہے جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے ۔ اسی وجہ سے گذشتہ 7،8برس سے کراچی سمیت سندھ کی ساحلی پٹی کے روایتی موسم میں تبدیلی واضع طور پر نظر آنے لگی ہے ۔

ماضی میں گرمیوں کے دوران سمندری روایتی خوشگوار ہوائیں مشہور تھیں لیکن گذشتہ کچھ سالوں سے یہ ہوائیں ناپید ہوگئی ہیں ۔ ان کی جگہ خنک ہواؤں نے اپنے ڈیرے جمالیے ہیں جن سے ماحول میں نمی کی مقدار 3سے 13فیصد تک کم ہوکر رہ گئی ہے ۔

ملک بھر میں عمومی طور پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے عالمی موسمیاتی تبدیلی کا اثر خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے لیکن ساحلی پٹی پر کئی ملین ایکڑ پر پھیلے قدرتی طور پر ماحولیات کے اثرات سے تحفظ کی طاقت رکھنے والے مینگروز کے درخت کاٹ کر تو جیسے بھیانک تباہی کو دعوت دی گئی ہے ۔

2کروڑ سے زیادہ آبادی کے حامل عالمی شہر کو سمندری آلودگی اور خنک ہواؤں کی زد میں جھونک دیا گیا ہے ۔ وہ کراچی جس کا گرمیوں میں درجہ حرارت 29تا 30سینٹی گریڈسے اوپر نہ جاتا تھا اور موسم گرما کے تمام ایام یہاں پر خوشگوار اور راحت دینے والی ہوائیں چلتی رہتی تھی ، اکثر و بیشتر بارش یا پھر پُھوار ہوتی رہتی تھی اور رات کے وقت تو نمی کی مقدار کا یہ عالم تھا کہ کھلے میں بیٹھنے سے اکثر جسم و کپڑے بھیگ جاتے تھے ۔

وہ کراچی آج کل 43سے 45سینٹی گریڈ کے درجہ ٔ حرارت کی لپیٹ میں ہے جب کہ نمی کی مقدار اس حد تک کم ہوجاتی ہے کہ ایشیا کے سب سے زیادہ گرم علاقوں جیکب آباد ، سبی اور نوابشاہ کی طرح یہاں لُو لگنے سے لوگ سیکڑوں کی تعدا د میں جاں بحق ہونے لگے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ کراچی کے موسم میں ہونے والی اس سنگین تبدیلی میں جہاں عالمی موسمیاتی تبدیلی اور ملکی غلط پالیسیوں کا اثرہے وہاں کراچی کے سابقہ میئر کی غلط پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے جیسے انھوں نے اپنے دور میں کراچی میں مقامی ماحول دوست درختوں کی جگہ بے ثمر ، بے سایہ و بے اثر درختوں کی شجر کاری کی اسکیم پر کام کیا اور خصوصی طور پر شہر بھر میں کونو کارپس (Conocarpus) کے درخت لگوائے جوکہ زمین سے نمی کے خاتمے کا باعث ہیں ۔

عالمی تپش میں اضافہ اس وقت کرۂ ارض کا سب سے بڑہ مسئلہ ہے۔ اس وقت اوسط عالمی درجہ حرارت 15ڈگری سینٹی گریڈ ہے لیکن ارضیاتی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اس میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے تاہم ماضی میں ہونے والی تبدیلیوں کے مقابلے میں درجہ حرارت میں ہونے والی موجودہ تبدیلی بہت تیزی سے رونما ہورہی ہے ۔ سائنسدانوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں کی جانے والی اس برق رفتار تبدیلی سے مستقبل میں زمین کے موسم پر شدید اثرات مرتب ہوں گے ۔

کروڑوں سالوں سے موجود یہ زمین اگر اپنا وجود برقرار رکھ سکی ہے تو اس میں شمسی توانائی اورقدرتی گرین ہاؤس اثر کا بڑا عمل دخل ہے ۔ گرین ہاؤس اثر اس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے جس کی مدد سے زمین سورج سے حاصل شدہ توانائی کو مقید کرلیتی ہے ۔ سورج سے آنیوالی حرارت روشنی کی شکل میں زمین کی سطح سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہوکر واپس خلا میں بکھر جاتی ہے ، تاہم کرہ ٔ ہوائی میں موجود گیسیں اس حرارت کے کچھ حصے کو جذب کرلیتی ہیں ، جس سے کرہ ٔ ہوائی کا نچلا حصہ اور زمین کی سطح دونوں گرم ہوجاتے ہیں ۔


اگر یہ عمل نہ ہوتا تو اس وقت زمین 30درجہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی اور اس پر زندگی گذارنا بہت مشکل ہوجاتا ۔ سب سے اہم گرین ہاؤس گیس پانی کے بخارات ہیں ، لیکن یہ فضا میں چند دن ہی باقی رہتے ہیں ۔ اس کے مقابلے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رہتی ہے ۔

انسان قدرتی ایندھن جلاکر اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے جنگلات کاٹ کر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ کررہا ہے جب کہ 1750میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدارمیں 30فیصد اور میتھین کی مقدارمیں 140فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت فضا میں جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے ، پچھلے آٹھ ( 8) لاکھ سالوں میں کبھی نہیں تھی ۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسان کارخانوں اور زراعت کے ذریعے گرین ہاؤس گیس فضا میں داخل کرکے قدرتی گرین ہاؤس اثر کو بڑھاوا دے رہا ہے جس سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ جس سے پہاڑوں پر واقع گلیشئرز اور قطبی برف کی تہہ پگھل رہی ہیں ۔سائنسدان مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ قطبی برف میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔ جس سے دنیا میں اوسط درجہ حرارت میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور پانی گرم ہوکر پھیل جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سمندر کی سطح تین ملی میٹر سالانہ بلند ہورہی ہے ۔

سائنسدانوں کایہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں طوفان اور سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ تاہم دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اثرات مرتب ہورہے ہیں جیسے پاکستان میں1998سے 2001کے دوران خشک سالی، 2010میں آنیوالا سیلاب اور 2014میں بھی ملک کے دو حصوں میں خشک سالی ہوئی جس سے تھر پارکر اور چولستان کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔

2016میں دنیا کے 150ملکوں نے روانڈہ میں جمع ہوکر زمین کے ماحول کے تحفظ کے لیے عالمی تپش میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ۔ جس کے تحت گرین ہاؤس ہائیڈرو فلوروکاربنز گیسوں کا اخراج کم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے ۔ ہائیڈرو فلورو کاربنز وہ گیس ہیں جو فریزروں ، ایئرکنڈیشنروں اور اسپرے میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور یہ عالمی حدت میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہیں ۔

جرمنی کی تھنک ٹینک نے اپنے جریدے جرمن واچ میں شایع کردہ اپنی 2016کی انڈیکس برائے گلوبل کلائمیٹ رسک میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر جن 10ممالک کا ذکر کیا ان میں پاکستان پانچویں (5) نمبر پر ہے ۔ پاکستان کے اس فہرست میں آنے کی وجوہات میں بحیرہ عرب کی سطح میں اضافہ سے صوبہ سندھ کی اراضی کا زیر آب آنا اور شمالی علاقوں میں موجود دنیا (قطب جنوبی اور قطب شمالی کے بعد)کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ ، ہندوکش اور قراقرم میں گلیشئرز کے پگھلنے سے سیلاب آنا شامل ہیں ۔

موسمیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والے ادارے گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے آنے والی دہائیوں میں پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگا اور پاکستان میں گرم موسم کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوگا ۔ درجہ حرارت میں اضافے سے فصلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس سے ملک کو خوراک کے بحران کے حوالے سے شدید خطرات لاحق ہیں ۔

کراچی کو ساحلی شہری جزیرے کی نظر سے دیکھتے ہوئے ماحولیاتی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس کی بناوٹ اور سمندر کے اوپر ہوا کے دباؤ کی طویل موجودگی روایتی سمندری تازہ ہوا کو شہر کی طرف آنے سے روکتی ہے ، اس پر تیزدھوپ صورتحال کو مزید خراب کردیتی ہے ۔ دیکھا جائے تو کراچی دنیا کے بڑے ڈیلٹاؤں میں سے ایک انڈس ڈیلٹا کے قریب ہے۔

دریائے سندھ اپنے طاقتور و میٹھے پانی میں جب ریت (Salanity) لاتا تھا تو وہ یہاں کے ایکو سسٹم کو بحال رکھتا اور سمندر کے اثرات کو کم کرتا تھا مگر کئی سالوں سے بالائی علاقوں میں ڈیموں کے ذریعے روکے گئے قدرتی بہاؤ کے نتیجے میں اب دریا خشک سالی کا شکار ہوکر رہ گیا ہے جب کہ کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم کے تقریبا80فیصد لوگ دربدر ہوئے ہیں اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوکر رہ گئی ہے دوسری جانب لاکھوں ایکڑ زمین سمندر ہڑپ کرچکا ہے یعنی سمندر کی سطح بلند ہوکر ڈیلٹا کے برابر اور کراچی سے انتہائی بلند ہوگئی ہے جب کہ اس خطے کو قدرتی طور پر تحفظاتی ماحول فراہم کرنے والے مینگروز کے جنگلات کو بھی ہم نے اپنی نااندیشی اور حوص کی وجہ سے ختم کردیا ہے ایسے میں کراچی شہر کا روایتی تعمیراتی و بنیادی ڈھانچہ اور زمین کے استعمال کا طریقہ قیامت خیز تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کراچی میں5سے 8سینٹی گریڈ درجہ حرارت زیادہ رہنے لگا ہے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر مؤثر حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو یہ صورتحال کسی انتہائی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (EIU) کی جانب سے عالمی طور پر جاری کردہ 2017کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کراچی دنیا کے 60 غیرمحفوظ ترین خطوں میں شامل ہے اور ان 60میں بھی وہ سرفہرست خطوں میں شمار ہوتا ہے ۔

اس صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی تجزیاتی ٹیم نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1945سے بحیرہ سندھ ( بحیرہ عرب) میں کوئی زلزلہ نہیں آیا ہے لیکن خدانخواستہ کسی بھی حادثے کی صورت میں کراچی کو کسی بڑے سونامی کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ایک چھوٹی سی حرکت بھی کراچی کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے لیے کافی ہوگی ۔

اس کے باوجود نہ تو وفاقی ، صوبائی اور مقامی انتظامیہ نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور نہ ہی کوئی مؤثر حکمت عملی اختیار کی ہے ۔ جب گرمی کی شدت کی وجہ سے اہلیان ِ کراچی بے حال ہوتے ہیں تو حکومت صرف لُو لگنے سے بچاؤ سے متعلق آگاہی مہم و احتیاطی تدابیر پر مبنی اشتہارات چلاکر خود کو اس اہم ذمے داری سے بری وزمہ سمجھ لیتی ہے جب کہ کراچی کو اس وقت جن ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اُن میں (1) کراچی سے کونوکارپس کے درخت کاٹ کر شہر بھر میں بڑے پیمانے پر مقامی ماحول دوست درخت جیسے نیم ، ٹالھی ، برگد وغیرہ لگائے جائیں اورخاص طور پر ساحلی پٹی میں بڑی مقدار میں میگروز کی دوبارہ شجرکاری کو یقینی بنایا جائے ۔ (2) شہر میں عمارات پر سفید یا معکوس مادہ(Reflective Material) استعمال کریں تاکہ شہر کے مجموعی درجہ حرارت میں کمی ہو سکے۔ (3) شہر میں جاری و مستقبل کی ٹاؤن شپ تمام اسکیموں پرباقاعدہ شہری منصوبہ بندی کے قوانین سختی سے لاگو کیے جائیں۔(4)لُو کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شہر بھر میں کول سینٹر قائم کیے جائیں جہاں پینے کا پانی ، پنکھوں وغیرہ کا انتظام ہو ۔(5)گرمی کی شدید لہر کے دوران اسپتالوں میں ایمرجنسی لاگو کی جائے ۔ ( 6) بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں ۔ ( 7) شہر بھر میں موجود پھواروں کو فعال کیا جائے بلکہ نئے پھواروں کا جال بچھا یا جائے جو کہ ماحول میں نمی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے ۔
Load Next Story