نشان عبرت
ذہن، سوچ، عمل، فکر، عقیدے، گفتار، عدل، بلکہ ناپ تول میں ترازو کا بیلنس بھی ایک اصول کی طرف رہنمائی کی طرف اشارہ ہے۔
شاعر نے جب دو انتہاؤں کے درمیان پھنس کر خود کو بے بس پایا تو یہ شعرکہہ کر اپنی نارسائی کا حل تلاش کر لیا تھا:
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
ذہن، سوچ، عمل، فکر، عقیدے، گفتار، عدل، بلکہ ناپ تول میں ترازو کا بیلنس بھی ایک اصول کی طرف رہنمائی اور فیصلے کی طرف اشارہ ہے کہ ہر کوئی اپنی حد میں رہے کیونکہ تجاوز سے معاملات بے قابو ہو کر بے راہ روی کیطرف لے جاتے ہیں۔ انتہاؤں سے اجتناب عموماً انسانی بس میں ہوتا ہے لیکن تجزیوں اور عقائد کے حوالے سے بعض لوگ بحثوں میں Extremes کو چھونے لگتے ہیں اور فریقین میں بیچ بچاؤ کرانے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ عموماً ایسا لوگوں کے مزاج کی گرمی اور عدم برداشت کے سبب ہوتا ہے۔
ایک تیسری صورت ذہنی انتشار کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہے جو پیدائشی نہ بھی ہو تو بیماری کے بعدازاں نوٹس میں آنے پر متاثرہ شخص کے نامکمل علاج، مالی تنگی، ناکافی نگرانی، بدصحبتی، گھریلو چپقلش، فکری بے راہروی، مریض کے خیالی وساوس، مریض کے شکی مزاج ہونے یا پھر عقیدے کی غیر منطقی Interpretation اسے خود ساختہ یک رخی سوچ کی طرف لے جاتی ہے۔
ہمارے بے شمار لوگ جہالت، افلاس، لاعلمی، میڈیکل کی عدم دستیابی، بلکہ اس بارے میں دلچسپی ہی نہ ہونے کے سبب یا تو جانتے ہی نہیں کہ ان کے گھر کا ایک فرد ذہنی معذوری کا شکار ہے یا پھر کثرت اولاد کی وجہ سے اسے رضائے الٰہی قرار دے کر کان لپیٹ لیتے ہیں۔
مذہب کوئی بھی ہو اس کے نام لیواؤں میں ہزار پندرہ سو میں سے چند ایسے ضرور ملیں گے جو عمل کے لحاظ سے چاہے زیرو کی سطح پر ہوں مذہبی توہین پر کٹ مرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ اس میں تو خیر کچھ برا نہیں لیکن کچھ ایسی ذہنیت کے مالک بھی ہیں کہ اگر کوئی راہ چلتا کہہ دے کہ اس دیوار کے دوسری طرف کھڑے شخص نے توہین رسالت کی ہے تو وہ جذبات سے مغلوب ہوکر فوراً بلا تحقیق اس شخص کو گردن سے دبوچ لے گا۔ ایسی صورت میں جذبہ قابل قدر لیکن بلاتحقیق و تصدیق عمل ناجائز ہے جب کہ ایسی مثالیں اور ایسے واقعات لاتعداد ہیں۔
اس وقت البتہ میرے سامنے ایک ایسے شخص کا گزشتہ ماہ کا واقعہ ہے جو میرے ایک قریبی دوست کا عزیز ہے اور اس کے مطابق عرصہ سے Sheizophrenia کا مریض ہے۔ باقاعدگی سے دوا دکھاتا رہے تو اپنی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے انگریزی زبان کے اسکول میں ٹیچنگ کرتا ہے دوا چھوڑ دے تو بستر پر پڑا رہ کر داڑھی بڑھائے ہمہ وقت عبادت میں مشغول پایا جاتا ہے۔
بچے اپنی اپنی تعلیم میں مصروف، بیوی مالی تنگی سے پریشان۔ اگر وہ اس کی عبادت میں مخل ہو تو ڈانٹ ڈپٹ۔ مجھے ایسی اطلاع ملی لیکن یہ میرا مسئلہ نہیں تھا، اس لیے توجہ نہ دی۔ لیکن ایک روز میرا قریبی دوست میرے پاس آیا اور کہا کہ یہ اس کا ذاتی کام سمجھ کر حل نکالنے میں مدد کروں۔
مجھے بتایا گیا کہ اس کا وہ عزیز ایک ماہ سے غائب تھا اور اب پتہ چلا ہے کہ وہ گوادر کے بارڈر پر پیدل سرحد کراس کرتا پکڑا گیا ہے۔ وہ دوست یہ سوچ کر میرے پاس آگیا کہ میرا تھانے کچہری سے تعلق اس کے عزیز کی بازیابی میں مدد گار ہو گا لیکن گوادر میرے لیے دوسری دنیا کا شہر تھا جہاں نہ کوئی جان نہ پہچان، میں نے معذرت کی لیکن اس دوست کا اصرار تھا کہ اس کا وہ عزیز بیمار اور بے قصور ہے اور گزشتہ بیس روز سے دوا اور علاج کے بغیر گوادر کی حوالات میں ہے۔ اس کا والد ڈاکٹر تھا جب کہ خود اس کی ابتدائی تعلیم برطانیہ میں ہوئی تھی۔
میں نے اپنے دو جاننے والے سابق انسپکٹرز جنرلز پولیس کو تفصیل بتائی تو اتنا ضرور ہوا کہ گوادر سے متعلقہ SHO پولیس اور SP سے رابطہ ہوگیا۔ لیکن پراگریس کوئی نہ ہوئی۔ اسی دوران مجھے امتیاز رفیع بٹ آف رفیع فاؤنڈیشن کا خیال آیا اور میرے ٹیلیفون کے جواب میں اس نے کہا کہ ابھی تمہیں میرے کمپنی کے GM عمران ادریس کا فون آئے گا۔ دس منٹ بعد مجھے میجر عمران کا فون آگیا۔
میں نے اسے بتایا کہ ''ایک نامور ڈاکٹر کا بیٹا تین لائق بچوں کا باپ ایک موذی مرض کا شکار گزشتہ ماہ پیدل چل کر حج کرنے کی نیک نیت لے کر گھر سے غائب ہوا اور گوادر کی جیل میں پڑا ہے۔'' یہ تفصیل اسی روز امتیاز رفیع بٹ کے گوادر میں نمائندے میجر ظفر کو مل گئی۔ اس سے اگلے روز متعلقہ حوالاتی عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے کہا مجھے تمہاری بیماری کا بتایا گیا ہے۔
مقدمے کو ابھی اختتام تک پہنچا دیا جائے گا بشرطیکہ یہ بیان دے دو کہ تم سے ملکی بارڈر کراس کرنے کی کوشش دراصل غلطی ہو گئی تھی۔ ذہنی مریض ملزم نے خم ٹھونک کر جواب دیا کہ ''حج کرنا مجھ پر فرض ہے، موقع ملا تو دوبارہ اسی طرح پیدل جاؤں گا۔ یہ زمین خدا کی ہے اور میں اس کا بندہ ہوں، مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔''
یہ جواب سن کر جج کے پاس مقدمہ میں آئندہ تاریخ دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا۔ اگلی تاریخ پر میجر ظفر نے پیشی سے پہلے مریض کو ڈانٹا کہ غلطی کی معافی نہ مانگی تو سزا ہو جائے گی۔ اس بار مریض ملزم نے مجبوراً معافی مانگی، غلطی تسلیم کی تو جج نے برائے نام جرمانے کے ساتھ رہائی کا حکم دے دیا اور اب یہ مریض ذہنی علاج کے لیے گھر سے فرار کے ایک ماہ بعد اسپتال میں ہے۔
یہ وہ ذہنی مریض ہے جس کی گوادر جیل سے بمشکل رہائی ہوئی۔ ملک میں پیدا ہونے والے تھرڈ سیکس کے تمام افراد شعور پکڑتے ہی گھریلو اور سوسائٹی کی لعن طعن کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے گھر بدر ہو جاتے ہیں جب کہ ذہنی مریض افلاس زدگی یا والدین و اولاد وغیرہ کی عدم توجہی کے سبب علاج نہ ہونے کی وجہ سے شدید بیماری میں مبتلا ہوکر معاشرے کے ناکارہ افراد بن جاتے ہیں۔
ذہنی امراض کے اسپتال کو لوگ پاگل خانہ کہتے ہیں لیکن میں نے ایسے مریضوں کو صحت یاب ہوتے اور معاشرے کے مفید کامیاب اور کارآمد افراد بنتے دیکھا ہے۔ اسی طرح خداوند کریم کبھی کبھی ملکوں اور علاقوں پر ایسے حکمران بھی برپا کر دیتا ہے جو احمقانہ حرکات اور نازیبا کلمات کے مرتکب ہو کر طنز و تشنیع کا نشانہ یعنی دوسروں کے لیے نشان عبرت بنتے ہیں۔
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
ذہن، سوچ، عمل، فکر، عقیدے، گفتار، عدل، بلکہ ناپ تول میں ترازو کا بیلنس بھی ایک اصول کی طرف رہنمائی اور فیصلے کی طرف اشارہ ہے کہ ہر کوئی اپنی حد میں رہے کیونکہ تجاوز سے معاملات بے قابو ہو کر بے راہ روی کیطرف لے جاتے ہیں۔ انتہاؤں سے اجتناب عموماً انسانی بس میں ہوتا ہے لیکن تجزیوں اور عقائد کے حوالے سے بعض لوگ بحثوں میں Extremes کو چھونے لگتے ہیں اور فریقین میں بیچ بچاؤ کرانے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ عموماً ایسا لوگوں کے مزاج کی گرمی اور عدم برداشت کے سبب ہوتا ہے۔
ایک تیسری صورت ذہنی انتشار کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہے جو پیدائشی نہ بھی ہو تو بیماری کے بعدازاں نوٹس میں آنے پر متاثرہ شخص کے نامکمل علاج، مالی تنگی، ناکافی نگرانی، بدصحبتی، گھریلو چپقلش، فکری بے راہروی، مریض کے خیالی وساوس، مریض کے شکی مزاج ہونے یا پھر عقیدے کی غیر منطقی Interpretation اسے خود ساختہ یک رخی سوچ کی طرف لے جاتی ہے۔
ہمارے بے شمار لوگ جہالت، افلاس، لاعلمی، میڈیکل کی عدم دستیابی، بلکہ اس بارے میں دلچسپی ہی نہ ہونے کے سبب یا تو جانتے ہی نہیں کہ ان کے گھر کا ایک فرد ذہنی معذوری کا شکار ہے یا پھر کثرت اولاد کی وجہ سے اسے رضائے الٰہی قرار دے کر کان لپیٹ لیتے ہیں۔
مذہب کوئی بھی ہو اس کے نام لیواؤں میں ہزار پندرہ سو میں سے چند ایسے ضرور ملیں گے جو عمل کے لحاظ سے چاہے زیرو کی سطح پر ہوں مذہبی توہین پر کٹ مرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ اس میں تو خیر کچھ برا نہیں لیکن کچھ ایسی ذہنیت کے مالک بھی ہیں کہ اگر کوئی راہ چلتا کہہ دے کہ اس دیوار کے دوسری طرف کھڑے شخص نے توہین رسالت کی ہے تو وہ جذبات سے مغلوب ہوکر فوراً بلا تحقیق اس شخص کو گردن سے دبوچ لے گا۔ ایسی صورت میں جذبہ قابل قدر لیکن بلاتحقیق و تصدیق عمل ناجائز ہے جب کہ ایسی مثالیں اور ایسے واقعات لاتعداد ہیں۔
اس وقت البتہ میرے سامنے ایک ایسے شخص کا گزشتہ ماہ کا واقعہ ہے جو میرے ایک قریبی دوست کا عزیز ہے اور اس کے مطابق عرصہ سے Sheizophrenia کا مریض ہے۔ باقاعدگی سے دوا دکھاتا رہے تو اپنی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے انگریزی زبان کے اسکول میں ٹیچنگ کرتا ہے دوا چھوڑ دے تو بستر پر پڑا رہ کر داڑھی بڑھائے ہمہ وقت عبادت میں مشغول پایا جاتا ہے۔
بچے اپنی اپنی تعلیم میں مصروف، بیوی مالی تنگی سے پریشان۔ اگر وہ اس کی عبادت میں مخل ہو تو ڈانٹ ڈپٹ۔ مجھے ایسی اطلاع ملی لیکن یہ میرا مسئلہ نہیں تھا، اس لیے توجہ نہ دی۔ لیکن ایک روز میرا قریبی دوست میرے پاس آیا اور کہا کہ یہ اس کا ذاتی کام سمجھ کر حل نکالنے میں مدد کروں۔
مجھے بتایا گیا کہ اس کا وہ عزیز ایک ماہ سے غائب تھا اور اب پتہ چلا ہے کہ وہ گوادر کے بارڈر پر پیدل سرحد کراس کرتا پکڑا گیا ہے۔ وہ دوست یہ سوچ کر میرے پاس آگیا کہ میرا تھانے کچہری سے تعلق اس کے عزیز کی بازیابی میں مدد گار ہو گا لیکن گوادر میرے لیے دوسری دنیا کا شہر تھا جہاں نہ کوئی جان نہ پہچان، میں نے معذرت کی لیکن اس دوست کا اصرار تھا کہ اس کا وہ عزیز بیمار اور بے قصور ہے اور گزشتہ بیس روز سے دوا اور علاج کے بغیر گوادر کی حوالات میں ہے۔ اس کا والد ڈاکٹر تھا جب کہ خود اس کی ابتدائی تعلیم برطانیہ میں ہوئی تھی۔
میں نے اپنے دو جاننے والے سابق انسپکٹرز جنرلز پولیس کو تفصیل بتائی تو اتنا ضرور ہوا کہ گوادر سے متعلقہ SHO پولیس اور SP سے رابطہ ہوگیا۔ لیکن پراگریس کوئی نہ ہوئی۔ اسی دوران مجھے امتیاز رفیع بٹ آف رفیع فاؤنڈیشن کا خیال آیا اور میرے ٹیلیفون کے جواب میں اس نے کہا کہ ابھی تمہیں میرے کمپنی کے GM عمران ادریس کا فون آئے گا۔ دس منٹ بعد مجھے میجر عمران کا فون آگیا۔
میں نے اسے بتایا کہ ''ایک نامور ڈاکٹر کا بیٹا تین لائق بچوں کا باپ ایک موذی مرض کا شکار گزشتہ ماہ پیدل چل کر حج کرنے کی نیک نیت لے کر گھر سے غائب ہوا اور گوادر کی جیل میں پڑا ہے۔'' یہ تفصیل اسی روز امتیاز رفیع بٹ کے گوادر میں نمائندے میجر ظفر کو مل گئی۔ اس سے اگلے روز متعلقہ حوالاتی عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے کہا مجھے تمہاری بیماری کا بتایا گیا ہے۔
مقدمے کو ابھی اختتام تک پہنچا دیا جائے گا بشرطیکہ یہ بیان دے دو کہ تم سے ملکی بارڈر کراس کرنے کی کوشش دراصل غلطی ہو گئی تھی۔ ذہنی مریض ملزم نے خم ٹھونک کر جواب دیا کہ ''حج کرنا مجھ پر فرض ہے، موقع ملا تو دوبارہ اسی طرح پیدل جاؤں گا۔ یہ زمین خدا کی ہے اور میں اس کا بندہ ہوں، مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔''
یہ جواب سن کر جج کے پاس مقدمہ میں آئندہ تاریخ دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا۔ اگلی تاریخ پر میجر ظفر نے پیشی سے پہلے مریض کو ڈانٹا کہ غلطی کی معافی نہ مانگی تو سزا ہو جائے گی۔ اس بار مریض ملزم نے مجبوراً معافی مانگی، غلطی تسلیم کی تو جج نے برائے نام جرمانے کے ساتھ رہائی کا حکم دے دیا اور اب یہ مریض ذہنی علاج کے لیے گھر سے فرار کے ایک ماہ بعد اسپتال میں ہے۔
یہ وہ ذہنی مریض ہے جس کی گوادر جیل سے بمشکل رہائی ہوئی۔ ملک میں پیدا ہونے والے تھرڈ سیکس کے تمام افراد شعور پکڑتے ہی گھریلو اور سوسائٹی کی لعن طعن کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے گھر بدر ہو جاتے ہیں جب کہ ذہنی مریض افلاس زدگی یا والدین و اولاد وغیرہ کی عدم توجہی کے سبب علاج نہ ہونے کی وجہ سے شدید بیماری میں مبتلا ہوکر معاشرے کے ناکارہ افراد بن جاتے ہیں۔
ذہنی امراض کے اسپتال کو لوگ پاگل خانہ کہتے ہیں لیکن میں نے ایسے مریضوں کو صحت یاب ہوتے اور معاشرے کے مفید کامیاب اور کارآمد افراد بنتے دیکھا ہے۔ اسی طرح خداوند کریم کبھی کبھی ملکوں اور علاقوں پر ایسے حکمران بھی برپا کر دیتا ہے جو احمقانہ حرکات اور نازیبا کلمات کے مرتکب ہو کر طنز و تشنیع کا نشانہ یعنی دوسروں کے لیے نشان عبرت بنتے ہیں۔