بابر اعظم کے ساتھ کیا ہوا
بابر اعظم پاکستان کا مستقبل ہیں ان کے کیریئر سے اس طرح نہیں کھیلنا چاہیے۔
KARACHI:
''نجم سیٹھی صاحب آج آپ لوگوں سے ملاقات کیلیے میڈیا سینٹر آ رہے ہیں، چائے کا وقفہ ختم ہونے پر ڈائننگ ایریا میں آجائیے گا'' لارڈز ٹیسٹ کے دوسرے دن میڈیا منیجر عون زیدی نے مجھ سمیت دیگر پاکستانی صحافیوں سے یہ کہا، اس روز میچ دیکھنے برطانوی وزیر اعظم تھریسامے بھی آئی ہوئی تھیں، چیئرمین پی سی بی ان سے بات چیت کی وجہ سے تھوڑی تاخیر سے میڈیا سینٹر آئے، وہاں ایک ٹیبل پر وہ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔
غیررسمی گفتگو شروع ہوئی توانھوں نے ہر معاملے پر کھل کر اظہار خیال کیا مگر ظاہر ہے زیادہ تر باتیں حساس نوعیت کے سبب آف دی ریکارڈ تھیں، البتہ نجم سیٹھی نے پاک یو اے ای تعلقات، ملائیشیا بطور نیوٹرل وینیو،اسمارٹ واچ تنازع، نجی لیگز میں پاکستانی پلیئرز کی شرکت سمیت بعض باتیں آن دی ریکارڈ بھی کیں جو آج آپ اخبار میں پڑھ چکے ہوں گے، ان سے بات چیت جاری تھی کہ وسیم اکرم بھی وہاں آ گئے اور ہمیں جوائن کر لیا۔
چیئرمین نے ان سے ٹیم کے بارے میں پوچھا تو سابق کپتان نے بتایا کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کی کارکردگی پر حیران ہیں خصوصاً فہیم اشرف اور شاداب خان جس بے جگری سے کھیل رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے، انھوں نے چیئرمین پی سی بی کو بعض مشورے بھی دیے، ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید پہلے ہی وہاں آ چکے تھے، چیئرمین کی وجہ سے صحافیوں کو منیجر طلعت علی کے ''دیدار '' کا بھی موقع ملا، اس دوران بابر اعظم کا ذکر ہوا تو سب کا خیال تھا کہ ان کی انجری خطرناک نوعیت کی ہے۔
عون زیدی ڈریسنگ روم سے معلومات لے کر آئے اور بتایا کہ ابھی فزیو کلف ڈیکن ان کی تکلیف کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ایکسرے کی ضرورت نہیں سمجھتے، مگر نجم سیٹھی نے فوراً ایکسرے کرانے کا کہا، میچ کے بعد جب ہم لوگ ایک افطار ڈنر پر جا رہے تھے تو واٹس ایپ پر فزیوکلف ڈیکن کا ویڈیو پیغام موصول ہوا جس میں انھوں نے بابر کے ہاتھ میں فریکچر اور سیریز سے باہر ہونے کا انکشاف کیا۔
اس وقت تک پاکستان میں خاصی رات ہو چکی تھی اس کے باوجود ہم سب نے فون پر خبر لکھوائی جو ایکسپریس کے فرنٹ پیج پر شائع ہوئی،اگر بورڈ کی جانب سے پہلے ہی دو لائنز کا پیغام مل جاتا تو بروقت خبر پاکستان پہنچ سکتی تھی مگر بات پھر وہی ذہن میں آتی ہے کہ نجانے کیوں اپنے ہی میڈیا سے خبریں چھپائی جاتی ہیں، بابر کی انجری دوسرے ٹیسٹ میں ٹیم کیلیے بڑا نقصان ثابت ہوگی، اس میں ان کی اپنی حماقت بھی شامل ہے، فیلڈنگ کرتے ہوئے انھیں اسمارٹ واچ پہننا تو یاد رہا مگر دوران بیٹنگ آرم گارڈ بھول گئے۔
میں نے ایک کھلاڑی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ چونکہ بابر کے ہاتھ میں سوجن نہیں تھی اس لیے فزیو نے فوری ایکسرے سے گریز کیا، ان کے ہاتھ میں اتنی تکلیف تھی کہ گلوز بھی نہیں پہنے جا رہے تھے مگرکوچ نے آخر تک پیڈز پہنائے بٹھائے رکھا کہ ضرورت پڑنے پر بیٹنگ کیلیے بھیج دیا جائے گا، جب ایکسرے کرایا گیا تو فریکچر کا انکشاف ہوا اس وقت بھی ٹیم مینجمنٹ کا فیصلہ یہی تھا کہ یہ بات میڈیا سے چھپائی جائے مگر بعد میں بتا دی گئی، اگلے روز پھر بابر کے ہاتھ سے پلاستر غائب تھا۔
کسی نے پوچھا تو بتایاگیا کہ برف کی سکائی کیلیے ایسا کیا، بابر اعظم پاکستان کا مستقبل ہیں ان کے کیریئر سے اس طرح نہیں کھیلنا چاہیے، کچھ عرصے قبل جب شعیب ملک کے سر پر گیند لگی تھی تب بھی اس وقت کے فزیو نے معاملے کو آسان سمجھا ، رات کو ثانیہ مرزا نے گھبرا کر ایک ٹیم آفیشل کو فون کیا جنھوں نے فزیو سے رابطہ کیا تو وہ سو رہے تھے پھر حریف ٹیم کے فزیو سے مدد لی گئی۔
وقار یونس کی ڈاکٹر اہلیہ نے بھی شعیب کا معائنہ کیا، شاید غیرملکی کوچنگ اسٹاف اور فزیو کے خیال میں پاکستانی کرکٹرز انجری کا بہانہ بناتے اور معمولی تکلیف کو بھی بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں حالانکہ ہر بار ایسا نہیں ہوتا، خیر اب تازہ اطلاعات کے مطابق بابر اعظم مزید 48 گھنٹے انگلینڈ میں ہی رہیں گے کیونکہ ایئرلائن قوانین کے تحت کوئی بھی چوٹ لگنے کے بعد اس سے کم وقت میں سفر نہیں کر سکتا۔
پہلے یہ باتیں کی گئی تھیں کہ ٹور میں اگرکوئی بھی کھلاڑی زخمی ہوا تو فواد عالم کو بلایا جائے گا مگر اعلان کیا گیاکہ کسی متبادل کی ضرورت نہیں ہے، فواد ان دنوں انگلینڈ میں ہی لیگ کرکٹ کھیل رہے ہیں، دوسرے ٹیسٹ میں امکان ہے کہ بابر اعظم کی جگہ فخر زمان کومیدان میں اتارا جائے، ویسے جارح مزاج بیٹسمین کو ٹیسٹ میں کھیلتے دیکھنا بھی دلچسپ تجربہ ہو گا، وہ مختصر طرز میں تو اپنی عمدہ بیٹنگ کی دھاک بٹھا چکے، اب ٹیسٹ میں بھی کامیاب رہے تو پاکستانی ٹیم کو خاصا فائدہ ہو گا۔
جاتے جاتے دوسرے روز کا ایک دلچسپ واقعہ بتاتے چلوں اظہر علی جب پریس کانفرنس کیلیے آئے تو انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا پھروہ دوسری جانب بیٹھے دیگر پاکستانی صحافیوں کے پاس گئے، ایسے میں کسی انگریز صحافی نے جملہ کسا کہ '' ہم سے کیوں ہاتھ نہیں ملا رہے'' اس پر اظہر تقریباً دوڑتے ہوئے واپس آئے اور ہر غیرملکی صحافی سے بھی مصافحہ کیا، ان کے انداز پر پریس کانفرنس روم میں قہقہے گونج اٹھے۔
آج تیسرے دن وقار یونس نے لارڈز میں گھنٹی بجا کر کھیل کے آغاز کا اعلان کیا، یہ روایت طویل عرصے سے قائم ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ پاکستانی ٹیم اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی مگر نوجوان کھلاڑیوں نے سب کو حیران کر دیا،مختصر طرز کے بعد پلیئرز اب ٹیسٹ میں بھی اپنی دھاک بٹھانے لگے ہیں جو خوش آئند ہے، اس کا بڑا کریڈٹ سرفراز احمد کو جاتا ہے جنھوں نے نوجوان ٹیم میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے نئی روح پھونک کر اسے فاتح جتھے میں تبدیل کر دیا، انگلینڈ کا یہ دورہ ٹیسٹ ٹیم کو بھی نئی راہ پر گامزن کر دے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
''نجم سیٹھی صاحب آج آپ لوگوں سے ملاقات کیلیے میڈیا سینٹر آ رہے ہیں، چائے کا وقفہ ختم ہونے پر ڈائننگ ایریا میں آجائیے گا'' لارڈز ٹیسٹ کے دوسرے دن میڈیا منیجر عون زیدی نے مجھ سمیت دیگر پاکستانی صحافیوں سے یہ کہا، اس روز میچ دیکھنے برطانوی وزیر اعظم تھریسامے بھی آئی ہوئی تھیں، چیئرمین پی سی بی ان سے بات چیت کی وجہ سے تھوڑی تاخیر سے میڈیا سینٹر آئے، وہاں ایک ٹیبل پر وہ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔
غیررسمی گفتگو شروع ہوئی توانھوں نے ہر معاملے پر کھل کر اظہار خیال کیا مگر ظاہر ہے زیادہ تر باتیں حساس نوعیت کے سبب آف دی ریکارڈ تھیں، البتہ نجم سیٹھی نے پاک یو اے ای تعلقات، ملائیشیا بطور نیوٹرل وینیو،اسمارٹ واچ تنازع، نجی لیگز میں پاکستانی پلیئرز کی شرکت سمیت بعض باتیں آن دی ریکارڈ بھی کیں جو آج آپ اخبار میں پڑھ چکے ہوں گے، ان سے بات چیت جاری تھی کہ وسیم اکرم بھی وہاں آ گئے اور ہمیں جوائن کر لیا۔
چیئرمین نے ان سے ٹیم کے بارے میں پوچھا تو سابق کپتان نے بتایا کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کی کارکردگی پر حیران ہیں خصوصاً فہیم اشرف اور شاداب خان جس بے جگری سے کھیل رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے، انھوں نے چیئرمین پی سی بی کو بعض مشورے بھی دیے، ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید پہلے ہی وہاں آ چکے تھے، چیئرمین کی وجہ سے صحافیوں کو منیجر طلعت علی کے ''دیدار '' کا بھی موقع ملا، اس دوران بابر اعظم کا ذکر ہوا تو سب کا خیال تھا کہ ان کی انجری خطرناک نوعیت کی ہے۔
عون زیدی ڈریسنگ روم سے معلومات لے کر آئے اور بتایا کہ ابھی فزیو کلف ڈیکن ان کی تکلیف کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ایکسرے کی ضرورت نہیں سمجھتے، مگر نجم سیٹھی نے فوراً ایکسرے کرانے کا کہا، میچ کے بعد جب ہم لوگ ایک افطار ڈنر پر جا رہے تھے تو واٹس ایپ پر فزیوکلف ڈیکن کا ویڈیو پیغام موصول ہوا جس میں انھوں نے بابر کے ہاتھ میں فریکچر اور سیریز سے باہر ہونے کا انکشاف کیا۔
اس وقت تک پاکستان میں خاصی رات ہو چکی تھی اس کے باوجود ہم سب نے فون پر خبر لکھوائی جو ایکسپریس کے فرنٹ پیج پر شائع ہوئی،اگر بورڈ کی جانب سے پہلے ہی دو لائنز کا پیغام مل جاتا تو بروقت خبر پاکستان پہنچ سکتی تھی مگر بات پھر وہی ذہن میں آتی ہے کہ نجانے کیوں اپنے ہی میڈیا سے خبریں چھپائی جاتی ہیں، بابر کی انجری دوسرے ٹیسٹ میں ٹیم کیلیے بڑا نقصان ثابت ہوگی، اس میں ان کی اپنی حماقت بھی شامل ہے، فیلڈنگ کرتے ہوئے انھیں اسمارٹ واچ پہننا تو یاد رہا مگر دوران بیٹنگ آرم گارڈ بھول گئے۔
میں نے ایک کھلاڑی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ چونکہ بابر کے ہاتھ میں سوجن نہیں تھی اس لیے فزیو نے فوری ایکسرے سے گریز کیا، ان کے ہاتھ میں اتنی تکلیف تھی کہ گلوز بھی نہیں پہنے جا رہے تھے مگرکوچ نے آخر تک پیڈز پہنائے بٹھائے رکھا کہ ضرورت پڑنے پر بیٹنگ کیلیے بھیج دیا جائے گا، جب ایکسرے کرایا گیا تو فریکچر کا انکشاف ہوا اس وقت بھی ٹیم مینجمنٹ کا فیصلہ یہی تھا کہ یہ بات میڈیا سے چھپائی جائے مگر بعد میں بتا دی گئی، اگلے روز پھر بابر کے ہاتھ سے پلاستر غائب تھا۔
کسی نے پوچھا تو بتایاگیا کہ برف کی سکائی کیلیے ایسا کیا، بابر اعظم پاکستان کا مستقبل ہیں ان کے کیریئر سے اس طرح نہیں کھیلنا چاہیے، کچھ عرصے قبل جب شعیب ملک کے سر پر گیند لگی تھی تب بھی اس وقت کے فزیو نے معاملے کو آسان سمجھا ، رات کو ثانیہ مرزا نے گھبرا کر ایک ٹیم آفیشل کو فون کیا جنھوں نے فزیو سے رابطہ کیا تو وہ سو رہے تھے پھر حریف ٹیم کے فزیو سے مدد لی گئی۔
وقار یونس کی ڈاکٹر اہلیہ نے بھی شعیب کا معائنہ کیا، شاید غیرملکی کوچنگ اسٹاف اور فزیو کے خیال میں پاکستانی کرکٹرز انجری کا بہانہ بناتے اور معمولی تکلیف کو بھی بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں حالانکہ ہر بار ایسا نہیں ہوتا، خیر اب تازہ اطلاعات کے مطابق بابر اعظم مزید 48 گھنٹے انگلینڈ میں ہی رہیں گے کیونکہ ایئرلائن قوانین کے تحت کوئی بھی چوٹ لگنے کے بعد اس سے کم وقت میں سفر نہیں کر سکتا۔
پہلے یہ باتیں کی گئی تھیں کہ ٹور میں اگرکوئی بھی کھلاڑی زخمی ہوا تو فواد عالم کو بلایا جائے گا مگر اعلان کیا گیاکہ کسی متبادل کی ضرورت نہیں ہے، فواد ان دنوں انگلینڈ میں ہی لیگ کرکٹ کھیل رہے ہیں، دوسرے ٹیسٹ میں امکان ہے کہ بابر اعظم کی جگہ فخر زمان کومیدان میں اتارا جائے، ویسے جارح مزاج بیٹسمین کو ٹیسٹ میں کھیلتے دیکھنا بھی دلچسپ تجربہ ہو گا، وہ مختصر طرز میں تو اپنی عمدہ بیٹنگ کی دھاک بٹھا چکے، اب ٹیسٹ میں بھی کامیاب رہے تو پاکستانی ٹیم کو خاصا فائدہ ہو گا۔
جاتے جاتے دوسرے روز کا ایک دلچسپ واقعہ بتاتے چلوں اظہر علی جب پریس کانفرنس کیلیے آئے تو انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا پھروہ دوسری جانب بیٹھے دیگر پاکستانی صحافیوں کے پاس گئے، ایسے میں کسی انگریز صحافی نے جملہ کسا کہ '' ہم سے کیوں ہاتھ نہیں ملا رہے'' اس پر اظہر تقریباً دوڑتے ہوئے واپس آئے اور ہر غیرملکی صحافی سے بھی مصافحہ کیا، ان کے انداز پر پریس کانفرنس روم میں قہقہے گونج اٹھے۔
آج تیسرے دن وقار یونس نے لارڈز میں گھنٹی بجا کر کھیل کے آغاز کا اعلان کیا، یہ روایت طویل عرصے سے قائم ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ پاکستانی ٹیم اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی مگر نوجوان کھلاڑیوں نے سب کو حیران کر دیا،مختصر طرز کے بعد پلیئرز اب ٹیسٹ میں بھی اپنی دھاک بٹھانے لگے ہیں جو خوش آئند ہے، اس کا بڑا کریڈٹ سرفراز احمد کو جاتا ہے جنھوں نے نوجوان ٹیم میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے نئی روح پھونک کر اسے فاتح جتھے میں تبدیل کر دیا، انگلینڈ کا یہ دورہ ٹیسٹ ٹیم کو بھی نئی راہ پر گامزن کر دے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)