صلہ شہید کیا ہے تب وتاب جا ودانہ
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید دونوں کو بھرپور اعتماد اپنے مقصد کی سچائی اور تاریخ کے فیصلے پر تھا۔
KARACHI:
اگر پہلے سے ایک مفروضہ تراش لیا جائے اور واضح حقائق کو نظر انداز کرکے کسی کو بدنام کرنا مقصود ہو تو نتیجہ جناب جاوید چوہدری کے کالم 'آسمان سے اٹھا ہوا اعتماد' جیسا ہی نکلتا ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید دونوں کو بھرپور اعتماد اپنے مقصد کی سچائی اور تاریخ کے فیصلے پر تھا۔ محترم جاوید چوہدری کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اس بات پر یقیں ہوکہ کوئی راہ حق پر گامزن ہے تو پھر موت اور زندگی اپنی اہمیت اور حقیقت کھو بیٹھتے ہیں اور انسان بھرپور اطمینان کے ساتھ اپنے رب کی جانب لوٹتا ہے اور اللہ کی جانب سے اس کا انعام یہ ہوتا ہے کہ اسے ابدی زندگی اور ابدی نیک نامی حاصل ہوجاتی ہے۔
کون ہے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی کی وہ تقریر بھلا سکتا ہے جس میں انھوں نے کھل کر کہا تھا کہ سفید ہاتھی ان کی جان لینا چاہتا ہے؟ کیا ہم بھول سکتے ہیں کہ جب ان سے ان کے کئی دوستوں نے اسلامی ممالک کے آخری دورے کے وقت کہا تھا کہ ان نازک حالات میں ان کو ملک میں ہی رہنا چاہیے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ اپنے دوستوں سے رخصتی ملاقات کے لیے جا رہے ہیں؟
کیا ان کی یہ بات بھلائی جا سکتی ہے کہ میں جنرلوں کے ہاتھوں مرنا پسندکرونگا تاریخ کے ہاتھوں قتل ہونا مجھے منظور نہیں؟ آمریت اور سامراج کے ساتھ سمجھوتہ کرنا اور اپنی جان بچانا ان کے بس میں تھا لیکن انھوں نے ہر قسم کی پیش کش کو ٹھکرا دیا اور اپنی بیوی اور بیٹی تک کو رحم کی اپیل کرنے سے منع کردیا۔ آمریت سمجھتی تھی کہ وہ پھانسی کی کوٹھری میں بھٹو کو تنہا کر چکی تھی لیکن بھٹو اپنی سب سے پیاری بیٹی کو تیار کر رہے تھے کہ ان کے بعد اس بیٹی کو کس طرح ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہونا ہے۔
جاوید چوہدری صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ شہید بینظیر بھٹو پاکستان آنے سے دو روز قبل اپنے ہاتھ سے اپنی وصیت لکھ کر آئی تھیں۔ اور اس وصیت کے اندر اس بات کا شکوہ نہیںتھا کہ ان کو قتل کردیا جائے گا بلکہ اس بات کی فکر تھی کہ ملک کو کس قسم کے خطرآت لاحق ہیں اور ان کے جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔18 اکتوبر کے سانحے کے بعد جنہوں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے وہ اس سکون و اطمینان کو کبھی نہیں بھول سکتے جو ان کی ہر بات سے عیاں تھا۔ کم از کم میں نہیں بھول سکتا کہ جب میں نے ان کے آنے سے قبل بڑی منت کے ساتھ ان کو روکنے کے کوشش کی تھی تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ ان کو اپنا وعدہ پورا کرنا ہے۔
خدا وعدہ پورا کرنے والوں پر اپنی رحمتوں کا نزول کرے۔ وہ اپنی جانیں قربان کرگئے لیکن قوم اور ملک کو نیا عزم، نیا جذبہ، نیا ولولہ دے گئے۔ وہ ولولہ جس کے باعث ہم آج ایک جمہوری ملک میں بیٹھے ہیں اور انتخابات کے ذریعے اپنی حکومت منتخب کر رہے ہیں۔ دنیا میں آج شاید آزادیاں، حقوق، جمہوریت اور بہت سی ایسی بلند اقدار جو انسانیت کی بقا کے لیئے لازم و ملزوم ہیں اسی لیے تابندہ میں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے شہیدوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہادت کو ہنستے ہوئے قبول کیا۔
گولیاں چل رہی تھی اور بی بی صاحبہ شہید پورے اطمینان کے ساتھ قاتل کو دیکھ رہی تھیں میں نے شہادت کی ویڈیو دیکھ کر اپنے ایک دوست سے کہا کہ پہلی گولی خطا ہونے کے بعد بی بی اگر نیچے بیٹھ جاتیں تو ان کی جان بچ جاتی۔ اس دیوانے نے جواب دیا، تاج حیدر کیا کہ رہے ہو۔ بینظیر بھٹو اگر اس وقت بیٹھ جاتیں تو پاکستان بیٹھ جاتا۔ شاید وہ دیوانہ درست ہی کہ رہا تھا۔
مرے خاک و خون سے تونے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ
اگر پہلے سے ایک مفروضہ تراش لیا جائے اور واضح حقائق کو نظر انداز کرکے کسی کو بدنام کرنا مقصود ہو تو نتیجہ جناب جاوید چوہدری کے کالم 'آسمان سے اٹھا ہوا اعتماد' جیسا ہی نکلتا ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید دونوں کو بھرپور اعتماد اپنے مقصد کی سچائی اور تاریخ کے فیصلے پر تھا۔ محترم جاوید چوہدری کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اس بات پر یقیں ہوکہ کوئی راہ حق پر گامزن ہے تو پھر موت اور زندگی اپنی اہمیت اور حقیقت کھو بیٹھتے ہیں اور انسان بھرپور اطمینان کے ساتھ اپنے رب کی جانب لوٹتا ہے اور اللہ کی جانب سے اس کا انعام یہ ہوتا ہے کہ اسے ابدی زندگی اور ابدی نیک نامی حاصل ہوجاتی ہے۔
کون ہے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی کی وہ تقریر بھلا سکتا ہے جس میں انھوں نے کھل کر کہا تھا کہ سفید ہاتھی ان کی جان لینا چاہتا ہے؟ کیا ہم بھول سکتے ہیں کہ جب ان سے ان کے کئی دوستوں نے اسلامی ممالک کے آخری دورے کے وقت کہا تھا کہ ان نازک حالات میں ان کو ملک میں ہی رہنا چاہیے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ اپنے دوستوں سے رخصتی ملاقات کے لیے جا رہے ہیں؟
کیا ان کی یہ بات بھلائی جا سکتی ہے کہ میں جنرلوں کے ہاتھوں مرنا پسندکرونگا تاریخ کے ہاتھوں قتل ہونا مجھے منظور نہیں؟ آمریت اور سامراج کے ساتھ سمجھوتہ کرنا اور اپنی جان بچانا ان کے بس میں تھا لیکن انھوں نے ہر قسم کی پیش کش کو ٹھکرا دیا اور اپنی بیوی اور بیٹی تک کو رحم کی اپیل کرنے سے منع کردیا۔ آمریت سمجھتی تھی کہ وہ پھانسی کی کوٹھری میں بھٹو کو تنہا کر چکی تھی لیکن بھٹو اپنی سب سے پیاری بیٹی کو تیار کر رہے تھے کہ ان کے بعد اس بیٹی کو کس طرح ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہونا ہے۔
جاوید چوہدری صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ شہید بینظیر بھٹو پاکستان آنے سے دو روز قبل اپنے ہاتھ سے اپنی وصیت لکھ کر آئی تھیں۔ اور اس وصیت کے اندر اس بات کا شکوہ نہیںتھا کہ ان کو قتل کردیا جائے گا بلکہ اس بات کی فکر تھی کہ ملک کو کس قسم کے خطرآت لاحق ہیں اور ان کے جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔18 اکتوبر کے سانحے کے بعد جنہوں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے وہ اس سکون و اطمینان کو کبھی نہیں بھول سکتے جو ان کی ہر بات سے عیاں تھا۔ کم از کم میں نہیں بھول سکتا کہ جب میں نے ان کے آنے سے قبل بڑی منت کے ساتھ ان کو روکنے کے کوشش کی تھی تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ ان کو اپنا وعدہ پورا کرنا ہے۔
خدا وعدہ پورا کرنے والوں پر اپنی رحمتوں کا نزول کرے۔ وہ اپنی جانیں قربان کرگئے لیکن قوم اور ملک کو نیا عزم، نیا جذبہ، نیا ولولہ دے گئے۔ وہ ولولہ جس کے باعث ہم آج ایک جمہوری ملک میں بیٹھے ہیں اور انتخابات کے ذریعے اپنی حکومت منتخب کر رہے ہیں۔ دنیا میں آج شاید آزادیاں، حقوق، جمہوریت اور بہت سی ایسی بلند اقدار جو انسانیت کی بقا کے لیئے لازم و ملزوم ہیں اسی لیے تابندہ میں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے شہیدوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہادت کو ہنستے ہوئے قبول کیا۔
گولیاں چل رہی تھی اور بی بی صاحبہ شہید پورے اطمینان کے ساتھ قاتل کو دیکھ رہی تھیں میں نے شہادت کی ویڈیو دیکھ کر اپنے ایک دوست سے کہا کہ پہلی گولی خطا ہونے کے بعد بی بی اگر نیچے بیٹھ جاتیں تو ان کی جان بچ جاتی۔ اس دیوانے نے جواب دیا، تاج حیدر کیا کہ رہے ہو۔ بینظیر بھٹو اگر اس وقت بیٹھ جاتیں تو پاکستان بیٹھ جاتا۔ شاید وہ دیوانہ درست ہی کہ رہا تھا۔
مرے خاک و خون سے تونے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ