فیض آباد دھرنے میں آئی ایس آئی کا ہاتھ نہیں تھا وزارت دفاع
وفاقی حکومت دھرناطول پکڑنے پرخاموش،آئی بی الگ تھلگ رہا،کوئی اطلاع دی نہ کوشش کی،اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع رپورٹ
وزارت دفاع نے اس تاثرکو رد کردیا ہے کہ پچھلے سال فیض آباد میں تحریک لبیک کے دھرنا کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا۔
گزشتہ ہفتے درخواست گزاروں کے وکلا انعام الرحیم اوروحید اختر نے اسلام آبادہائیکورٹ سے رپورٹ پبلک کرنے کی درخواست کی تھی۔ ہائیکورٹ نے 21 مئی کو رپورٹ کی کاپی فریقین کو دینے کا حکم دیا تھا۔اس رپورٹ کے زیادہ ترمندرجات وہی ہیں جوآئی ایس آئی عدالت عظمیٰ میں جمع اپنی رپورٹ میں بتا چکی ہے۔
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ فیض آباد دھرنا الیکشن ایکٹ میں ترمیم اوراس کے بعد یہ ترمیم واپس لینے میں تاخیرکی وجہ سے دیا گیا ۔رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا کہ سیاسی قیادت کے بیانات سے تنازع سنگین ہوا اورمظاہرے شروع ہوگئے ۔سینئر سیاسی رہنماؤں نے بیانات میں اس ترمیم کے ذمے داروں کیخلاف تحقیقات اورکارروائی کامطالبہ کیا۔
دھرنا میں شریک لوگوں کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ ترمیم کے ذمے داروںکی نشاندہی کرکے انھیں سزا دی جائے۔وفاقی حکومت دھرناطول پکڑنے پرخاموش رہی اور تحریک لبیک یا رسول اللہ سے آزادانہ طور پررابطہ نہ کیا۔آئی ایس آئی کے نمائندوں نے دونوں فریقوں سے رابطہ کیااورمسئلہ حل کرنے کے لیے مل بیٹھنے کا کہا۔آئی ایس آئی نے دوسری ایجنسیوں کی کارکردگی پر بھی عدم اعتماد کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کی اسپیشل برانچ نے دھرناکوکور توکیا لیکن شرکا کی طاقت،تعداد اورلاجسکٹس جیسے دوسرے امورکی معلومات دیتی رہی ۔اسی طرح انٹیلی جنس بیورو بھی الگ تھلگ رہا اورادارے نے کوئی اطلاع دی نہ کوئی کوشش کی۔22 نومبرکو وزیراعظم کے دفتر میں اعلیٰ سطح کااجلاس ہوا جس میں مسئلہ پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے آئی ایس آئی کو مرکزی کردار اورمکمل اتھارٹی دی۔
اس اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا اگرچہ فیض آباد دھرنا عددی حوالے سے کم ہے لیکن تحریک لبیک کی مختلف مقامات پرحمایت ہے اوراس کے کارکن پورے ملک میں موجود ہیں اور پرامن حل ہی واحد راستہ ہے۔
رپورٹ میں بتایاگیا کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد،مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اعجازالحق،پاکستان تحریک انصاف عملاء ونگ، پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ حمید نے فیض آباد دھرناکی حمایت کی۔
وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مظاہرین کو فیض آباد پل سے ہٹانے کے لیے کمزور پلان بنایا گیا جس پر عملدرآمد بھی ٹھیک طرح سے نہیں کیا گیا، قریبی مدارس سے لوگوں کو فیض آبادکی جانب بڑھنے سے روکا نہیں جاسکا جبکہ آپریشن کے دوران آنسوگیس کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا جس سے سیکیورٹی اہلکار خود متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ دیر تک ڈیوٹی کی وجہ پولیس اہلکار تھک چکے تھے اور ان کا مورال بھی پست ہوگیا تھا جبکہ دھرنا قائدین کی جانب سے تقریروں کے ذریعے پولیس اہلکاروں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ آپریشن کی براہ راست میڈیا کوریج سے دھرنے کی حمایت میں ملک بھر میں لوگ متحرک ہوگئے۔
گزشتہ ہفتے درخواست گزاروں کے وکلا انعام الرحیم اوروحید اختر نے اسلام آبادہائیکورٹ سے رپورٹ پبلک کرنے کی درخواست کی تھی۔ ہائیکورٹ نے 21 مئی کو رپورٹ کی کاپی فریقین کو دینے کا حکم دیا تھا۔اس رپورٹ کے زیادہ ترمندرجات وہی ہیں جوآئی ایس آئی عدالت عظمیٰ میں جمع اپنی رپورٹ میں بتا چکی ہے۔
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ فیض آباد دھرنا الیکشن ایکٹ میں ترمیم اوراس کے بعد یہ ترمیم واپس لینے میں تاخیرکی وجہ سے دیا گیا ۔رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا کہ سیاسی قیادت کے بیانات سے تنازع سنگین ہوا اورمظاہرے شروع ہوگئے ۔سینئر سیاسی رہنماؤں نے بیانات میں اس ترمیم کے ذمے داروں کیخلاف تحقیقات اورکارروائی کامطالبہ کیا۔
دھرنا میں شریک لوگوں کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ ترمیم کے ذمے داروںکی نشاندہی کرکے انھیں سزا دی جائے۔وفاقی حکومت دھرناطول پکڑنے پرخاموش رہی اور تحریک لبیک یا رسول اللہ سے آزادانہ طور پررابطہ نہ کیا۔آئی ایس آئی کے نمائندوں نے دونوں فریقوں سے رابطہ کیااورمسئلہ حل کرنے کے لیے مل بیٹھنے کا کہا۔آئی ایس آئی نے دوسری ایجنسیوں کی کارکردگی پر بھی عدم اعتماد کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کی اسپیشل برانچ نے دھرناکوکور توکیا لیکن شرکا کی طاقت،تعداد اورلاجسکٹس جیسے دوسرے امورکی معلومات دیتی رہی ۔اسی طرح انٹیلی جنس بیورو بھی الگ تھلگ رہا اورادارے نے کوئی اطلاع دی نہ کوئی کوشش کی۔22 نومبرکو وزیراعظم کے دفتر میں اعلیٰ سطح کااجلاس ہوا جس میں مسئلہ پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے آئی ایس آئی کو مرکزی کردار اورمکمل اتھارٹی دی۔
اس اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا اگرچہ فیض آباد دھرنا عددی حوالے سے کم ہے لیکن تحریک لبیک کی مختلف مقامات پرحمایت ہے اوراس کے کارکن پورے ملک میں موجود ہیں اور پرامن حل ہی واحد راستہ ہے۔
رپورٹ میں بتایاگیا کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد،مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اعجازالحق،پاکستان تحریک انصاف عملاء ونگ، پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ حمید نے فیض آباد دھرناکی حمایت کی۔
وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مظاہرین کو فیض آباد پل سے ہٹانے کے لیے کمزور پلان بنایا گیا جس پر عملدرآمد بھی ٹھیک طرح سے نہیں کیا گیا، قریبی مدارس سے لوگوں کو فیض آبادکی جانب بڑھنے سے روکا نہیں جاسکا جبکہ آپریشن کے دوران آنسوگیس کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا جس سے سیکیورٹی اہلکار خود متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ دیر تک ڈیوٹی کی وجہ پولیس اہلکار تھک چکے تھے اور ان کا مورال بھی پست ہوگیا تھا جبکہ دھرنا قائدین کی جانب سے تقریروں کے ذریعے پولیس اہلکاروں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ آپریشن کی براہ راست میڈیا کوریج سے دھرنے کی حمایت میں ملک بھر میں لوگ متحرک ہوگئے۔