کشن گنگاڈیم کے بعد بگلیہار ڈیم
پاکستان میں آبی بحران جس کا ایک عرصے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اب پیدا ہو چکا ہے۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بگلیہار ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے اور پاکستان کی طرف آنے والا دریائے چناب کا پانی روک دیا جس کی وجہ سے دریائے چناب جس میں گزشتہ برس پانی کی آمد 50ہزار کیوسک تھی اب کم ہو کر صرف 20ہزار کیوسک رہ گئی ' اس طرح بھارت کی طرف سے 30ہزار کیوسک پانی روکنے سے پانی کی شدید قلت پیدا ہونے کے باعث ہیڈ پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کا اخراج صفر ہو گیا۔
خدشہ ہے کہ اگر یہ صورت حال یونہی برقرار رہی تو پھر مجبوراً پنجاب اور سندھ کے پانی کی کٹوتی کرنا پڑے گی۔ پنجاب اور سندھ پہلے ہی پانی کے بحران کا شکار ہیں اب مزید کٹوتی سے ان کی ہزاروں ایکڑ زمین بنجر ہونے کا خدشہ ہے جس سے زرعی شعبے اور ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ تشکیل پایا تھا جس کی ضمانت عالمی بینک نے دی تھی' اس معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں راوی'بیاس اور ستلج پر کنٹرول دیا گیا کہ اس کو اس کا زیادہ پانی ملے گا جب کہ جموں کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔
لیکن بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی علی الاعلان خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کے حصے کے پانی پر بھی قبضہ کر لیا ہے' گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ڈیم کا افتتاح بھی کیا اس طرح دریائے نیلم کے پانی پر بھی بھارت کو کنٹرول حاصل ہو جائے گا' یہ صورت حال انتہائی خوفناک ہے۔
پاکستان میں آبی بحران جس کا ایک عرصے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اب پیدا ہو چکا ہے اور پانی کے حوالے سے پاکستان مکمل طور پر بھارت کے رحم و کرم پر آ گیا ہے۔ چند روز پیشتر قومی اسمبلی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے آبی بحران کی جانب توجہ دلائی تھی۔ اس موقع پر ایک معزز رکن اسمبلی نے پانی کے بحران کا شاندار حل پیش کرتے ہوئے اسے قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آبی بحران اب پاکستان کا مستقل مقدر بن گیا ہے۔ وہ اہل اقتدار جو ملک کے مسائل کے حل کے ذمے دار ہیں جب اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہوئے سب کچھ قدرت پر چھوڑ دیں گے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
خدشہ ہے کہ اگر یہ صورت حال یونہی برقرار رہی تو پھر مجبوراً پنجاب اور سندھ کے پانی کی کٹوتی کرنا پڑے گی۔ پنجاب اور سندھ پہلے ہی پانی کے بحران کا شکار ہیں اب مزید کٹوتی سے ان کی ہزاروں ایکڑ زمین بنجر ہونے کا خدشہ ہے جس سے زرعی شعبے اور ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ تشکیل پایا تھا جس کی ضمانت عالمی بینک نے دی تھی' اس معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں راوی'بیاس اور ستلج پر کنٹرول دیا گیا کہ اس کو اس کا زیادہ پانی ملے گا جب کہ جموں کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔
لیکن بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی علی الاعلان خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کے حصے کے پانی پر بھی قبضہ کر لیا ہے' گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ڈیم کا افتتاح بھی کیا اس طرح دریائے نیلم کے پانی پر بھی بھارت کو کنٹرول حاصل ہو جائے گا' یہ صورت حال انتہائی خوفناک ہے۔
پاکستان میں آبی بحران جس کا ایک عرصے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اب پیدا ہو چکا ہے اور پانی کے حوالے سے پاکستان مکمل طور پر بھارت کے رحم و کرم پر آ گیا ہے۔ چند روز پیشتر قومی اسمبلی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے آبی بحران کی جانب توجہ دلائی تھی۔ اس موقع پر ایک معزز رکن اسمبلی نے پانی کے بحران کا شاندار حل پیش کرتے ہوئے اسے قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آبی بحران اب پاکستان کا مستقل مقدر بن گیا ہے۔ وہ اہل اقتدار جو ملک کے مسائل کے حل کے ذمے دار ہیں جب اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہوئے سب کچھ قدرت پر چھوڑ دیں گے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔