گرم بازار نکتہ بازی سے 

فلاں نے فلاں کے نکتوں کو نڈھال کر دیا۔ فلاں کے نکتے پٹتے جا رہے ہیں۔

barq@email.com

ہمارا خیال تھا کہ ''نکتوں'' کا چلن صرف شاعری میں ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست بھی خاصی ''نکتہ خیز'' ہے۔ الگے وقتوں میں دو چار نکتوں کی یا زیادہ سے زیادہ چھ نکتوں کا یعنی ''چھ نکاتی'' بیانیہ ہوا کرتا تھا، خاص طور شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات تو اتنے مشہور بلکہ رسوا ہو گئے تھے کہ اتنی رسوائی کسی ہالی وڈ بالی وڈ کی کسی عفیفہ کے حصے میں بھی نہیں آئی ہو گی۔ لیکن اب ہمارے کپتان صاحب نے گیارہ نکات پیش کر کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ چکنا چور کر ڈالے ہیں۔

لگتا ہے کہ کپتان صاحب کا مزاج لڑکپن یا کسی اور ''پن'' سے ہی نکتہ پسند انہ بلکہ نکتوں میں انتہا پسندانہ ہے۔ نکتوں کے بارے میں انھوں نے بالکل غالبؔ کی سی طبعیت پائی کہ ''نکتے'' ہوں اور بہت ہوں۔ اب اس گیارہ نکاتی بیانیہ سے ہماری سمجھ کی بیانیہ میں کچھ نہیں آ رہا ہے کہ یہ اور ایک گیارہ کی بنیاد پر ہے یا ''نو دو گیا رہ'' کا بھی اس پر کوئی اثر ہے۔ پانچ اور چھ بھی گیارہ ہوتے ہیں لیکن کچھ بے ڈھنگا پن لیے ہوئے ہیں۔

حالانکہ جہاں تک ہماری یاداشت کام کرتی ہے کپتان صاحب صرف ایک ہی نکتے کے ساتھ منظر عام پر آئے تھے نیا پاکستان۔ پھر اس میں ایک چھوٹے نکتے ''تبدیلی'' کی پیوند بھی لگی لیکن وہ بھی اسی کی شاخ تھی ویسے بھی جب پرانا پاکستان ہی نہ رہے تو نیا پاکستان تو صرف ''نیا'' ہوگا اور نئے میں نکتے کہیں بعد میں پیدا ہوں گے۔ جیسے کہ آج کل پاکستان خان کے نکتوں سمیت ہمارے اس نئے پاکستان میں چل رہا ہے جو قائداعظم کے پاکستان سے مختلف قائد عوام کا بنا ہوا بلکہ بچایا ہوا نیا پاکستان ہی ہے۔ جو ہمارے خیال میں تو اب بھی اچھا خاصا نیا ہے لیکن اگر کوئی اس نئے کو بھی مزید نویلا کرنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی ہم کون ہوتے ہیں روکنے یا ٹوکنے والے۔

پشتو میں ایک فقرہ یا جملہ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے جو آدھا اردو اور آدھا پشتو ہے جب کوئی کسی کو کوئی کام نہیں کرنے دیتا یا کوئی چیز ایکسپائر ہو جاتی ہے بغیر کسی فائدے نقصان کے تو کہتے ہیں۔ تم نے تو اس پر گیارہ بارہ تیرہ کر دیا ہے یا بارہ بارہ تیرہ کر دیا گیا۔ یہ بالکل پاکستان کی طرح کا آدھا تیتر آدھا بٹیر جملہ ہے گیارہ بارہ تو وہی اردو کا ہے یعنی (12-11) لیکن اصل چیز ''تیرہ'' ہے جو پشتو میں ہندسہ یعنی ان لکی تھر ٹین'' نہیں ہے بلکہ ''گزرنے'' کو کہتے ہیں عمر گزار نا سزا کاٹنا کسی چیز کو حلق سے گزارنا گاڑی کو پل یا چیکنگ پوائنٹ گزارنا ''تیرہ او تیرول'' ہوتا ہے داغؔ دہلوی نے اس ''تیرہ'' کو اچھا خاصا گیارہ بارہ تیرہ کیا ہوا ہے

اس گزرگاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک

جو بھی گزرے گی گزار یں گے گزرنے والے

سچ کہئے تو پشتو والوں نے محض ''تیرہ'' کو سنگت دینے کے لیے گیارہ بارہ کا ناجائز استعمال کیا ہے کہنا صرف ''تیرہ'' ہوتا ہے لیکن گیارہ بارہ کے ساتھ اس کا جلوس بنایا گیا ہے کہ بچارا ''لونلی'' محسوس نہ کرے۔ اب کپتان صاحب کے ان گیارہ نکات کو اسی تناظر میں دیکھیں تو مفہوم کچھ اچھا نہیں نکلتا ویسے ہی ''بنی گالہ'' سا بن جاتا ہے۔ گیارہ کے ساتھ اگر بارہ تیرہ کر دیں اور تیرہ کا مفہوم وہی گزرنا یا نکلنا فرض کر دیں تو آپ خود ہی سوچئے کہ گیارہ کا کیا بنے گا۔ بلکہ ہم تو ابھی سے کہنا چاہتے ہیں کہ تیرا کیا بنے گا گیارہ۔ کہیں نو دو کو ساتھ ملا کر گیارہ بارہ تیرہ تو نہیں ہو جاؤ گے۔ ہمارا تو ماننا ہے کہ کپتان صاحب غالبؔ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا


صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

ہم نے پورا بیانیہ تو جناب کپتان صاحب کا نہیں پڑھا ہے کہ یہ گیارہ نکتے کیا ہے جن کی ضرورت نئے پاکستان میں پڑے گی کیونکہ نکات کے بارے میں ہم اتنے ہی کورے ہیں جتنے بیانیہ اور تحفظات کے بارے میں تہی دست ہیں۔ کیونکہ ہمارا تعلق ان مخلوقات کے گروہ سے ہے جو انسانوں سے بہت کم اور جانوروں سے تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں اور ان کو اتنی فرصت کہاں کہ نکتہ سازی نکتہ بازی یا نکتہ چینی کر سکیں۔ یہ نکتوں کا کھیل تو ان لوگوں کا ہے جو انسانوں سے بہت زیادہ اور خدا سے تھوڑے سے کم ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم خود ''نقطے'' ہیں تو نکتوں کے بارے میں کیا جانیں۔

کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے

''ہجر'' میں کیا نہیں جو تم سے کہیں

ویسے ہمیں ایک اور خدشہ بھی لاحق ہو رہا ہے اگر کپتان صاحب نے گیارہ نکتے لانچ کر دیئے ہیں تو دوسرے کیا چپ بیٹھیں گے کیا وہ اپنا کان کاٹنے دیں گے؟ ہر گز نہیں بلکہ امید بلکہ خطرہ ہے کہ وہ اس ''سہرے'' بھی بڑھ کر ''سہرا'' کہیں گے۔ گیارہ کے بعد بارہ اور تیرہ بلکہ چودہ پندرہ سولہ کے ہندسے کسی کے باپ کے تو نہیں ہیں اور پاکستانی سیاست میں تو اب یہ چلن ہو گیا ہے کہ دوسرے سے بڑھ کر جلسہ کریں گے اور سہرا کہیں گے اور پاکستان کے لوگ تو آپ جانتے ہیں بلکہ آپ سے زیادہ اور کون جانتا ہے کہ سخن فہم ہیں کسی غالب پاکستان کے طر دار نہیں ہیں۔ اگر کسی نے گیارہ کے اوپر بارہ تیرہ کر دیا تو؟ بات سوچنے کی ہے کہ اس ملک میں کچھ ہوتا ووتا تو ہے نہیں اور نہ ہی سیاست میں کرنے کرانے کا رواج ہے صرف نکتہ سازی نکتہ بازی اور نکتہ چینی ہی تو واحد کرنے کا کام ہے۔ ہمیں تو لگ رہا ہے کہ باقاعدہ نکتوں کی ایک جنگ شروع ہونے والی ہے جس کے نکتے جیتے وہی جیتا۔

ہمیں تو سوچ سوچ کر ہی مزا آ رہا ہے جب سارے کے سارے نکتہ باز بر وزن بٹیر باز کبوتر باز پتنگ باز اور مرغ باز اپنے اپنے لڑاکووں کو بغل میں دبا کر میدان میں اتریں ایک دوسرے کے نکتوں پر نکتے چھوڑیں گے اور پرزے پرزے کریں گے۔ فلاں نے فلاں کے نکتوں کو نڈھال کر دیا۔ فلاں کے نکتے پٹتے جا رہے ہیں۔ فلاں کے سارے نکتے میدان مار رہے ہیں۔ رہے نکتے تو اس میدان میں کتنے نامی گرامی نکتے آئے اور اپنی اپنی بولیاں بول کر چلے گئے۔ روٹی کپڑا مکان کے نکتے مساوات، جمہوریت، سوشلزم کے نکتے اسلامی نکتے، چھوٹے نکتے، بڑے نکتے، منجھلے نکتے، سبز نکتے، سرخ نکتے، نیلے نیلے کالے نکتے آنے جانے والے نکتے

''نکتوں'' کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ

عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے

بہر حال دیکھتے ہیں کیا گزرتی ہے ''نکتوں'' پہ گہر ہونے تک۔ نکتہ بہ نکتہ، موبہ مو، دریا بہ دریا جو بہ جو ۔
Load Next Story