منفی بین الاقوامی ایجنڈا ناکام ہوگا
غیرمتعصب تجزیے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی ایجنڈا کیا ہے۔
ملک کوکمزورکرنے کامنصوبہ مکمل طورپرکھل کر سامنے آچکاہے۔غیرمتعصب تجزیے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی ایجنڈا کیا ہے۔ارضِ وطن کومحض کمزور کرناہی مقصدنہیں بلکہ ایسے لگتاہے کہ اصل عزائم اس کی جغرافیائی ساخت کی تبدیلی ہے۔یعنی اسے چند حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس منصوبہ بندی کی طرف جاؤں۔
ایک اور نکتہ سامنے لانابے حدضروری ہے۔ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے صرف ایک منظم طاقت موجود ہے اوروہ ہے فوج اورہمارے چندریاستی ادارے۔ درست ہے کہ سترسال کی تاریخ میں دفاعی اداروں سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ہمالیہ سے بھی بڑی غلطیاں۔ مگرموجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی دوسراادارہ نہیں ہے جوملک کی سلامتی کاضامن بن سکے۔
نقصان پہنچانے والے عزائم کوپوراکرنے کے لیے بین لاقوامی طاقتیں توخیرموجودہیں ہی، مگرچندملکی سیاستدان،دانشور،سیاسی اورغیرسیاسی جماعتیں اس کھیل میں شامل ہوچکی ہیں۔عرض کرتاچلوں کہ محض دعاؤں اوراستغفارسے بڑے نقصان کوٹالانھیں جا سکتا۔بلکہ اس وقت حب الوطنی سے لبریزہوکران عناصرکی بیخ کنی ضروری ہے۔جواب ہمارے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔اس صورتحال کوسمجھنے کے لیے چند سوالات اُٹھانے ضروری ہیں۔صرف اسلیے کہ ممکنہ حادثے کے نقشہ کوسمجھاجائے اورپھراس سے بچا جائے۔
پاکستان نے امریکا اوردیگرطاقتوں کے ساتھ تعلقات بہترکرنے کے لیے واشنگٹن میں لابی کرنے والی فرم کو کیوں نہیں رکھا؟ یہ انتظام دنیاکی ہرحکومت کرتی ہے اورآج بھی کر رہی ہے۔ مگرانتہائی پردہ پوشی سے کسی بھی اہم کمپنی سے معاہدہ نہیں کیا گیا جوہمارے معاملات دنیاکے اہم ممالک سے بہتربنواسکتی تھی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پورے ملک کوبین الاقوامی سطح پر اکیلاکرنے کی کوشش خودہماری سیاسی حکومتوں نے کی۔اگریقین نہیں آتاتوخودتحقیق کرلیجئے۔
آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ کام جودنیاکی ہرحکومت اپنے قومی مفادمیں کرتی ہے۔اسے ہمارے سیاستدانوں نے مکمل طورپرردکرڈالا۔اس کی بالآخرکیاوجہ تھی۔اس سوال کاجواب ہرصورت پوچھناچاہیے۔پوچھنا یہ بھی ضروری ہے کہ کس کے کہنے پرساڑھے چارسال وزیرخارجہ متعین نہیں کیاگیا۔
دوسری بات یہ کہ حسین حقانی کوامریکا میں پاکستان کاسفیرکیوں مقررکیاگیا۔یہ نہیں کہوںگاکہ وہ کوئی لاپروا یانالائق انسان ہے۔میری نظرمیں انتہائی ذہین اورفطین شخص ہے۔مگرموقعہ شناسی کے اس جادوگر کواس نازک عہدے پرتعینات کرنا دانش مندی کی علامت نہیں تھی۔کبھی کسی کی ذات پربات نہیں کی۔مگریہ کردار خاصا پر اسرار ہے۔پیپلزپارٹی کے عروج میںموصوف نے محترمہ بینظیربھٹوکی ایک خاتون معتمدکی بہن سے شادی کی لی۔ لیکن جیسے ہی پیپلزپارٹی زیرِعتاب آئی،طلاق ہوگئی۔
بہرحال موصوف پھر آصف زرداری صاحب کے قریب ہوگئے۔انھیں بھی ایک ہوشیاربندے کی ضرورت تھی۔ لہذاقربتیں بڑھ گئیں۔موصوف کی دوسری خانہ آبادی ہوئی۔ حسین حقانی کوہمارے قومی مفادات کے تحفظ پر کیونکر ضامن بنادیاگیا۔یہ سوال میموگیٹ کی صورت میں سامنے آیا۔اس پرسپریم کورٹ کافیصلہ ضرور ہونا چاہیے۔مگردفاعی اداروں کوبھی سوچنا چاہیے کہ ان کی موجودگی میں یہ شخص قومی مفادات میں نقب لگانے میں کیسے کامیاب ہوا۔انھیں اس بات کا بھرپورتجزیہ کرناچاہیے۔
دفاعی اداروں کی دس برس سے یہ پالیسی کہ سیاست میں جوکچھ بھی ہوتاہے،وہ اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریںگے۔سوچناچاہیے اس پالیسی سے کیا فائدہ ہوااورکیانقصان ہوا۔قطعاًعرض نہیں کر رہا کہ مارشل لاء لگاناچاہیے۔بات صرف یہ ہے کہ پوری دنیا میں دفاعی ادارے،ملکی سلامتی کے مسائل پرسیاسی حکومتوں کومشورے دیتے ہیں۔نازک ترین امورمیںاپنی بات منواتے ہیں۔ مگردس برس میں ایسا ہوتاہواکم دکھائی دیتاہے۔
اگرفوج،بدانتظامی، کرپشن اور سیاسی جھوٹ کوموقع پرختم نہیں کرپائی توبے حد سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس پرانتہائی سنجیدہ مکالمہ یابحث ہونی چاہیے۔دوبارہ عرض کروںگاکہ دفاعی اداروں کوحکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔مگریہ بات واضح ہوجائے کہ فلاں بڑا یا چھوٹا سیاستدان ملک کے مفادات خلاف کام کررہا ہے۔دولت لوٹ کربیرون ملک جمع کرارہاہے تو تاخیرکیوں؟
آخرکون،اس ظلم کوروک سکتا ہے۔ کیا کوئی سرکاری افسریامقتدرطبقے کاشخص اپنے ذاتی فائدے کے برخلاف بات کرے گا۔سوچے گا بھی نہیں۔ ملایشیا،ساؤتھ افریقہ،کینیا،لندن، امریکا، فرانس،اٹلی اوردیگرمحفوظ مالی پناہ گاہوں میں لوٹا ہوا پیسہ جاتارہااورسب سے طاقتورادارہ دیکھتارہا۔ آخر کیوں؟یہ طرزِعمل بھی حیران کن ہے۔دفاعی اداروں کے علاوہ کوئی ایسادوسراادارہ نہیں جوایساسوچے یا کرنے کی ہمت کرے۔خیراب خدا عدالتوں کا بھلا کرے جنھوں نے انتہائی دلیری سے کام لے کرمضبوط لوگوں پرہاتھ ڈالنے کی جرات کی ہے۔
یہ بھی اچھا قدم ہے کہ نیب بھی جزوی طورپرفعال ہوچکا ہے۔ مگر نیب میں بھی تطہیرکی اَشدضرورت ہے۔چیئرمین نیب ایک سنجیدہ انسان ہے۔لازم ہے کہ وہ اپنے ادارے کے اندربھی راست اقدام کریںگے اورکرنے بھی چاہیے۔
آگے چلیے۔بلوچستان میں طویل عرصہ گزرانے کے بعد،اس نتیجہ پرپہنچاہوں کہ وہاں کے مسائل حل نہ ہونے کی اصل وجہ نہ وسائل کی کمی ہے اورنہ ہی افرادی قوت کامسئلہ ہے۔حددرجہ لائق افسراور اہلکار وہاں دوسرے صوبوں کی طرح موجودہیں۔جوہری نکتہ وہاں پربدترین کرپشن کاہے۔وہاں سڑکیں نہیں بنتیں۔پیسہ سیاستدانوں کی جیب میں چلاجاتا ہے۔ اگرکوئی انکوائری یاآڈٹ کروانے کی جسارت کرے تو قتل کرنے کی دھمکیاں ملنی شروع ہوجاتی ہیں۔مالیاتی کرپشن اوپرکی سطح سے لے کرنچلی سطح تک موجود ہے۔
خیردوسرے صوبوں میں بھی یہی پوزیشن یہی ہے۔ مگروہاں یہ نہیں ہوتاکہ وزیراعلیٰ دودومہینے صوبائی دارالحکومت میں آنے کی زحمت ہی نہ کرے۔ بلوچستان میں متعددوزراء اعلیٰ ایسے گزرے ہیں جو اسلام آبادمیں رہتے تھے اور ریموٹ کنٹرول سے صوبائی حکومت چلاتے رہتے تھے۔ان کی غیرموجودگی اورعدم دلچسپی سے صوبے کاحلیہ بگاڑدیاگیا۔کیاآپ سوچ سکتے ہیں کہ بلوچستان کاایک سابقہ وزیراعلیٰ، اسلام آبادمیں تین تین ماہ اسلیے رہتاتھاکہ وہاں کی چوڑی سڑکوں پرہیوی موٹرسائیکل چلانابہت آسان اورمزیدارشغل تھا۔
کیاآپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ایک ضلع کوپانی فراہم کرنے کے لیے ایک صاحب ایک سے ڈیڑھ کروڑروپے روزانہ وصول کرتے تھے۔ بلوچستان کی ترقی میں اصل رکاوٹ وہاں کامقتدرطبقہ ہے۔جواس صوبے کے نام پرزیادہ سے زیادہ وسائل لیتاہے اورپھرکسی قسم کاحساب نہیں دیتا۔جوپیسٹری نہیں کھاتا،بلکہ پوری بیکری ہڑپ کرجاتاہے۔عوام کو یہی کہتے ہیں کہ وفاق ہمارے ساتھ زیادتی کررہا ہے۔ہماراحق غصب کیاجارہاہے۔
نتیجہ یہ کہ لوگوں میں شکوک وشبہات پیداہوتے ہیں اوران کے اندروفاق کے خلاف نفرت کالاواپھٹتاہے۔اس نفرت کو انڈیا، افغانستان اورایک عرب ملک بڑھاوادیتے ہیں۔ اسی طرح نوجوان کوغلط طرف لگایاجاتاہے۔علیحدہ وطن کی آوازاُٹھائی جاتی ہے۔صورتحال کی اصل وجوہات معلوم کرنے کے بعدوہاں دیانتدار اور متحرک سیاسی قیادت کوآگے لاناچاہیے اوراس طرح کے لوگ وہاں موجودہیں۔اس سے آگے بڑھیے۔ صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے درمیان وفاقی حکومت میں تفریق کے عمل نے معاملہ بے حدبگاڑ دیا ہے۔ خیر اس پرگزارشات پھرکبھی سہی۔
المیہ یہ ہواکہ سویلین حکومتوں نے ہی سویلین حکومتی اداروں کوبرباد کر ڈالا ہے۔ایک بھی ایساسویلین ادارہ نہیں جومیرٹ پرکام کرنے کی استطاعت رکھتاہو۔دونمبرلوگوں کوایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت سویلین اداروں کے اندر بندربانٹ پرلگایاگیاہے۔یہ بگاڑٹھیک کرنا قطعاً مشکل نہیں۔سرکاری ملازم جس مرضی بڑے گریڈ کا ہو، اندر سے کمزورہی ہوتاہے۔حکومت تبدیل ہونے کے ساتھ ہی یہ سابقہ حکمرانوں سے رابطہ توڑکرنئے زمینی خداؤں کے سامنے سجدہ ریزہونے میں ایک لمحہ نہیں لگاتا۔
بین لاقوامی سطح پرہمیشہ یہ سوال اُٹھاناچاہیے کہ داعش کوہماری شمالی سرحدوں پرکون لایاہے۔کس طرح وہ روزافغانستان سے نکل کرہمارے ملک میں دہشتگردی کی وارداتیں کررہے ہیں۔خیریہ توہمارے دفاعی اداروں اورپولیس کی ہمت ہے کہ ان سیاہ کاروں کوکامیابی نصیب نہیں ہورہی۔پھریہ بھی سوچنا چاہیے کہ اسرائیل،کم فاصلے کے ایٹمی ہتھیار، ہندوستان کوکیوں مہیاکر رہا ہے۔ مقصد، صرف اور صرف ہمیں نقصان پہنچانا ہے۔اس میں کسی قسم کاابہام نہیں ہوناچاہیے۔
کیااس طرح کے نازک حالات میں جوعناصرملکی دفاعی اداروں کوکمزورکرناچاہتے ہیں۔وہ محب وطن ہیں؟کیاملکی سلامتی کے ضامن افرادکی قربانیوں کونظراندازکرکے منفی باتیں کرنا غداری کے ضمرے میں نہیں آتا؟کیایہ تمام افراد اتنے معصوم ہیں کہ انھیں پتہ ہی نہیں کہ وہ ملک کوتقسیم نہیں بلکہ توڑنے کے بین الاقوامی ایجنڈے پرکام کر رہے ہیں۔نہیں صاحب،یہ لوگ قطعاًقطعاًمعصوم نہیں! خیراب توعام لوگوں کے سامنے بھی ان کے اصل چہرے آچکے ہیں۔یہ اپنی سازش میں کامیاب ہوہی نہیں سکتے۔کیونکہ عام آدمی ان کی نیت کوسمجھ چکاہے!
ایک اور نکتہ سامنے لانابے حدضروری ہے۔ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے صرف ایک منظم طاقت موجود ہے اوروہ ہے فوج اورہمارے چندریاستی ادارے۔ درست ہے کہ سترسال کی تاریخ میں دفاعی اداروں سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ہمالیہ سے بھی بڑی غلطیاں۔ مگرموجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی دوسراادارہ نہیں ہے جوملک کی سلامتی کاضامن بن سکے۔
نقصان پہنچانے والے عزائم کوپوراکرنے کے لیے بین لاقوامی طاقتیں توخیرموجودہیں ہی، مگرچندملکی سیاستدان،دانشور،سیاسی اورغیرسیاسی جماعتیں اس کھیل میں شامل ہوچکی ہیں۔عرض کرتاچلوں کہ محض دعاؤں اوراستغفارسے بڑے نقصان کوٹالانھیں جا سکتا۔بلکہ اس وقت حب الوطنی سے لبریزہوکران عناصرکی بیخ کنی ضروری ہے۔جواب ہمارے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔اس صورتحال کوسمجھنے کے لیے چند سوالات اُٹھانے ضروری ہیں۔صرف اسلیے کہ ممکنہ حادثے کے نقشہ کوسمجھاجائے اورپھراس سے بچا جائے۔
پاکستان نے امریکا اوردیگرطاقتوں کے ساتھ تعلقات بہترکرنے کے لیے واشنگٹن میں لابی کرنے والی فرم کو کیوں نہیں رکھا؟ یہ انتظام دنیاکی ہرحکومت کرتی ہے اورآج بھی کر رہی ہے۔ مگرانتہائی پردہ پوشی سے کسی بھی اہم کمپنی سے معاہدہ نہیں کیا گیا جوہمارے معاملات دنیاکے اہم ممالک سے بہتربنواسکتی تھی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پورے ملک کوبین الاقوامی سطح پر اکیلاکرنے کی کوشش خودہماری سیاسی حکومتوں نے کی۔اگریقین نہیں آتاتوخودتحقیق کرلیجئے۔
آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ کام جودنیاکی ہرحکومت اپنے قومی مفادمیں کرتی ہے۔اسے ہمارے سیاستدانوں نے مکمل طورپرردکرڈالا۔اس کی بالآخرکیاوجہ تھی۔اس سوال کاجواب ہرصورت پوچھناچاہیے۔پوچھنا یہ بھی ضروری ہے کہ کس کے کہنے پرساڑھے چارسال وزیرخارجہ متعین نہیں کیاگیا۔
دوسری بات یہ کہ حسین حقانی کوامریکا میں پاکستان کاسفیرکیوں مقررکیاگیا۔یہ نہیں کہوںگاکہ وہ کوئی لاپروا یانالائق انسان ہے۔میری نظرمیں انتہائی ذہین اورفطین شخص ہے۔مگرموقعہ شناسی کے اس جادوگر کواس نازک عہدے پرتعینات کرنا دانش مندی کی علامت نہیں تھی۔کبھی کسی کی ذات پربات نہیں کی۔مگریہ کردار خاصا پر اسرار ہے۔پیپلزپارٹی کے عروج میںموصوف نے محترمہ بینظیربھٹوکی ایک خاتون معتمدکی بہن سے شادی کی لی۔ لیکن جیسے ہی پیپلزپارٹی زیرِعتاب آئی،طلاق ہوگئی۔
بہرحال موصوف پھر آصف زرداری صاحب کے قریب ہوگئے۔انھیں بھی ایک ہوشیاربندے کی ضرورت تھی۔ لہذاقربتیں بڑھ گئیں۔موصوف کی دوسری خانہ آبادی ہوئی۔ حسین حقانی کوہمارے قومی مفادات کے تحفظ پر کیونکر ضامن بنادیاگیا۔یہ سوال میموگیٹ کی صورت میں سامنے آیا۔اس پرسپریم کورٹ کافیصلہ ضرور ہونا چاہیے۔مگردفاعی اداروں کوبھی سوچنا چاہیے کہ ان کی موجودگی میں یہ شخص قومی مفادات میں نقب لگانے میں کیسے کامیاب ہوا۔انھیں اس بات کا بھرپورتجزیہ کرناچاہیے۔
دفاعی اداروں کی دس برس سے یہ پالیسی کہ سیاست میں جوکچھ بھی ہوتاہے،وہ اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریںگے۔سوچناچاہیے اس پالیسی سے کیا فائدہ ہوااورکیانقصان ہوا۔قطعاًعرض نہیں کر رہا کہ مارشل لاء لگاناچاہیے۔بات صرف یہ ہے کہ پوری دنیا میں دفاعی ادارے،ملکی سلامتی کے مسائل پرسیاسی حکومتوں کومشورے دیتے ہیں۔نازک ترین امورمیںاپنی بات منواتے ہیں۔ مگردس برس میں ایسا ہوتاہواکم دکھائی دیتاہے۔
اگرفوج،بدانتظامی، کرپشن اور سیاسی جھوٹ کوموقع پرختم نہیں کرپائی توبے حد سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس پرانتہائی سنجیدہ مکالمہ یابحث ہونی چاہیے۔دوبارہ عرض کروںگاکہ دفاعی اداروں کوحکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔مگریہ بات واضح ہوجائے کہ فلاں بڑا یا چھوٹا سیاستدان ملک کے مفادات خلاف کام کررہا ہے۔دولت لوٹ کربیرون ملک جمع کرارہاہے تو تاخیرکیوں؟
آخرکون،اس ظلم کوروک سکتا ہے۔ کیا کوئی سرکاری افسریامقتدرطبقے کاشخص اپنے ذاتی فائدے کے برخلاف بات کرے گا۔سوچے گا بھی نہیں۔ ملایشیا،ساؤتھ افریقہ،کینیا،لندن، امریکا، فرانس،اٹلی اوردیگرمحفوظ مالی پناہ گاہوں میں لوٹا ہوا پیسہ جاتارہااورسب سے طاقتورادارہ دیکھتارہا۔ آخر کیوں؟یہ طرزِعمل بھی حیران کن ہے۔دفاعی اداروں کے علاوہ کوئی ایسادوسراادارہ نہیں جوایساسوچے یا کرنے کی ہمت کرے۔خیراب خدا عدالتوں کا بھلا کرے جنھوں نے انتہائی دلیری سے کام لے کرمضبوط لوگوں پرہاتھ ڈالنے کی جرات کی ہے۔
یہ بھی اچھا قدم ہے کہ نیب بھی جزوی طورپرفعال ہوچکا ہے۔ مگر نیب میں بھی تطہیرکی اَشدضرورت ہے۔چیئرمین نیب ایک سنجیدہ انسان ہے۔لازم ہے کہ وہ اپنے ادارے کے اندربھی راست اقدام کریںگے اورکرنے بھی چاہیے۔
آگے چلیے۔بلوچستان میں طویل عرصہ گزرانے کے بعد،اس نتیجہ پرپہنچاہوں کہ وہاں کے مسائل حل نہ ہونے کی اصل وجہ نہ وسائل کی کمی ہے اورنہ ہی افرادی قوت کامسئلہ ہے۔حددرجہ لائق افسراور اہلکار وہاں دوسرے صوبوں کی طرح موجودہیں۔جوہری نکتہ وہاں پربدترین کرپشن کاہے۔وہاں سڑکیں نہیں بنتیں۔پیسہ سیاستدانوں کی جیب میں چلاجاتا ہے۔ اگرکوئی انکوائری یاآڈٹ کروانے کی جسارت کرے تو قتل کرنے کی دھمکیاں ملنی شروع ہوجاتی ہیں۔مالیاتی کرپشن اوپرکی سطح سے لے کرنچلی سطح تک موجود ہے۔
خیردوسرے صوبوں میں بھی یہی پوزیشن یہی ہے۔ مگروہاں یہ نہیں ہوتاکہ وزیراعلیٰ دودومہینے صوبائی دارالحکومت میں آنے کی زحمت ہی نہ کرے۔ بلوچستان میں متعددوزراء اعلیٰ ایسے گزرے ہیں جو اسلام آبادمیں رہتے تھے اور ریموٹ کنٹرول سے صوبائی حکومت چلاتے رہتے تھے۔ان کی غیرموجودگی اورعدم دلچسپی سے صوبے کاحلیہ بگاڑدیاگیا۔کیاآپ سوچ سکتے ہیں کہ بلوچستان کاایک سابقہ وزیراعلیٰ، اسلام آبادمیں تین تین ماہ اسلیے رہتاتھاکہ وہاں کی چوڑی سڑکوں پرہیوی موٹرسائیکل چلانابہت آسان اورمزیدارشغل تھا۔
کیاآپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ایک ضلع کوپانی فراہم کرنے کے لیے ایک صاحب ایک سے ڈیڑھ کروڑروپے روزانہ وصول کرتے تھے۔ بلوچستان کی ترقی میں اصل رکاوٹ وہاں کامقتدرطبقہ ہے۔جواس صوبے کے نام پرزیادہ سے زیادہ وسائل لیتاہے اورپھرکسی قسم کاحساب نہیں دیتا۔جوپیسٹری نہیں کھاتا،بلکہ پوری بیکری ہڑپ کرجاتاہے۔عوام کو یہی کہتے ہیں کہ وفاق ہمارے ساتھ زیادتی کررہا ہے۔ہماراحق غصب کیاجارہاہے۔
نتیجہ یہ کہ لوگوں میں شکوک وشبہات پیداہوتے ہیں اوران کے اندروفاق کے خلاف نفرت کالاواپھٹتاہے۔اس نفرت کو انڈیا، افغانستان اورایک عرب ملک بڑھاوادیتے ہیں۔ اسی طرح نوجوان کوغلط طرف لگایاجاتاہے۔علیحدہ وطن کی آوازاُٹھائی جاتی ہے۔صورتحال کی اصل وجوہات معلوم کرنے کے بعدوہاں دیانتدار اور متحرک سیاسی قیادت کوآگے لاناچاہیے اوراس طرح کے لوگ وہاں موجودہیں۔اس سے آگے بڑھیے۔ صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے درمیان وفاقی حکومت میں تفریق کے عمل نے معاملہ بے حدبگاڑ دیا ہے۔ خیر اس پرگزارشات پھرکبھی سہی۔
المیہ یہ ہواکہ سویلین حکومتوں نے ہی سویلین حکومتی اداروں کوبرباد کر ڈالا ہے۔ایک بھی ایساسویلین ادارہ نہیں جومیرٹ پرکام کرنے کی استطاعت رکھتاہو۔دونمبرلوگوں کوایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت سویلین اداروں کے اندر بندربانٹ پرلگایاگیاہے۔یہ بگاڑٹھیک کرنا قطعاً مشکل نہیں۔سرکاری ملازم جس مرضی بڑے گریڈ کا ہو، اندر سے کمزورہی ہوتاہے۔حکومت تبدیل ہونے کے ساتھ ہی یہ سابقہ حکمرانوں سے رابطہ توڑکرنئے زمینی خداؤں کے سامنے سجدہ ریزہونے میں ایک لمحہ نہیں لگاتا۔
بین لاقوامی سطح پرہمیشہ یہ سوال اُٹھاناچاہیے کہ داعش کوہماری شمالی سرحدوں پرکون لایاہے۔کس طرح وہ روزافغانستان سے نکل کرہمارے ملک میں دہشتگردی کی وارداتیں کررہے ہیں۔خیریہ توہمارے دفاعی اداروں اورپولیس کی ہمت ہے کہ ان سیاہ کاروں کوکامیابی نصیب نہیں ہورہی۔پھریہ بھی سوچنا چاہیے کہ اسرائیل،کم فاصلے کے ایٹمی ہتھیار، ہندوستان کوکیوں مہیاکر رہا ہے۔ مقصد، صرف اور صرف ہمیں نقصان پہنچانا ہے۔اس میں کسی قسم کاابہام نہیں ہوناچاہیے۔
کیااس طرح کے نازک حالات میں جوعناصرملکی دفاعی اداروں کوکمزورکرناچاہتے ہیں۔وہ محب وطن ہیں؟کیاملکی سلامتی کے ضامن افرادکی قربانیوں کونظراندازکرکے منفی باتیں کرنا غداری کے ضمرے میں نہیں آتا؟کیایہ تمام افراد اتنے معصوم ہیں کہ انھیں پتہ ہی نہیں کہ وہ ملک کوتقسیم نہیں بلکہ توڑنے کے بین الاقوامی ایجنڈے پرکام کر رہے ہیں۔نہیں صاحب،یہ لوگ قطعاًقطعاًمعصوم نہیں! خیراب توعام لوگوں کے سامنے بھی ان کے اصل چہرے آچکے ہیں۔یہ اپنی سازش میں کامیاب ہوہی نہیں سکتے۔کیونکہ عام آدمی ان کی نیت کوسمجھ چکاہے!