جنگیں نفرتیں اور جدید علوم
فوجی طاقت کا جواب فوجی طاقت سے دینا ایک بدترین ذہنی و فکری پسماندگی بھی ہے کیا دنیا اس مفلسانہ فلسفے پر ہی چلتی رہے گی
پچھلے ہفتے اسرائیلی افواج کی غزہ میں وحشیانہ فائرنگ سے 60 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ ایک اسرائیلی اگر فلسطینیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوتا ہے تو اسرائیلی افواج بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف آگ برسانے لگ جاتی ہیں اور امریکا کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف مذمتی بیانات داغے جانے لگتے ہیں اور امریکا کے اتحادی بھی امریکا کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے فلسطینیوں کی مذمت پر اتر آتے ہیں۔
غزہ میں فلسطینیوں کا جو قتل عام ہوا ہے اس کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کوئی منصفانہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں اضطراب کی وجہ بھی امریکا کے جنگجو اور نیم پاگل صدر ٹرمپ کا یہ اشتعال انگیز فیصلہ ہے جس کے مطابق امریکا کے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کردیا گیا ہے۔
بیت المقدس ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور یہ تنازعہ اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے، اس متنازعہ علاقے کی سنگینی کی وجہ ہی 70 سال سے کوئی امریکی حکومت بیت المقدس کے حوالے سے کوئی اشتعال انگیز قدم اٹھانے سے گریزاں رہی لیکن موجودہ امریکی صدر کی فتنہ انگیز طبیعت نے انھیں ایک ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا جو آخرکار فلسطینیوں کے قتل عام کا سبب بن گیا۔
دنیا کے 57 مسلم ممالک میں بسنے والے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کا تحفظ کرنے کے لیے ایک تنظیم بنائی گئی جس کا نام نامی، اسم گرامی او آئی سی رکھا گیا۔ یہ تنظیم اپنے قیام کے وقت ہی سے ایک مردہ گھوڑا بنی ہوئی ہے، اس کی موجودگی کے دوران ہی کشمیر میں 70 ہزار کشمیری قتل کیے گئے، اس کی موجودگی کے دوران ہی لاکھوں فلسطینی قتل اور دربدر ہوئے، اس کی موجودگی کے دوران ہی اسرائیل نے عرب علاقوں پر قبضہ کیا اور اب تک جولان کا پہاڑی علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔
اس مردہ گھوڑے میں پہلی مرتبہ جان پڑی ہے کہ مسلم ملکوں کے دباؤ اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام پر غور کرنے کے لیے او آئی سی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ کہا گیا ہے کہ غزہ میں عالمی امن فوج تعینات کی جائے اور اسرائیل کا بائیکاٹ کیا جائے۔ او آئی سی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ''امریکی زور پر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والے اور وہاں پر اپنے سفارت خانے منتقل کرنے والے ممالک کے خلاف مناسب سیاسی اقتصادی اور دیگر نوعیت کے اقدامات کیے جائیں''۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ 60 نہتے فلسطینیوں کی شہادت پر اسرائیل کی مذمت کی جائے اور عالمی برادری اسرائیل کو احتساب کے کٹہرے میں لائے، او آئی سی کے شرکا نے کہا ہے کہ فلسطین کی قانونی حیثیت کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔
او آئی سی نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے قتل عام کے جرم میں اسرائیل کو احتساب کے کٹہرے میں لائے۔ اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر مسلم ممالک میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں۔ عرب ملکوں میں پھوٹ کا عالم یہ ہے کہ سعودی عرب جیسا مسلم ملک جس کا احترام مسلم اکابرین کی آخری قیام گاہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں اور وہ مسلم ملکوں میں احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور سعودی عرب کے علاوہ بھی بعض مسلم ملکوں کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔
ایران خطے کا واحد مسلم ملک ہے جو اسرائیل کی بالادستی کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، ایران واحد مشرق وسطیٰ کا ملک ہے جو اسرائیل کی فوجی بالا دستی کو ختم کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے مدت سے کوشاں ہے اور ایران کی اس جرأت رندانہ سے ناراض امریکا عشروں سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے ایران کو بلیک میل کر رہا ہے لیکن ایران انتہائی جرأت سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بلیک میلنگ کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہیں، اگر مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک ایران کا ساتھ دیں تو ایران اسرائیل کی بالادستی کو تہس نہس کر سکتا ہے، لیکن یہ کس قدر افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ مسلم دنیا فقہ کے نام پر بٹی ہوئی ہے اور ایران کا ساتھ نہ دینے کی وجہ بھی فقہی اختلافات ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ اگر چاہیں تو کیا مسلم ممالک کے درمیان موجود فقہی اختلافات کو دور نہیں کر سکتے؟
انسان چاند پر ہو آیا اور دنیا سائنس ٹیکنالوجی تحقیق و دریافت کے حوالے سے ماضی کے تمام فلسفوں کو بے بنیاد اور بے جواز ٹھہرا کر زندگی کے ہر شعبے میں ناقابل یقین ترقی کر رہی ہے اور مسلم دنیا ماضی کے دھندلکوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کی آبادی سے کم آبادی والا ملک اسرائیل ساری عرب دنیا پر حاوی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نہ صرف فوجی حوالے سے عربوں سے برتر ہے بلکہ اقتصادی حوالے سے بھی ایک مضبوط ملک ہے یہودی آج بھی دیوار گریہ پر جاکر روتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم میں بھی دسترس رکھتے ہیں یہی اس کی برتری کی وجہ ہے اور ہم۔۔۔؟
تیل کی دولت کی وجہ عرب ملکوں کا شمار امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے لیکن عرب بادشاہ اور شیوخ تیل کی بے بہا دولت کو مغربی ملکوں کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں عیاشی کی نظر کر رہے ہیں۔ اگر عرب ایلیٹ تیل کی دولت کو عیاشیوں میں صرف کرنے کے بجائے جدید علوم میں برتری پر خرچ کرنے اور مغربی ملکوں سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے بجائے اپنے ملکوں میں جدید اسلحے کے کارخانے لگانے میں استعمال کرے تو اسرائیل چند گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گا۔
ہر سال حج کے دوران اور سارا سال عمرے سے حاصل ہونے والی اربوں کی دولت پسماندہ مسلم ملکوں کی اقتصادی امداد اور پسماندہ مسلم ملکوں میں جدید علوم کی آکسفورڈ جیسی درس گاہیں قائم کرنے میں لگائے تو مسلم دنیا بھی مغربی دنیا کے برابر آسکتی ہے۔
فوجی طاقت کا جواب فوجی طاقت سے دینا ایک بدترین ذہنی و فکری پسماندگی بھی ہے کیا دنیا اس مفلسانہ فلسفے پر ہی چلتی رہے گی کیا انسانوں کے درمیان مذہبی یکجہتی اور انسانیت کا احترام دنیا کے 7 ارب غریب اور سماجی اور علمی شعور سے محروم انسانوں کے درمیان رنگ نسل ذات پات دین دھرم کے تعصبات کو ختم نہیں کرسکتا؟ ایٹمی ہتھیاروں کا جواب ایٹمی ہتھیاروں سے دے کر انسان دنیا کو تباہ کرسکتا ہے اگر رنگ نسل مذہب و ملت کی تفریق کو جدید علوم کی روشنی میں لاکر انسانیت کے رشتے میں باندھا جائے تو دنیا جنت بن سکتی ہے۔