سندھ حکومت کے 5 سال شہید بینظیر کے نام پر قائم لیاری یونیورسٹی شدید بحرانوں کا شکار
پیپلز پارٹی کراچی میں اپنے گڑھ میں قائم لیاری یونیورسٹی کو پاکستانی جامعات میں مقام دلانے میں ناکام رہی
KARACHI:
پیپلز پارٹی کی حکومت 5 سالہ دور اقتدارمیں کراچی میں اپنے ہی گڑھ میں پارٹی کی شہیدچیئرپرسن محترمہ بینظیربھٹوکے نام پر قائم لیاری یونیورسٹی کی حالت بہتربنانے اور اسے پاکستانی جامعات میں مقام دلانے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔
8 برس قبل لیاری ڈگری کالج میں قائم کی گئی لیاری یونیورسٹی کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے یونیورسٹی انتظامی اور اکیڈمک سطح پرانتہائی زبوں حالی کا شکار ہے لیاری یونیورسٹی کے 8 سالہ دورکے دوسرے حصے میں پروفیسرڈاکٹراختربلوچ بطور وائس چانسلرکام کر رہے ہیں تاہم لیاری یونیورسٹی عرصے درازسے رجسٹرارکے بغیر ہی کام کر رہی ہے جبکہ یونیورسٹی میں کوئی مستقل ناظم امتحانات موجود ہی نہیں ہے صرف حکومت سندھ کی جانب سے تعینات ایک ڈائریکٹرفنانس کام کررہے ہیں جن کی مدت ملازمت بھی کچھ عرصے بعدپوری ہوجائے گی جبکہ تمام فیکلٹیزبغیرڈینزکے کام کررہی ہیں۔
یاد رہے کہ رجسٹرار اور ناظم امتحانات کے عہدوں پر تعیناتی کااختیارسن 2013سے کچھ روزقبل تک حکومت سندھ کے پاس رہاہے جبکہ سینئر فیکلٹی کی موجودگی میں ڈینزکی تعیناتی کی ذمے داری چانسلر سیکریٹریٹ گورنرہاؤس کے پاس ہے تاہم چند روز میں اپنی مدت پوری کرنے والی حکومت سندھ اپنے پانچ سالہ دور اقتدارمیں شہید بینظیر بھٹو لیاری یونیورسٹی کوانتظامی طور پر بہتر کرنے کے سلسلے میں ان اسامیوں پرافسران تعینات کرنے میں ناکام رہی۔
یونیورسٹی کے مستقل رجسٹرار ڈاکٹر محبوب شیخ 14 جولائی 2014 سے کواس عہدے سے رخصت ہوگئے تھے ان کے بعد سے تاحال یونیورسٹی میں کوئی رجسٹرار موجود نہیں گریڈ 17کی اسسٹنٹ رجسٹرار محسنہ سکندرکوڈپٹی رجسٹرار کا چارج دیا گیا ہے تاہم رجسٹرار کوئی نہیں ہے ایڈیشنل رجسٹراربھی موجودنہیںیونیورسٹی میں کنٹرولر آف ایکزامینیشن موجودنہیں۔
یونیورسٹی کے ابتدائی تین سال کے لیے 75برس کے پروفیسر نورمحمد میمن کوناظم امتحانات بنایا گیا اپنا کنٹریکٹ پوراکرنے کے بعدوہ تاحکم ثانی اس عہدے پر کام کرتے رہے اورازاں بعدوہ بھی رخصت ہوگئے جس کے بعداب کنٹریکٹ پر ایک شخص ناظم امتحانات کے عہدے پرکام کررہاہے ادھرپوری یونیورسٹی میں ایک بھی پروفیسرنہیں ہیں وائس چانسلرفل پروفیسرضرورہیں تاہم وہ انتظامی عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔
مزید براں ایک بھی ایسوسی ایٹ پروفیسرموجودنہیں ہے یونیورسٹی کے آفیشل ذرائع سے بات چیت میں اس بات کا انکشاف ہواہے کہ متواتراشتہاردیے جانے کے باوجود کراچی سمیت پورے سندھ سے کوئی بھی استاد بطور پروفیسر لیاری یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے لیے تیارنہیں ہر چند کے یہاں تنخواہ کے علاوہ لیاری الاؤنس کے نام پر 25 ہزار روپے اضافی دیے جاتے ہیں تاہم اس کے باوجود پروفیسر کی اسامی پر کسی نے درخواست ہی نہیں دی جبکہ حکومت سندھ نے اس معاملے کوحل کرنے میں خود اپنا کردار بھی ادا نہیں کیا۔
قابل ذکرامریہ ہے کہ حکومت سندھ کی بے حسی کا معاملہ یہی نہیں رکا بلکہ یونیورسٹی کے 8سال میںپیپلزپارٹی کی حکومت کئی بارے لکھنے کے باوجود یونیورسٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے زمین فراہم نہیں کرسکی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کئی خطوط لکھے جانے کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے یونیورسٹی کے لیے ہاکس بے پر 200ایکڑاراضی دیے جانے کی منظورتودی گئی تاہم یہ معاملہ بورڈآف ریونیومیں فائلوں کی نذر ہو گیا۔
دوسری جانب یونیورسٹی کے آٹھ سالہ دور میں ادارے کے سب سے بااختیارفورم ''سینیٹ''کااجلاس صرف ایک بار ہوا یہ اجلاس سابق وائس چانسلرآراے شاہ کے دورمیں سابق گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان کی زیرصدارت 21 نومبر 2014 کو ہوا تھا اس کے بعدسے تاحال ایک بھی اجلاس نہیں ہوا اور یونیورسٹی کابجٹ بغیرسینیٹ کی منظوری کے استعمال ہوتا رہا۔
ذرائع کہتے ہیں کہ سابق گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العبادخان نے گزشتہ انتظامیہ کے حوالے سے مالی شکایات پر ایک آزادانہ آڈٹ انکوائری کرانے کے احکام دیے تھے اس سلسلے میں موجودہ انتظامیہ نے آڈٹ کی غرض سے اشتہاردیا تاہم کسی آڈٹ فرم نے یونیورسٹی کے آڈٹ میں دلچسپی ہی ظاہر نہیں کی ایک بار پھر اشتہار دیا گیا تو صرف ایک آڈٹ فرم نے دلچسپی ظاہرکی لہٰذا بغیرکسی ''کمپیٹیشن'' کے آڈٹ کی ذمے داری دی گئی۔
کمپنی کچھ عرصہ کام کرنے کے بعدآڈٹ ادھورا چھوڑ کر غائب ہو گئی اور یوں یونیورسٹی کا آزادانہ آڈٹ بھی مکمل نہیں ہوسکا اور اسی عذرکوپیش کرتے ہوئے موجودہ انتظامیہ نے سینیٹ ہی نہیں کرائی۔
واضح رہے کہ شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری چار فیکلٹیز اور 7 شعبوں کے ساتھ کام کر رہی ہے جن میں فیکلٹی آف آرٹس میں انگریزی، فیکلٹی آف ایجوکیشن میں ایجوکیشن ،کمپیوٹرسائنس میں کمپیوٹرسائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، مینجمنٹ سائنسز میں بزنس ایڈمنسٹریشن اور کامرس کے شعبے ہیں جبکہ گزشتہ برس فارمیسی کاشعبہ شروع کیاگیاہے تاہم یونیورسٹی کی ریگولرفیکلٹی میں بمشکل ایک پی ایچ ڈی استاد ہے کل 30فیکلٹی اراکین ہیں۔
اکیڈمک سطح پر دیکھاجائے تویونیورسٹی سے کوئی ریسرچ جرنل جاری نہیں ہوتا تاہم موجودہ وائس چانسلرکی جانب سے فیکلٹی کے لیے اقدام کرتے ہوئے اساتذہ کوان کی اسامیوں پر ریگولر کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت سندھ نے 2013 میں سرکاری جامعات کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے 26 اگست 2013کوایک نیاترمیمی ایکٹ منظورکیاتھاجس کے بعد سے پورے سندھ کی تمام سرکاری جامعات کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنرسندھ سے وزیر اعلیٰ سندھ کومنتقل ہوگئی تھی جبکہ جامعات میں رجسٹراراورناظم امتحانات کے تقرر کا اختیار وائس چانسلرسے لے لیاگیاتھاتاہم اس کے باوجودلیاری یونیورسٹی میں رجسٹرار اور ناظم امتحانات کی اسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی گئی اوریونیورسٹی ایڈہاک ازم کا شکار رہی۔
ادھر یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹراختربلوچ کا ''ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پرکہناتھاکہ سرکاری یونیورسٹیز کے ترمیمی ایکٹ 2018کے بعداب چندروزقبل رجسٹرار اور ناظم امتحانات کی تعینات کااختیارجامعات کے کوواپس مل گیاہے لہٰذا اب لیاری یونیورسٹی میں دونوں کلیدی عہدوں پرتعیناتی کے لیے اشتہاراورسلیکشن بورڈ کے ذریعے بھرتیاں کی جائیں گی۔
سینیٹ کے اجلاس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آزادانہ آڈٹ کے حوالے سے جوبھی صورتحال رہی اس کے حوالے سے خط لکھ کرسینیٹ کااجلاس جلد بلائیں گے انھوں نے مزیدبتایاکہ اب کچھ افرادنے پروفیسرکے عہدے کے لیے درخواست دی ہے امید ہے کہ اب یونیورسٹی میں پروفیسرکی اسامی پر اساتذہ آئیں گے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت 5 سالہ دور اقتدارمیں کراچی میں اپنے ہی گڑھ میں پارٹی کی شہیدچیئرپرسن محترمہ بینظیربھٹوکے نام پر قائم لیاری یونیورسٹی کی حالت بہتربنانے اور اسے پاکستانی جامعات میں مقام دلانے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔
8 برس قبل لیاری ڈگری کالج میں قائم کی گئی لیاری یونیورسٹی کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے یونیورسٹی انتظامی اور اکیڈمک سطح پرانتہائی زبوں حالی کا شکار ہے لیاری یونیورسٹی کے 8 سالہ دورکے دوسرے حصے میں پروفیسرڈاکٹراختربلوچ بطور وائس چانسلرکام کر رہے ہیں تاہم لیاری یونیورسٹی عرصے درازسے رجسٹرارکے بغیر ہی کام کر رہی ہے جبکہ یونیورسٹی میں کوئی مستقل ناظم امتحانات موجود ہی نہیں ہے صرف حکومت سندھ کی جانب سے تعینات ایک ڈائریکٹرفنانس کام کررہے ہیں جن کی مدت ملازمت بھی کچھ عرصے بعدپوری ہوجائے گی جبکہ تمام فیکلٹیزبغیرڈینزکے کام کررہی ہیں۔
یاد رہے کہ رجسٹرار اور ناظم امتحانات کے عہدوں پر تعیناتی کااختیارسن 2013سے کچھ روزقبل تک حکومت سندھ کے پاس رہاہے جبکہ سینئر فیکلٹی کی موجودگی میں ڈینزکی تعیناتی کی ذمے داری چانسلر سیکریٹریٹ گورنرہاؤس کے پاس ہے تاہم چند روز میں اپنی مدت پوری کرنے والی حکومت سندھ اپنے پانچ سالہ دور اقتدارمیں شہید بینظیر بھٹو لیاری یونیورسٹی کوانتظامی طور پر بہتر کرنے کے سلسلے میں ان اسامیوں پرافسران تعینات کرنے میں ناکام رہی۔
یونیورسٹی کے مستقل رجسٹرار ڈاکٹر محبوب شیخ 14 جولائی 2014 سے کواس عہدے سے رخصت ہوگئے تھے ان کے بعد سے تاحال یونیورسٹی میں کوئی رجسٹرار موجود نہیں گریڈ 17کی اسسٹنٹ رجسٹرار محسنہ سکندرکوڈپٹی رجسٹرار کا چارج دیا گیا ہے تاہم رجسٹرار کوئی نہیں ہے ایڈیشنل رجسٹراربھی موجودنہیںیونیورسٹی میں کنٹرولر آف ایکزامینیشن موجودنہیں۔
یونیورسٹی کے ابتدائی تین سال کے لیے 75برس کے پروفیسر نورمحمد میمن کوناظم امتحانات بنایا گیا اپنا کنٹریکٹ پوراکرنے کے بعدوہ تاحکم ثانی اس عہدے پر کام کرتے رہے اورازاں بعدوہ بھی رخصت ہوگئے جس کے بعداب کنٹریکٹ پر ایک شخص ناظم امتحانات کے عہدے پرکام کررہاہے ادھرپوری یونیورسٹی میں ایک بھی پروفیسرنہیں ہیں وائس چانسلرفل پروفیسرضرورہیں تاہم وہ انتظامی عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔
مزید براں ایک بھی ایسوسی ایٹ پروفیسرموجودنہیں ہے یونیورسٹی کے آفیشل ذرائع سے بات چیت میں اس بات کا انکشاف ہواہے کہ متواتراشتہاردیے جانے کے باوجود کراچی سمیت پورے سندھ سے کوئی بھی استاد بطور پروفیسر لیاری یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے لیے تیارنہیں ہر چند کے یہاں تنخواہ کے علاوہ لیاری الاؤنس کے نام پر 25 ہزار روپے اضافی دیے جاتے ہیں تاہم اس کے باوجود پروفیسر کی اسامی پر کسی نے درخواست ہی نہیں دی جبکہ حکومت سندھ نے اس معاملے کوحل کرنے میں خود اپنا کردار بھی ادا نہیں کیا۔
قابل ذکرامریہ ہے کہ حکومت سندھ کی بے حسی کا معاملہ یہی نہیں رکا بلکہ یونیورسٹی کے 8سال میںپیپلزپارٹی کی حکومت کئی بارے لکھنے کے باوجود یونیورسٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے زمین فراہم نہیں کرسکی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کئی خطوط لکھے جانے کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے یونیورسٹی کے لیے ہاکس بے پر 200ایکڑاراضی دیے جانے کی منظورتودی گئی تاہم یہ معاملہ بورڈآف ریونیومیں فائلوں کی نذر ہو گیا۔
دوسری جانب یونیورسٹی کے آٹھ سالہ دور میں ادارے کے سب سے بااختیارفورم ''سینیٹ''کااجلاس صرف ایک بار ہوا یہ اجلاس سابق وائس چانسلرآراے شاہ کے دورمیں سابق گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان کی زیرصدارت 21 نومبر 2014 کو ہوا تھا اس کے بعدسے تاحال ایک بھی اجلاس نہیں ہوا اور یونیورسٹی کابجٹ بغیرسینیٹ کی منظوری کے استعمال ہوتا رہا۔
ذرائع کہتے ہیں کہ سابق گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العبادخان نے گزشتہ انتظامیہ کے حوالے سے مالی شکایات پر ایک آزادانہ آڈٹ انکوائری کرانے کے احکام دیے تھے اس سلسلے میں موجودہ انتظامیہ نے آڈٹ کی غرض سے اشتہاردیا تاہم کسی آڈٹ فرم نے یونیورسٹی کے آڈٹ میں دلچسپی ہی ظاہر نہیں کی ایک بار پھر اشتہار دیا گیا تو صرف ایک آڈٹ فرم نے دلچسپی ظاہرکی لہٰذا بغیرکسی ''کمپیٹیشن'' کے آڈٹ کی ذمے داری دی گئی۔
کمپنی کچھ عرصہ کام کرنے کے بعدآڈٹ ادھورا چھوڑ کر غائب ہو گئی اور یوں یونیورسٹی کا آزادانہ آڈٹ بھی مکمل نہیں ہوسکا اور اسی عذرکوپیش کرتے ہوئے موجودہ انتظامیہ نے سینیٹ ہی نہیں کرائی۔
واضح رہے کہ شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری چار فیکلٹیز اور 7 شعبوں کے ساتھ کام کر رہی ہے جن میں فیکلٹی آف آرٹس میں انگریزی، فیکلٹی آف ایجوکیشن میں ایجوکیشن ،کمپیوٹرسائنس میں کمپیوٹرسائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، مینجمنٹ سائنسز میں بزنس ایڈمنسٹریشن اور کامرس کے شعبے ہیں جبکہ گزشتہ برس فارمیسی کاشعبہ شروع کیاگیاہے تاہم یونیورسٹی کی ریگولرفیکلٹی میں بمشکل ایک پی ایچ ڈی استاد ہے کل 30فیکلٹی اراکین ہیں۔
اکیڈمک سطح پر دیکھاجائے تویونیورسٹی سے کوئی ریسرچ جرنل جاری نہیں ہوتا تاہم موجودہ وائس چانسلرکی جانب سے فیکلٹی کے لیے اقدام کرتے ہوئے اساتذہ کوان کی اسامیوں پر ریگولر کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت سندھ نے 2013 میں سرکاری جامعات کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے 26 اگست 2013کوایک نیاترمیمی ایکٹ منظورکیاتھاجس کے بعد سے پورے سندھ کی تمام سرکاری جامعات کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنرسندھ سے وزیر اعلیٰ سندھ کومنتقل ہوگئی تھی جبکہ جامعات میں رجسٹراراورناظم امتحانات کے تقرر کا اختیار وائس چانسلرسے لے لیاگیاتھاتاہم اس کے باوجودلیاری یونیورسٹی میں رجسٹرار اور ناظم امتحانات کی اسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی گئی اوریونیورسٹی ایڈہاک ازم کا شکار رہی۔
ادھر یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹراختربلوچ کا ''ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پرکہناتھاکہ سرکاری یونیورسٹیز کے ترمیمی ایکٹ 2018کے بعداب چندروزقبل رجسٹرار اور ناظم امتحانات کی تعینات کااختیارجامعات کے کوواپس مل گیاہے لہٰذا اب لیاری یونیورسٹی میں دونوں کلیدی عہدوں پرتعیناتی کے لیے اشتہاراورسلیکشن بورڈ کے ذریعے بھرتیاں کی جائیں گی۔
سینیٹ کے اجلاس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آزادانہ آڈٹ کے حوالے سے جوبھی صورتحال رہی اس کے حوالے سے خط لکھ کرسینیٹ کااجلاس جلد بلائیں گے انھوں نے مزیدبتایاکہ اب کچھ افرادنے پروفیسرکے عہدے کے لیے درخواست دی ہے امید ہے کہ اب یونیورسٹی میں پروفیسرکی اسامی پر اساتذہ آئیں گے۔