لارڈز میں پھر سبز ہلالی پرچم بلند

گزشتہ برس اسی ملک میں اس نے بڑی بڑی ٹیموں کو زیر کرتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی۔


Saleem Khaliq May 28, 2018
گزشتہ برس اسی ملک میں اس نے بڑی بڑی ٹیموں کو زیر کرتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD: '' دیکھنا تیسرے ہی دن میچ ختم ہو جائے گا، جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ اس موسم میں پاکستانی ٹیم کو ٹکنے ہی نہیں دیں گے''، اس بیٹنگ لائن نے ڈیڑھ سو رنز بھی بنا لیے تو بڑی بات ہوگی''، ''مئی میں پچز نئی ہوتی ہیں ایسے میں فتح ممکن نہیں'' نہ صرف صحافی بلکہ سابق ٹیسٹ کرکٹرز سمیت دیگر ماہرین بھی لارڈز ٹیسٹ سے قبل اسی قسم کے تبصرے کر رہے تھے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ گرین کیپس انگلینڈ کو آؤٹ کلاس کرتے ہوئے چوتھے روز لنچ سے قبل ہی فتح سمیٹ لیں گے مگر اس ٹیم کی یہی خوبی ہے کہ یہ حیران کر دیتی ہے۔

گزشتہ برس اسی ملک میں اس نے بڑی بڑی ٹیموں کو زیر کرتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی، اب لارڈز کے تاریخی میدان پر انگلینڈ کو 9 وکٹ سے آؤٹ کلاس کر دیا، بلاشبہ اس کا سہرا ٹیم ورک کو جاتا ہے مگر میں بڑا کردارکپتان سرفراز احمد کو قرار دوں گا جنھوں نے کھلاڑیوں کو بے خوف ہو کر میدان میں لڑنے کا اہل بنایا، اسی لیے وہ حریف سے مرعوب ہوئے بغیر اپنا بہترین کھیل پیش کرتے ہیں۔

حالیہ میچ کی ہی مثال دیکھ لیں، محمد عباس نے آئرلینڈ کے بعد یہاں بھی بہترین بولنگ کی، ان کی زندگی بھی دیگر نوجوانوں کیلیے ایک مثال ہے کہ اگر محنت کو شعار بنائیں تو کامیابی پانا ناممکن نہیں، عباس نے لیدر فیکٹری میں ملازمت کی، ویلڈنگ کا کام کیا پھر ایک لا فرم میں ہیلپر بھی بنے، کئی ماہ قبل ہم نے ایکسپریس میں ان کا انٹرویو شائع کیا تھا جس میں یہ تفصیلات درج تھیں۔

آج دیکھیں وہ لارڈز میں ہیرو بن کر ابھرے، عامر ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں مگر اس میچ سے ثابت ہوگیا کہ ابھی ٹیم کو ان کی ضرورت ہے، خصوصاً دوسری اننگز میں انھوں نے بہترین پرفارم کیا، ماضی میں وہ لارڈز میں ہی فکسنگ اسکینڈل کا شکار ہوئے تھے، اب اسی گراؤنڈ پر بہترین پرفارمنس سے انھوں نے اپنی ناخوشگوار یادوں سے کچھ حد تک نجات حاصل کرلی ہوگی۔

حسن علی نے بھی پہلی اننگز میں اپنی پیس بولنگ سے میزبان بیٹسمینوں کو خوب پریشان کیا، فہیم اشرف اور شاداب خان گوکہ بولنگ میں کامیاب نہ رہے البتہ پہلی اننگز میں دونوں کی شراکت ٹیم کے بہت کام آئی، اسی طرح بیٹنگ میں اظہر علی، اسد شفیق، بابر اعظم اور شاداب نے پہلی باری میں نصف سنچریاں بنائیں، اسی لیے ٹیم 363 رنز اسکور کرنے میں کامیاب رہی، حارث سہیل نے گوکہ بہت بڑا اسکور نہیں بنایا مگر دونوں اننگز میں ان کی بیٹنگ اچھی رہی۔

پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ کا معیار بھی خاصا بہتر ہوا ہے اور میچ میں کئی اچھے کیچز لیے گئے، بلاشبہ اسٹیو رکسن کی محنت رنگ لاتی نظر آ رہی ہے، مالی معاملات کی وجہ سے وہ اسکواڈکے ساتھ مزید کام نہیں کرنا چاہتے مگر بورڈ کو انھیں جانے سے روکنا ہوگا تاکہ بہتری کا یہ سفر جاری رہے، ٹیم کی کارکردگی میں بڑا ہاتھ کوچ مکی آرتھر کا بھی ہے جو فٹنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، نیٹ سیشن میں بھی اگر کوئی غلط شاٹ کھیلے تو پش اپس اور رننگ کی سزا دی جاتی ہے۔

ان کا کھلاڑیوں پر خوب رعب ہونے کا ٹیم کو فائدہ ہوتا ہے۔ دو برس قبل جب مصباح الحق کی زیرقیادت پاکستان نے لارڈز ٹیسٹ جیتا اس وقت بھی میں یہاں موجود تھا، تب پلیئرز نے پش اپس کر کے آرمی ٹرینرز کو خراج تحسین پیش کیا تھا اس بار بھی فتح پر سب بیحد خوش دکھائی دیے، ایک دوسرے کو گلے لگ کر مبارکباد دی، اس وقت اسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔

انگلش ٹیم کی خراب پرفارمنس سے مایوس ہوکر میزبان شائقین زیادہ تعداد میں نہیں آئے، البتہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد آئی تھی جو وطن سے دور اس کامیابی پر شاداں تھے، میچ کے بعد پریس کانفرنس میں سرفراز احمد نے بھی یہی کہا کہ ''کسی کو توقع نہیں تھی کہ ہم لارڈز میں اتنی جلدی اور آسانی سے جیت جائیں گے مگر کھلاڑیوں کی محنت نے ایسا کر دکھایا، سرفراز سے جب پوچھا گیا کہ انجرڈ بابر اعظم ٹیم کے ساتھ لیڈز جا رہے ہیں یا واپس لاہور تو ان کا جواب تھا لاہور، وہ انجری کے سبب ٹور میں مزید ٹیم کے ساتھ نہیں رہیں گے۔

سرفراز نے ایک بار پھر کھلاڑیوں کو ڈانٹنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ''فیلڈ میں مجھے غصہ آہی جاتا ہے، جیسے اس میچ میں ایک وقت میں جب حسن علی وکٹیں نہیں لے رہے تھے تو مجھے ان پر بڑا غصہ آیا''۔

اس کے بعد میڈیا منیجر عون زیدی پاکستانی صحافیوں کو انٹرویوز کیلیے دوسری جگہ لے کرگئے جہاں مین آف دی میچ محمد عباس، حسن علی اور فہیم اشرف نے سب سے بات چیت کی، اس کی تفصیلات آپ اسپورٹس پیج پر پڑھ ہی لیں گے، اس دوران کھلاڑیوں کو دیکھ کر پاکستانی شائقین بھی جمع ہوگئے اور ان کے حق میں نعرے لگاتے رہے، گورے آج اتوار کو چھٹی کا دن آرام سے اسٹیڈیم میں میچ دیکھ کر گذارنا چاہتے تھے مگر مہمان ٹیم کے عمدہ کھیل نے پہلے ہی سیشن میں ان کو مایوسی کا شکار کر دیا، بابر اعظم کھیل شروع ہونے سے قبل ہاتھ پر پٹی باندھے ساتھیوں کے ساتھ فٹبال کھیلتے نظر آئے مگر اب ایک، دو دن میں واپس وطن جا کر بحالی فٹنس کی کوششیں کریں گے۔

چوتھے روز بولنگ کوچ اظہر محمود نے گھنٹی بجا کر روایتی انداز میں کھیل شروع ہونے کا اعلان کیا تھا، گوکہ بطور کوچ ابتدا میں وہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے مگر اب ان کی محنت بولرز کا کھیل دیکھ کر نظر آ رہی ہے، اب میں لارڈز سے واپس جا رہا ہوں تو ساتھ موجود چھوٹے گراؤنڈ کی بڑی اسکرین کے سامنے شائقین کا جم غفیر جمع اور آئی پی ایل کا فائنل دیکھ رہا ہے، آج لندن میں کراچی جیسی گرمی اور پسینے چھوٹ رہے ہیں، یہ بھی ممکن ہے رات کو پھر ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوں، برطانوی موسم ایسا ہی ہوتا ہے۔ پاکستانی ٹیم نے بہترین آغاز سے صلاحیتوں پر شکوک کرنے والوں کو خاموش کرا دیا ہے، اب دوسرا ٹیسٹ جیت کر تاریخ رقم کرنے کا سنہری موقع موجود ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔