دو جاسوس کریں محسوس…

موضوعات بھلے نئے نہ ہوں مگر گفتگو اس لیے دلچسپ ہے کہ دونوں بابے حساس ریاستی ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔

کسی بھی کتاب پر تبصرے کا سہل نسخہ یہ ہے کہ آپ اس پر تبصرہ کرنے کے بعد کتاب پڑھنا شروع کریں۔ گذشتہ دنوں مجھے یہی محسوس ہوا جب برصغیر کے دو سابق جاسوسانِ عظام آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل اسد درانی اور ریسرچ اینڈ انلاسز ونگ ( را ) کے سابق سربراہ اجیت سنگھ دولت کی گفتگو پر مبنی ادتیا سنہا کی مرتب کردہ کتاب '' دی سپائی کرانیکل'' کے بارے میں بھارت اور پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا اور سیاستدانوں کے تبصرے سننے کو ملے۔

پاکستان میں چونکہ یہ کتاب فی الحال دستیاب نہیں لہذا ایک دوست نے مجھے اس کی پی ڈی ایف کاپی ای میل کردی۔تین روز سے میں دو سو پچپن صفحات کی کتاب پڑھ رہا ہوں اور اب بھی پچپن باقی ہیں۔لہذا مجھے رشک آتا ہے ایسے صحافیوں ، اینکرز اور سیاستدانوں پر جنہوں نے ڈھائی سو صفحات ایک ہی دن میں ختم کر کے ان کا سیاق و سباق بھی سمجھ لیا اور فتوے بھی جاری کر دیے کہ یہ کتاب ملک و قوم کے لیے کتنی مفید یا ضرر رساں ہے۔

اب تک میں کسی ایسے پیراگراف تک نہیں پہنچا جس سے یہ نتیجہ نکال پاؤں کہ بھارت اور پاکستان کے قومی رازوں کے امانت دار دونوں سابق جاسوسوں نے اپنی '' غیر ذمے دارانہ ''گفتگو میں دانستہ یانادانستہ کشمیر، اسامہ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، فوجی و جوہری حکمتِ عملی، دو طرفہ بے وقوفیوں، ذاتی تجربات، ماضی حال مستقبل اور اہم شخصیات کے بارے میں رائے زنی کرتے ہوئے کوئی ایسا انہونا گھڑا پھوڑ دیا جو اس سے پہلے نہیں پھوٹا۔

بنیادی طور پر یہ کتاب دو ریٹائرڈ شخصیات کے مابین ایک باخبر تعمیری گپ شپ ہے جو کوئی بھی دو ریٹائرڈ بوڑھے کافی کی میز پر کسی بھی ڈرائنگ روم میں کرتے پائے جاتے ہیں اور جب یہ گفتگو جوشِ رفتار کھونے لگتی ہے تو دونوں کے بیچ بیٹھا کوئی متجسس نوجوان کسی ایک بابے کو سوالیاتی ٹہوکا دے دیتا ہے اور بات پھر سے چل پڑتی ہے،کسی اور موضوع کی طرف کسی اور تجربے کی طرف۔

موضوعات بھلے نئے نہ ہوں مگر گفتگو اس لیے دلچسپ ہے کہ دونوں بابے حساس ریاستی ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں، دنیا دیکھے ہیں، بھانت بھانت کی علاقائی و بین الاقوامی گھاٹوں کا پانی پئے ہوئے ہیں اور اپنی انفرادی و اجتماعی و قومی کمزوریوں اور طاقت سے بھی واقف ہیں۔

دونوں بابے کسی پروموشن ، اے سی آر، باس کی خوشنودی، ناراضی اور پنشن و پراویڈنٹ فنڈ کے جھمیلوں سے بھی آزاد ہیں۔ زبان کی نزاکتوں پر عبور رکھتے ہیں لہذا حقائق بیان کرتے ہوئے بھی شائید ، غالباً ، میرا خیال ہے، ہو سکتا ہے، ممکن ہے، میں نے سنا ہے جیسے تکیوں سے ٹیک لگانا نہیں بھولتے۔

مسئلہ اسد درانی یا اے ایس دولت کو لاحق نہیں بلکہ پرابلم ہمارا ہے۔شائد ہمارا لاشعور ذاتی دوستی و دشمنی اور قوموں کی دوستی و دشمنی کے فریم اور تقاضوں کو الگ الگ کر کے دیکھنے سے قاصر ہے۔ہم یہی سمجھتے ہیں کہ جس طرح دو افراد جگری یار یا جانی دشمن ہوتے ہیں ویسے ہی ملکوں اور قوموں کو بھی ہونا چاہیے۔

یعنی جب پاکستان اور بھارت دشمن ہیں تو اسد درانی اور اے ایس دولت ایک ہی صوفے پر بیٹھ کے کیسے ہاتھ پے ہاتھ مارتے ہوئے ہنس رہے ہیں۔ انھیں تو ایک دوسرے کو چپیڑیں مارنی چاہئیں۔اگر دنوں ایسا نہیں کر رہے تو یہ کوئی نارمل بات نہیں ، یقیناً دال میں کچھ کالا ہے، ہمیں تو بتاتے ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے اور ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور خود خوش گپیوں میں مگن ہیں اور وہ بھی غضب خدا کا را اور آئی ایس آئی کے سابق باسز...استغفراﷲ۔


اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ملکوں کی دشمنی انفرادی دشمنی سے بالکل الگ دنیا ہے۔افراد کا ایک دوسرے سے برسوں قطع تعلق رکھنا، ایک دوسرے کی صورت دیکھ کر مشتعل ہو جانا اور کسی تیسرے کو یہ کہہ دینا کہ یا تو اسلم سے دوستی نبھا لے یا میرے ساتھ تعلق رکھ لے بالکل ایک نارمل رویہ ہے۔

مگر ملک ایسے نہیں چلتے۔ممالک کی دوستی جذبات سے عاری ہوتی ہے،آنکھ بوقتِ ضرورت پتھر کی ہو جاتی ہے، ضرورت ہو تو گدھا باپ بن جاتا ہے، سخت سے سخت الٹی میٹم نرم جملوں میں پہنچانے کی تربیت ہوتی ہے، اہلکاروں کی دوستی ذاتی نہیں بلکہ ورکنگ کیمسٹری کے اصول پر ہوتی ہے۔

دشمنی کیسی شدید ہو پسِ پردہ رابطے کبھی نہیں ٹوٹتے۔ ہاٹ لائنیں کبھی منقطع نہیں ہوتیں، درمیان کے دوست ایلچی بننے پر آمادہ رہتے ہیں، حساس اہلکار ایک دوسرے سے پسِ پردہ حالتِ جنگ میں بھی کسی تیسری جگہ پر ملتے ہیں، ایک دوسرے کو رعائیتیں اور ترغیبات دیتے ہیں، پیش کشیں کرتے ہیں تاکہ ممکنہ بڑا بحران ٹالا جا سکے۔ سفارتی و عسکری دنیا میں یہ سب ایک نارمل مشق ہے۔مگر اس میکینزم سے ناواقف ایک عام شہری یا صحافی کو جب ایسی سرگرمیوں کی خبر ملتی ہے تو بھونچکا رہ جاتا ہے اور اس کا ا عتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔

سرد جنگ کے عروج پر بھی کے جی بی اور سی آئی اے کے اہلکار وی آنا میں ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں۔ طالبان اور امریکا ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں ہیں۔بھارت اور پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بخار کم کرنے اور سودے بازی کے لیے بنکاک سمیت کئی مقامات پر ملتے رہتے ہیں۔

جب حمید گل آئی ایس آئی کے اور آنند ورما را کے سربراہ تھے تودونوں کئی بار ایک دوسرے سے ملے۔ بھارت کے ایک موقر صحافی شیکھر گپتا کے بقول آنند ورما نے حمید گل کی موت کے بعد اخبار ہندو میں ایک مضمون لکھا اور حمید گل کی تعریف کی جن کے سبب راجیو گاندھی اور ضیا الحق میں ورکنگ کمیسٹری بنی۔اس پیش رفت میں اردن کے ولی عہد شہزادہ حسن نے بھی ذاتی دلچسپی لی۔ان کے راجیو گاندھی اور ضیا الحق سے ذاتی تعلقات تھے۔ آپریشن بلیو اسٹار کے بعد چار سکھ باغی فوجیوں نے سرحد پار پناہ لی اور حمید گل نے جذبہِ خیرسگالی کے طور پر انھیں بھارت بجھوا دیا (مگر سکھ انتہا پسندوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے کا الزام بے نظیر پر لگا )۔سن ستاسی میں آپریشن براس ٹیکس فوجی مشقوں کے نتیجے میں شدید کشیدگی میں کمی کے لیے بقول آنند ورما میرے اور حمید گل کے رابطوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔

بھارت اور پاکستان کے سابق حساس اہلکاروں کا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے فورم اور مختلف بین الاقوامی سیمیناروں میں بھی ایک دوسرے سے ملنا معمول کی بات ہے۔ان چینلوں کے ذریعے دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کو پیغامات بھی بھیجتی ہے اور ایک دوسرے کا موڈ بھی جانچتی رہتی ہے۔

بھارتی فضائیہ کے سابق سربراہ ایر چیف مارشل ایس کے کول،کیبنٹ سیکریٹری، پی کے کول ، پاکستانی صنعت کار بابر علی، بری فوج کے سابق وائس چیف آف اسٹاف کے ایم عارف ، بھارتی فوج کے سابق چیف جنرل سندر جی ، سابق پاکستانی چیف جہانگیر کرامت ، سابق سیکریٹری خارجہ نیاز نائیک مرحوم ، سابق بھارتی وزیرِ خارجہ آنجہانی جسونت سنگھ ، بھارتی سٹرٹیجک ڈاکٹرائن کے خالق کے سبرامنیم ، سی راجہ موہن ، اسد درانی کے علاوہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان الحق ، سابق قومی سلامتی مشیر میجر جنرل ریٹائرڈ محمود درانی سمیت درجنوں عمائدین ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تبادلہِ خیالات کرتے ہیں، مقالوں کا تبادلہ کرتے ہیں اور اب تو مشترکہ کتابیں بھی لکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔

اس تناظر میں قومی سلامتی خطرے میں پڑنے کا خرخشہ کون چھوڑتا ہے۔مودی کا جو یار ہے غدار ہے کا کیا مطلب ہے؟ یہ سب عام آدمی کی توجہ بٹانے اور کنفیوز کرنے کے ڈرامے ہیں۔ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی وقت اور ضروریات کے اعتبار سے پالیسیاں بنتی اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔اگر تمام اسٹیبلشمنٹس ریٹائرڈ جرنیلوں ، سفارتکاروں اور دانشوروں کی ملاقاتوں اور گفتگو سیمتاثر ہوتیں تو آج دنیا امن کا گہوارہ نہ بن جاتی ؟ سپائی کرانیکل پڑھئے،مزے لیجیے اور یہ جانئے کہ ریاستیں کیسے بساط پر چلتی ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story