عوام کے حقیقی مسائل اور سیاسی جماعتیں
عوام کی اکثریت کو جان بچانے کی دواؤں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بچوں کی شرح اموات تقریباً 2 اعشاریہ 7 ملین ہے۔ اس میں نصف تعداد ان بچوں کی ہے جو غیر معیاری غذا کھانے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مندرجات پڑھ کر ہمیں غربت کے ستائے ہوئے وہ بچے یاد آگئے جنھیں ہم نے کچرے کے ڈھیر پر سے کرید کر کھانے کی اشیا چنتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان بے چاروں کو کیا خبر کہ وہ اس طرح اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔ کراچی شہر میں اس طرح کے مناظر عام ہیں جنھیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ بچے اپنی عمر کے لحاظ سے کم وزنی کا شکار ہوتے ہیں جن کی اوسط شرح 31.52 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس کے بالکل برعکس امیر گھرانوں کے وہ بچے ہیں جو بسیار خوری کی وجہ سے مٹاپے کی بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ بھی کیسا عجیب تضاد ہے؟
پاکستان میں خوراک کے تضاد کی یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جس کی 63 فیصد آبادی دیہات پر مشتمل ہے۔ ملک کے GDP میں زراعت کا حصہ 25 فیصد جب کہ برآمدات میں حصہ 60 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہماری لیبر فورس کا 45 فیصد روزگار زراعت ہی سے وابستہ ہے اور اس اعتبار سے اس کی حیثیت سب سے بڑے آجر کی ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ہماری دیہی آبادی کا 62 فیصد خوراک کے معاملے میں عدم تحفظ کا شکار ہے۔
یہ المیہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ گزشتہ 20 سال کے عرصے میں ملک میں گندم کی پیداوار میں مسلسل خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی کیا ستم ہے کہ جو انسان کاشت کرکے ملک کو گندم مہیا کرتا ہے وہ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔
اس ساری خرابی کی اصل جڑ ہمارا صدیوں پرانا ظالم جاگیردارانہ نظام ہے جس نے ہماری دیہی آبادی کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے جس کے نتیجے میں بڑے بڑے زمیندار جن کی شرح صرف 5 فیصد ہے 64 فیصد زرعی زمینوں پر قابض ہیں جب کہ چھوٹے کسانوں کے پاس صرف 15 فیصد زرعی زمینیں ہیں۔ 50 فیصد دیہی آبادی بے زمین اور بے بس ہے اور اس کی زندگی وڈیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ وڈیرے کی زمینوں پر دن رات خون پسینہ ایک کردینے والے کسان کو دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ اسی ظالمانہ نظام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تو اقبال نے کہا تھا:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
''پیشگی'' کے انتہائی غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظام نے زرعی محنت کشوں کا بری طرح سے استحصال کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں بے چین اور بے سکون ہیں اور ان کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ گویا دکھ جھیلیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں۔
رہی سہی کسر کارپوریٹ فارمنگ آرڈیننس مجریہ 2000 نے پوری کردی جس کے تحت غیر ملکیوں کو بڑے بڑے قطعات اراضی خریدنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ وہ فصلی پیداوار اپنے اپنے ممالک میں لے کر چلے جائیں۔ اسی طرح پاکستان میں Multi National کو BT کاٹن کاشت کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی جو سراسر پاکستان کے زرعی محنت کشوں کے استحصال کی ایک اور شکل ہے۔
غیر معیاری غذائیت کسی بھی انسان کی جسمانی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرکے اس کی زندگی کو اجیرن بنا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 160 ملین بچے اپنی معمول کی نشوونما سے کم ہیں۔ جنوبی ایشیا اور خصوصاً پاکستان کے بچے پیدائشی طور پر کم وزن کا شکار ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حمل کے عرصے کے دوران ماؤں کو متوازن غذا مہیا نہیں آتی۔ صوبہ سندھ کے تھر کے صحرائی علاقے کی صورتحال اس حوالے سے سب سے زیادہ گمبھیر اور تشویشناک ہے جہاں متوازن غذا تو درکنار پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں جس کے نتیجے میں زیادہ تر خواتین انتہائی کمزور اور غیر صحت مند بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔
غربت اور غیر معیاری غذائیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ ایک vicious circleجو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی بھینٹ چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کھلے عام ہو رہی ہے اور متعلقہ ادارے چپ سادھے ہوئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ چائے کی پتی میں چنے کا چھلکا، مرچ میں بھوسہ اور ہلدی میں گاچنی مٹی ملانے کا چلن عام ہے اور کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ ملاوٹ والی اشیا کھانے کی وجہ سے عوام طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جن کا علاج بھی مشکل ہے اور جن کی تشخیص بھی آسان نہیں۔ اکثر لوگ بھوک نہ لگنے اور کم خوراکی کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کی افزائش بھی متاثر ہو رہی ہے اور ان کے قد بھی چھوٹے ہو رہے ہیں۔ خون کی کمی کی شکایت بھی روز بروز عام ہو رہی ہے اور قوت بصارت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔پانی کے بعد دودھ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قوت بخش ذریعہ خوراک ہے اور بچے سے لے کر بوڑھے تک ہر عمر کے فرد کی اہم ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے اس کی طلب اور کھپت بھی بہت زیادہ ہے، لیکن دودھ میں ملاوٹ کی شکایت بھی عام ہوچکی ہے۔
عدالت عظمیٰ میں انکشاف ہوچکا ہے کہ کھلے دودھ کے علاوہ ڈبہ بند دودھ میں ڈٹرجنٹ پاؤڈر کے علاوہ اور بھی کئی کیمیائی مادے ملائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے قرار دیا کہ بچوں کو دودھ کے نام پر زہر پلانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے کراچی سمیت سندھ بھر میں شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بھی تشکیل دے دیا۔
کھانے پینے کی اشیا میں جس قدر احتیاط کی ضرورت ہے اس کے بالکل برعکس وطن عزیز میں اتنی ہی بداحتیاطی اور ملاوٹ کا چلن عام ہے۔ بے حس ناجائز منافع خور راتوں رات امیر سے امیر تر بننے کے نشے میں ناقص سے ناقص مضر صحت اجزا کی ملاوٹ سے گریز نہیں کرتا ۔ اسے نہ قانون کا ڈر ہے اور نہ خوف خدا۔ اس کا ضمیر بالکل مردہ ہوچکا ہے اور وہ اپنے ملک کی نسلیں برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بیکری کی اشیا سے لے کر لذت کام و دہن بڑھانے والے پکوانوں تک ہر شے کی تیاری میں اس قدر بے احتیاطی اور ملاوٹ عام ہوچکی ہے کہ اگر صارف ایک نظر اس کا مشاہدہ کرلے تو اس کا ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے نہ اترے۔ یہ سراسر حکومتی اداروں کی غفلت اور ناجائز منافع خوروں کے ساتھ ملی بھگت کا شاخسانہ ہے۔ یہ عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کی کھلی چھوٹ ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت وقت کو عوام کی صحت اور بھلائی سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اسے محض اقتدار سے چمٹے رہنے سے ہی غرض ہے۔ افسوس کہ جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہمارے سیاست دانوں کو عوام کے حقیقی مسائل کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ ان کے پیش نظر ان کے اپنے مفادات اور خالص سیاسی مسائل ہیں جو عوام کے لیے نان ایشوز کی حیثیت رکھتے ہیں۔گزشتہ 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی جب کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ اگرچہ یہ تینوں بظاہر الگ الگ سیاسی گروپ ہیں لیکن ان تینوں میں ایک بات مشترک نظر آئی کہ ان کی عملی فہرست ترجیحات میں عوام کے حقیقی مسائل کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک پر حکمرانی کرنے کے دو موقعے میسر آئے لیکن اس نے عوام کو محض روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر ٹرخانے کے سوائے اور کچھ نہیں دیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اقتدار کی تین باریاں ملیں لیکن اس نے بھی عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا جس میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سرفہرست اور جوں کا توں موجود ہے۔ سندھ اور پنجاب کے صحرائی علاقوں میں اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں لوگ پانی کی بوندبوند کو ترس رہے ہیں۔
صحت اور علاج معالجے کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ عوام کی اکثریت کو جان بچانے کی دواؤں تک رسائی حاصل نہیں ہے جب کہ پانی اور صاف خوراک کی عدم دستیابی کے باعث لوگ طرح طرح کے موذی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ روزگار اور تعلیم کے مسائل بھی بہت سنگین ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کو ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کی دلچسپی آئے دن کی تقریبات اور دھرنوں کی حد تک محدود ہے۔ اصلی جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوامی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والی ہماری سیاسی جماعتیں عوام کے حقیقی مسائل کی جانب اپنی اصل توجہ مبذول کریں۔