سیکیورٹی با اثر لوگوں کی بوجھ عوام پر
حد تو یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں فقط 36 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔
PESHAWAR:
ایک جانب حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ تواترکے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ملک میں امن وامان کے حوالے سے تمام مسائل حل کردیے گئے ہیں اور موجودہ حکومت نے سماج دشمن دہشت گردوں کے بیخ کنی کردی ہے۔ یہ کریڈیٹ بھی لیا جاتا ہے کہ ہماری حکومت نے دہشت گردی ختم کردی ہے جب کہ دوسری جانب حکومتی حلقوں کے طرز عمل سے ان کے اس قول کی نفی ہوجاتی ہے کہ ہمارے دور حکومت میں دہشت گردی ختم کردی گئی ہے تو پھر وزیراعظم 70 سے 80 گاڑیوں کے حصار میں کیوں سفر کرنے پر مجبور ہیں؟
وزیراعظم ہی کیا کوئی بھی صوبائی وزیر تک 15 سے 20 گاڑیوں کے بنا سفر کرنا پسند نہیں کرتا۔ سیکیورٹی حصار میں سفر کرنا فقط وزیراعظم، وفاقی وزرا، و صوبائی وزرا تک ہی محدود نہیں البتہ اگر بات گہرائی میں جاکر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وزرا و ممبران قومی و صوبائی کے اہل خانہ تک کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے ۔
کچھ عرصے قبل یہ بات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی کہ فلاں خاتون کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے کہ وہ خاتون با اثر ترین سیاست دان کی صاحب زادی ہیں۔ مزید معلوم ہوا کہ اس خاتون کے صاحبزادے و داماد کو بھی سرکاری سیکیورٹی درکار ہے، چنانچہ اس خاتون کے صاحبزادی و داماد کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئی جب کہ اس خاتون کے شوہر نامدار پہلے ہی سے سرکاری سیکیورٹی سے فیض یاب ہورہے تھے، چنانچہ کیفیت یہ سامنے آئی کہ ایک نامور ترین سیاست دان کی صاحب زادی ان کے داماد، ان کے نواسے ان کی نواسی کے شوہر سمیت تمام لوگ سرکاری سیکیورٹی سے فیض یاب ہورہے ہیں ۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان نامور ترین سیاست دان کی ذاتی رہائش گاہ پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے اخراجات سے خفیہ کیمرے نصب تھے جوکہ اب ہٹادیے گئے ہیں جس کے رد عمل کے طور پر وہ خاتون فرمارہی ہیں کہ مائی لارڈ آپ نے میرے والد کی سیکیورٹی تو واپس لے لی ہے اب اگر میرے والد کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمے دار آپ ہوںگے۔
بتایا گیا کہ مجموعی طور پر سیکیورٹی پر مامور 4 ہزار 610 اہلکاروں کو واپس بلایا گیا ہے جب کہ دیگر ذرایع کے مطابق 297 سیاست دانوں کی سیکیورٹی پر مامور 1347 اہلکار 527 پولیس افسران کی سیکیورٹی پر مامور 1074 لوئر کورٹس کی سیکیورٹی پر مامور 469افسران کی سیکیورٹی پر مامور 626 اہلکار23 وکلا کی سیکیورٹی پر مامور، 39 اہلکار 250 مذہبی رہنماؤں کی سیکیورٹی پر مامور،296 اہلکار جب کہ میڈیا پرسنز کی سیکیورٹی پر مامور 233 اہلکار با اثر شہریوں کی سیکیورٹی پر مامور1075 اہلکاروں کے ضلع قصور سے 12 اہلکاروں کو واپس بلایا گیا ہے۔
یوں نجی سیکیورٹی پر مامور 4 ہزار 610 اہلکاروں کو بلایا گیا ہے جب کہ نجی طور پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے اہلکاروں کی تعداد ہے سات ہزار بہر کیف ہم اتنا ضرور عرض کریںگے کہ یہ سات ہزار سیکیورٹی اہلکار اجرت تو حاصل کرتے ہیں قومی خزانے) سے اور ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں با اثر لوگوں کے لیے یہاں جن با اثر لوگوں کی سیکیورٹی واپس لی گئی ہے۔ ان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، کیپٹن صفدر، حمزہ شہباز، رانا ثنا اﷲ، خلیل طاہر، سندھو مشتاق سکھیرا شامل ہیں۔
ہمارے خیال میں جن با اثر لوگوں سے سیکیورٹی واپس لی گئی ہے اگر ان لوگوں کی سیکیورٹی ناگزیر ہے تو کیا یہ با اثر لوگ اپنی سیکیورٹی کا اپنے ذاتی اخراجات سے انتظام نہیں کرسکتے؟ ضرور جواب اثبات میں ہوگا کیونکہ ان سرکاری سیکیورٹی سے استفادہ کرنے والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جوکہ کروڑ پتی، ارب پتی و کھرب پتی نہ ہو ان با اثر لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے کاروبار کا دائرہ دوسرے ممالک تک پھیلا ہوا ہے پھر پاکستانی قوم ایسے لوگوں کے ذاتی اخراجات و سیکیورٹی کیوں برداشت کریں؟
عوام جوکہ لا تعداد مسائل کا شکار ہیں اور اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جوکہ اپنا روزگار خود پیدا کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی حکومت کو اگر فکر ہوتی ہے تو فقط یہ کہ اپنی حکومتی مدت کیسے پوری کی جائے۔ یوں عام پاکستانی اس کیفیت سے دو چار ہے جس دن روزگارمل گیا اس روز اس خاندان نے کھانا کھالیا بصورت دیگر خالی پیٹ اپنی قسمت کو کوستے ہوئے سوجاؤ پھر روزگار منسلک ہوتا ہے توانائی سے کہ اگر توانائی ہے تو صنعتی پہیہ چلے گا اور اگر توانائی ناپید ہے تو صنعتی شعبہ بند۔ اس وقت یوں تو پورا پاکستان توانائی بحران کا شکار ہے لیکن ہم خصوصیت سے اگر ذکرکریں پاکستان کی صنعتی حب کراچی کا توکراچی میں یکم اپریل 2018 سے توانائی کا ایسا بحران مسلط کیا گیا ہے کہ شہری نہ صرف روزگار کے مسائل سے شدید طرح سے دو چار ہورہے ہیں پوری پوری شب گرمی کے ساتھ ساتھ مچھروں کی بہتات کے باعث نیند جیسی نعمت سے بھی محروم ہیں۔
اس کے باوجود اس قدر شدید توانائی بحران کی ذمے داری کوئی شخص یا ادارہ قبول کرنے کو تیار نہیں چنانچہ توانائی بحران کا عالم یہ ہے کہ صنعتی علاقوں میں نو گھنٹے اعلانیہ لوڈ شیڈنگ وغیرہ اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے گھنٹے ہیں لا محدود اب ان حالات میں عام شہری کیسے روزگار حاصل کرے گا یا کیونکر کر پائے گا جب کہ کے الیکٹرک کا موقف ہے کہ اسے گیس کی قلت کا سامنا ہے کیونکہ سوئی سدرن کے الیکٹرک کو پوری طرح ضرورت کے مطابق گیس فراہم نہیں کررہی جب کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کا موقف ہے کہ کے الیکٹرک پہلے) اپنے اوپر واجب والا ادا 60 سے 70 ارب ادا کرے پھر گیس کی سپلائی بحال کریںگے جب کہ کے الیکٹرک کا ایک موقف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کچھ ادارے اپنے ذمے واجب الادا رقم ادا نہیں کررہے جس کے باعث کے الیکٹرک سوئی سدرن گیس کے واجبات ادا کرنے سے قاصر ہے ۔
وزیراعلیٰ سندھ کا بیان ہے کہ وہ وزیراعظم کو توانائی بحران کے خاتمے کے لیے تین خطوط ارسال کرچکے ہیںدوسری جانب وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری توانائی بحران کا تمام تر ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دے رہے ہیں البتہ ان تمام حالات میں توانائی بحران کا عذاب جھیل رہے کراچی کے شہری گو کہ توانائی بحران پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ مسائل فقط روزگار و توانائی بحران کے ہی نہیں بلکہ علاج کی سہولیات ناکافی، تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ پانی جیسی نعمت سے عوام محروم ہورہے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں فقط 36 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔اس کیفیت میں کراچی و دیگر شہروں میں پینے کے پانی کی فراہمی کا تو ذکر ہی کیا تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کیا اس قدر تمامتر مسائل سے دو چار قوم کب تک با اثر لوگوں کے سیکیورٹی سمیت دیگر اخراجات برداشت کرپائیںگے؟ یوں بھی خوش قسمت ہیں ہمارے ملک کے حکمران کہ یہاں کے عوام اپنے تمام تر مسائل کا ذمے دار اپنے نصیب کو ٹھہراتے ہیں ان حکمرانوں کو نہیں جن کے یہ تمام تر مسائل پیدا کردہ ہیں البتہ ضروری ہے کہ عوام سماجی مسائل کے ذمے داروں کا تعین کریں پھر اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں ۔
ایک جانب حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ تواترکے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ملک میں امن وامان کے حوالے سے تمام مسائل حل کردیے گئے ہیں اور موجودہ حکومت نے سماج دشمن دہشت گردوں کے بیخ کنی کردی ہے۔ یہ کریڈیٹ بھی لیا جاتا ہے کہ ہماری حکومت نے دہشت گردی ختم کردی ہے جب کہ دوسری جانب حکومتی حلقوں کے طرز عمل سے ان کے اس قول کی نفی ہوجاتی ہے کہ ہمارے دور حکومت میں دہشت گردی ختم کردی گئی ہے تو پھر وزیراعظم 70 سے 80 گاڑیوں کے حصار میں کیوں سفر کرنے پر مجبور ہیں؟
وزیراعظم ہی کیا کوئی بھی صوبائی وزیر تک 15 سے 20 گاڑیوں کے بنا سفر کرنا پسند نہیں کرتا۔ سیکیورٹی حصار میں سفر کرنا فقط وزیراعظم، وفاقی وزرا، و صوبائی وزرا تک ہی محدود نہیں البتہ اگر بات گہرائی میں جاکر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وزرا و ممبران قومی و صوبائی کے اہل خانہ تک کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے ۔
کچھ عرصے قبل یہ بات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی کہ فلاں خاتون کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے کہ وہ خاتون با اثر ترین سیاست دان کی صاحب زادی ہیں۔ مزید معلوم ہوا کہ اس خاتون کے صاحبزادے و داماد کو بھی سرکاری سیکیورٹی درکار ہے، چنانچہ اس خاتون کے صاحبزادی و داماد کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئی جب کہ اس خاتون کے شوہر نامدار پہلے ہی سے سرکاری سیکیورٹی سے فیض یاب ہورہے تھے، چنانچہ کیفیت یہ سامنے آئی کہ ایک نامور ترین سیاست دان کی صاحب زادی ان کے داماد، ان کے نواسے ان کی نواسی کے شوہر سمیت تمام لوگ سرکاری سیکیورٹی سے فیض یاب ہورہے ہیں ۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان نامور ترین سیاست دان کی ذاتی رہائش گاہ پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے اخراجات سے خفیہ کیمرے نصب تھے جوکہ اب ہٹادیے گئے ہیں جس کے رد عمل کے طور پر وہ خاتون فرمارہی ہیں کہ مائی لارڈ آپ نے میرے والد کی سیکیورٹی تو واپس لے لی ہے اب اگر میرے والد کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمے دار آپ ہوںگے۔
بتایا گیا کہ مجموعی طور پر سیکیورٹی پر مامور 4 ہزار 610 اہلکاروں کو واپس بلایا گیا ہے جب کہ دیگر ذرایع کے مطابق 297 سیاست دانوں کی سیکیورٹی پر مامور 1347 اہلکار 527 پولیس افسران کی سیکیورٹی پر مامور 1074 لوئر کورٹس کی سیکیورٹی پر مامور 469افسران کی سیکیورٹی پر مامور 626 اہلکار23 وکلا کی سیکیورٹی پر مامور، 39 اہلکار 250 مذہبی رہنماؤں کی سیکیورٹی پر مامور،296 اہلکار جب کہ میڈیا پرسنز کی سیکیورٹی پر مامور 233 اہلکار با اثر شہریوں کی سیکیورٹی پر مامور1075 اہلکاروں کے ضلع قصور سے 12 اہلکاروں کو واپس بلایا گیا ہے۔
یوں نجی سیکیورٹی پر مامور 4 ہزار 610 اہلکاروں کو بلایا گیا ہے جب کہ نجی طور پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے اہلکاروں کی تعداد ہے سات ہزار بہر کیف ہم اتنا ضرور عرض کریںگے کہ یہ سات ہزار سیکیورٹی اہلکار اجرت تو حاصل کرتے ہیں قومی خزانے) سے اور ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں با اثر لوگوں کے لیے یہاں جن با اثر لوگوں کی سیکیورٹی واپس لی گئی ہے۔ ان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، کیپٹن صفدر، حمزہ شہباز، رانا ثنا اﷲ، خلیل طاہر، سندھو مشتاق سکھیرا شامل ہیں۔
ہمارے خیال میں جن با اثر لوگوں سے سیکیورٹی واپس لی گئی ہے اگر ان لوگوں کی سیکیورٹی ناگزیر ہے تو کیا یہ با اثر لوگ اپنی سیکیورٹی کا اپنے ذاتی اخراجات سے انتظام نہیں کرسکتے؟ ضرور جواب اثبات میں ہوگا کیونکہ ان سرکاری سیکیورٹی سے استفادہ کرنے والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جوکہ کروڑ پتی، ارب پتی و کھرب پتی نہ ہو ان با اثر لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے کاروبار کا دائرہ دوسرے ممالک تک پھیلا ہوا ہے پھر پاکستانی قوم ایسے لوگوں کے ذاتی اخراجات و سیکیورٹی کیوں برداشت کریں؟
عوام جوکہ لا تعداد مسائل کا شکار ہیں اور اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جوکہ اپنا روزگار خود پیدا کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی حکومت کو اگر فکر ہوتی ہے تو فقط یہ کہ اپنی حکومتی مدت کیسے پوری کی جائے۔ یوں عام پاکستانی اس کیفیت سے دو چار ہے جس دن روزگارمل گیا اس روز اس خاندان نے کھانا کھالیا بصورت دیگر خالی پیٹ اپنی قسمت کو کوستے ہوئے سوجاؤ پھر روزگار منسلک ہوتا ہے توانائی سے کہ اگر توانائی ہے تو صنعتی پہیہ چلے گا اور اگر توانائی ناپید ہے تو صنعتی شعبہ بند۔ اس وقت یوں تو پورا پاکستان توانائی بحران کا شکار ہے لیکن ہم خصوصیت سے اگر ذکرکریں پاکستان کی صنعتی حب کراچی کا توکراچی میں یکم اپریل 2018 سے توانائی کا ایسا بحران مسلط کیا گیا ہے کہ شہری نہ صرف روزگار کے مسائل سے شدید طرح سے دو چار ہورہے ہیں پوری پوری شب گرمی کے ساتھ ساتھ مچھروں کی بہتات کے باعث نیند جیسی نعمت سے بھی محروم ہیں۔
اس کے باوجود اس قدر شدید توانائی بحران کی ذمے داری کوئی شخص یا ادارہ قبول کرنے کو تیار نہیں چنانچہ توانائی بحران کا عالم یہ ہے کہ صنعتی علاقوں میں نو گھنٹے اعلانیہ لوڈ شیڈنگ وغیرہ اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے گھنٹے ہیں لا محدود اب ان حالات میں عام شہری کیسے روزگار حاصل کرے گا یا کیونکر کر پائے گا جب کہ کے الیکٹرک کا موقف ہے کہ اسے گیس کی قلت کا سامنا ہے کیونکہ سوئی سدرن کے الیکٹرک کو پوری طرح ضرورت کے مطابق گیس فراہم نہیں کررہی جب کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کا موقف ہے کہ کے الیکٹرک پہلے) اپنے اوپر واجب والا ادا 60 سے 70 ارب ادا کرے پھر گیس کی سپلائی بحال کریںگے جب کہ کے الیکٹرک کا ایک موقف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کچھ ادارے اپنے ذمے واجب الادا رقم ادا نہیں کررہے جس کے باعث کے الیکٹرک سوئی سدرن گیس کے واجبات ادا کرنے سے قاصر ہے ۔
وزیراعلیٰ سندھ کا بیان ہے کہ وہ وزیراعظم کو توانائی بحران کے خاتمے کے لیے تین خطوط ارسال کرچکے ہیںدوسری جانب وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری توانائی بحران کا تمام تر ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دے رہے ہیں البتہ ان تمام حالات میں توانائی بحران کا عذاب جھیل رہے کراچی کے شہری گو کہ توانائی بحران پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ مسائل فقط روزگار و توانائی بحران کے ہی نہیں بلکہ علاج کی سہولیات ناکافی، تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ پانی جیسی نعمت سے عوام محروم ہورہے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں فقط 36 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔اس کیفیت میں کراچی و دیگر شہروں میں پینے کے پانی کی فراہمی کا تو ذکر ہی کیا تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کیا اس قدر تمامتر مسائل سے دو چار قوم کب تک با اثر لوگوں کے سیکیورٹی سمیت دیگر اخراجات برداشت کرپائیںگے؟ یوں بھی خوش قسمت ہیں ہمارے ملک کے حکمران کہ یہاں کے عوام اپنے تمام تر مسائل کا ذمے دار اپنے نصیب کو ٹھہراتے ہیں ان حکمرانوں کو نہیں جن کے یہ تمام تر مسائل پیدا کردہ ہیں البتہ ضروری ہے کہ عوام سماجی مسائل کے ذمے داروں کا تعین کریں پھر اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں ۔