مبارک ہو صاحب
مبارک ہو کہ آپ کے قائد نے بھی اس بہترین انسانی اور اخلاقی عمل کو سراہتے ہوئے آپ کو مبارک باد کا حق دار سمجھا۔
مبارک ہو کہ آپ نے اپنے مخالف کے منہ پر تھپڑ رسید کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پچھلے پانچ چھ سال کے دوران سیاست میں ایک دوسرے کی بے عزتی کرنے کا جو زبانی سلسلہ شروع ہوا تھا آپ اسے انتہاتک لے جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ مبارک ہو کہ آپ نے اپنے مخالف کو کسی دلیل ،بحث اور الزام کے بجائے ایک زور دار تھپڑ سے شکست دے کر اس قول کو مزید پختہ کر دیا کہ جب دلائل ختم ہو جائیں تو بات گالیوں اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے ۔
مبارک ہو کہ جب مستقبل کی سیاسی لغت ترتیب دی جائے گی تو اس کا مصنف لفظ ''چور '' کو زندہ رکھنے اور اپنی ثقافت کا حصہ بنانے پر آپ کا احسان مند رہے گا اور آپ کی خوش کلامی پر مہر تصدیق ثبت کرے گا۔
نہ جانے آپ غم و غصے کی کس منزل پر تھے کہ سوچے سمجھے بغیر '' چور '' کا لفظ سنتے ہی اپنے مخالف کے گال پر تھپڑ رسید کر دیاحالانکہ آپ کا قائد یہی لفظ دھرنوں، سیاسی جلسوں، اور ٹی وی ٹاک کے دوران کئی دفعہ استعمال کر چکا ہے ۔ مبارک ہو کہ اس تھپڑکی کسک نون لیگ کے کروڑوں کارکنوں نے تو صرف اپنے چہروں پر محسوس کی مگر جن کا تعلق نہ آپ سے تھا اور نہ تھپڑ کھانے والے شخص سے انھیں ایسا لگا کہ یہ تھپڑ کسی شخص کے چہرے پر نہیں بلکہ ان کی صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کے چہرے پر لگا ہو ۔
مبارک ہو کہ آپ کے قائد نے بھی اس بہترین انسانی اور اخلاقی عمل کو سراہتے ہوئے آپ کو مبارک باد کا حق دار سمجھا اور آپ ان کے مزید قریب آگئے وگرنہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے باہمی جھگڑا اتنی خوف ناک صورت حال اختیار کر چکا ہے کہ ان کے پاس ایسی معمولی باتوں پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں ۔ مبارک ہو کہ اس نیک عمل کے خلاف جب کچھ غیر جانب دار سیاسی اور سماجی کارکنوں نے شکایت کی تو ماضی کی طرح آپ اور آپ کا راہنما بہت ساری دلیلوں کے بعد اس عمل سے صاف مکر گئے۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
مبارک ہو کہ اس تھپڑ کی گونج اگلی الیکشن مہم میں بھی سنائی دے گی، مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا فائدہ آپ کو ہو گا یا آپ کے مخالفین کو اس سے کامیابی ملے گی ۔ مبارک ہو کہ آپ اس حکومت کا باقاعدگی سے حلف بھی اٹھا چکے ہیں جسے انتخابات سے پہلے ہی کامیابی کی نوید سنا دی گئی ۔ آپ کی پارٹی نے سر تھامس مور کی ''یوٹوپیا '' کی طرح اپنی خیالی حکومت کا ایجنڈہ بھی پیش کر دیا اور پہلے سو دنوں کے درمیان ہونے والی ملکی ترقی کا انتہائی دل کش نقشہ بھی اس انداز سے کھینچا کہ نا سمجھ اور غیر جانب دار معیشت دانوں کے علاوہ ایسے سارے لوگ خوش ہو گئے جن کے نصیب میں بھوک ، بے روزگاری، بیماری اور ناخواندگی کے علاوہ نہ انیس سو ستر کی دہائی میںکچھ تھا اور نہ اب ہے۔ آپ نے تھپڑ والے مشہور زمانہ پروگرام میں یہ نوید بھی سنائی کہ سو دن کا پروگرام اگلے سو سال پر اثر اندازہو گا ۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
اللہ آپ کو اور آپ کے قائد کو سو سال تک اپنی پارٹی کے سر پر سلامت رکھے ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح آپ دوسروں کے سروں پر بھی سوار رہیں گے۔ اس لیے کہ آج کل ہر ٹی وی چینل کو شام کے وقت اپنے ٹاک شوز میں آپ جیسے پڑھے لکھے اور اپنی تہذیب و ثقافت کی لاج رکھنے والے سیاست دانوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ مبارک ہو کہ اس ملک سے برداشت کا کلچر ختم ہونے میں بس تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے کہ ہم منتخب وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹیں گے۔ وزیر اعظم تو نہ جانے اس ملک میں ہو گا ، یا کسی اور جگہ ، مگر آپ کے اس بے باک عمل سے ملک کے ناخواندہ عوام ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑ کر گلیوں اور بازاروں میں ضرور گھسیٹیں گے ۔
چاہے حکومت میں ہو یا نہ ہو ہمارے ملک کا بادشاہ ہمیشہ بادشاہ ہی کہلاتا ہے صرف اس کے عہدے کے آگے اور پیچھے موجودہ ، سابق، مقتول، نااہل وغیرہ جیسے الفاظ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ اپنی پارٹی کا کمال تو دیکھئے کہ ابھی الیکشن ہوئے اور نہ ہی بڑی بڑی پارٹیوں کو توڑنے ،سیاسی اتحاد بنانے اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کا کام مکمل ہوا اس کے باوجود آپکے رہنما نے اپنے آپ کو مستقبل کا وزیر اعظم سمجھنا شروع کر دیا ہے۔
مبارک ہو کہ آپ اور آپکی پارٹی کے سرکردہ راہنما نہ صرف صدیوں پرانی انسانی روایات کا جنازہ نکالنے پر تل گئے ہیں بلکہ آپ نے ستر سالہ سیاسی کلچر کو بھی عدم برداشت کے پیروں تلے روندنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ اس انتہائی نازک دور میں جس نئی سیاسی روایت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اس میں دھرنوں کے دوران اسٹیج پر بیٹھے معزز علمائے کرام کے ملفوظات اور آپ جیسے قد آور سیاستدانوں کے فرمودات پر عمل کرنیوالوں کے لیے ٹاک شو کے دوران کسی کے منہ پر تھپڑ مارنا تو کیا مخالفین کے گھروں میں جا کر پتھر برسانا بھی انتہائی آسان ہو گا۔
افسوس کی بات ہے کہ اس ملک کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی کے کسی اجلاس میں کم ہی نظر آئے مگر مبارک ہو کہ عمران خان جسے پانچ سال تک جعلی اسمبلی کہتے رہے اس میں وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی گلہ شکوہ کرنے ضرور جاتے رہے لیکن جب انھوں نے خواجہ آصف کی سیٹ کی طرف اشارہ کر کے یہ کہا کہ'' کل تک جو شخص اس سیٹ پر بیٹھ کر کہتا تھا کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے وہ یہاں موجود نہیں '' تو سب کے ذہن میں ایک دفعہ پھر نہ جانے یہ الفاظ کیوں گونجنے لگے ۔ ''کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے ۔''