ایک ملزمہ سی آئی اے چیف بن گئی
دنیا میں سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی کی باگ دوڑ ٹرمپ حکومت نے متنازع شخصیت کو سونپ دی
میرے ایک استاد کا کہنا ہے، آپ کسی امریکی یا یورپی سے ملیے، وہ انفرادی طور پر تو تپاک سے ملے گا۔ خوش مزاج ہوگا اور انسان دوستی کی باتیں کرے گا۔ مگر جب قومی مفاد کا معاملہ آئے، تو الٹی گنگا بہنے لگتی ہے۔ وہی امریکی یا یورپی،خاص طور پر ان کا حکمران طبقہ قومی مفاد پورا کرنے کی خاطر کوئی بھی برائی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔
درج بالا عجوبے کا ثبوت حال ہی میں سامنے آیا جب امریکی حکمران طبقے نے ایک اکسٹھ سالہ خاتون، جینا ہسپل (Gina Haspel )کو دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کا سربراہ بنا دیا... حالانکہ قانون، انصاف اور اخلاقیات کی رو سے محترمہ کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔اس انوکھے عمل کی داستان امریکی حکمران طبقے کی منافقت کا پردہ چاک کرتی ہے۔
جینا ہسپل 1985ء میں سی آئی اے کا حصہ بنی۔ تب تک اس کا فوجی شوہر اسے طلاق دے چکا تھا۔ جینا نے پھر ساری عمر شادی نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی بچہ ہے۔ گویا وہ ماں بننے کے عظیم الشان تجربے سے نہیں گزری جو ایک عورت کو محبت، رحم اور ہمدردی کے اعلیٰ جذبات سے بھر دیتا ہے۔
شروع دن سے سی آئی اے میں جینا کی ملازمت خفیہ تھی۔ وہ پہلے رپورٹنگ آفیسر کی حیثیت سے مختلف ممالک میں تعینات رہی۔ تجربے اور مدت ملازمت میں اضافہ ہوا، تو اسے مختلف ملکوں میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف بنایا گیا۔اسی دوران پُر اسرار انداز میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور امریکی حکومت خونخوار بھیڑیے کی طرح القاعدہ تنظیم، افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤںکا تعاقب کرنے لگی۔ اس تعاقب میں امریکی فوج اور امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے پیش پیش تھی۔
مارچ 2002ء میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے فیصل آباد (پاکستان) سے ایک غیر ملکی کو گرفتار کرلیا۔ دنیا والوں کو بتایا گیا کہ وہ القاعدہ رہنما، اسامہ بن لادن کا خاص ساتھی ہے۔سی آئی اے پھر ا سے تفتیش کرنے تھائی لینڈ لے گئی۔ تھائی لینڈ ہی میں سی آئی اے نے اپنا پہلا تفتیشی مرکز قائم کیا جہاں اس غیرملکی کو رکھا گیا۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے بعدازاں دیگر ممالک میں بھی ایسے تفتیشی مرکز کھول لیے جہاں گرفتار شدگان شدید تشدد کا نشانہ بنے۔ یہ تفتیشی مراکز اب ''بلیک سائٹ'' (Black site) کہلاتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں سی آئی اے نے اپنے پہلے تفتیشی مرکز کو ''کیٹس آئی''(Cat's Eye) اور ''ڈیٹینشن سائٹ گرین''(Detention Site Green) کہہ کر بھی پکارا۔
امریکی خفیہ ایجنسی کیٹس آئی کا انچارج ایسی شخصیت کو بنانا چاہتی تھی جو سخت مزاج ہو اور مسلم جہادیوں کو توڑ مروڑ کر رکھ دے۔ تبھی نگاہ انتخاب جینا ہسپل پر جاٹھہری جو سی آئی اے کے اندرونی حلقوں میں اپنی سے بے رحمی اور سخت مزاجی کی وجہ سے ''خونخوار جینا'' (Bloody Gina) کے خطاب سے مشہور ہوچکی تھی۔ چنانچہ مشہور امریکی جریدے، رولنگ اسٹون اور دیگر ممتاز امریکی اخبارات کی رو سے جینا ہسپل سی آئی اے کے پہلے تفتیشی مرکز کی چیف بنادی گئی۔
یہ یقینی ہے کہ جینا ہسپل کو ہدایت دی گئیں کہ ملزم سے القاعدہ کے راز اگلوانے ہیں چاہے اس پر تشدد کرنا پڑے۔ مشہور امریکی نیوز سائٹ، اے بی سی نیوز کی ایک رپورٹ میں درج ہے کہ جینا ہسپل نے تشدد کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کی غرض سے ملزم کو ''گنی پگ'' بنالیا۔ یہ طریقے بعدازاں ''Enhancecl Interrogation Techinaues'' کے تکنیکی نام سے مشہور ہوئے۔
نومبر 2002ء میں سی آئی اے نے دبئی سے ایک سعودی شہری کو گرفتار کرلیا۔ اس پر بھی الزام تھا کہ وہ القاعدہ کا سینئر لیڈر ہے۔ اس ملزم کو بھی تھائی لینڈ کے کیٹس آئی تفتیشی مرکز میں لاکر بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دسمبر 2002ء میں سی آئی اے نے اپنے دونوں ہائی ویلیو قیدی گوانتاناموبے جیل منتقل کردیئے اور کیٹس آئی مرکز بند کردیا۔
تھائی تفتیشی مرکز میں جینا ہسپل کی زیر قیادت تشدد کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ پھر دیگر مراکز میں پھیلتا چلا گیا۔ چونکہ اس تشدد کا حکمران طبقے نے کوئی نوٹس نہیں لیا لہٰذا امریکی فوج اور سی آئی اے کے کارکن شیر ہوگئے۔ عراق کی ابو غریب جیل میں تو انتہا ہوگئی۔ وہاں امریکی مرد و زن فوجیوں نے عراقی قیدیوں کے ساتھ شرمناک اور ظالمانہ سلوک کیا۔
انہیں نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ بہت سے عراقی قیدی قتل بھی کردیئے گئے۔آخر اپریل 2004ء میں امریکی چینل، سی بی ایس نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں افشا کیا کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں پر خوفناک مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ یوں ابو غریب جیل سکینڈل سامنے آیا جس نے امریکا ہی نہیں پوری دنیا کو ہلا دیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں امریکی حکومت سے مطالبہ کرنے لگیں کہ گرفتار شدگان کو دوران تفتیش تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے۔ امریکی عوام کی اکثریت نے بھی تشدد کی مخالفت کردی۔
تشدد کے طریقوں کے خلاف بین الاقوامی احتجاج نے جینا ہسپل کو پریشان کردیا۔ وجہ یہی کہ اس نے یہ طریقے وضع کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جینا ہسپل نے اپنی ''ایفیشنسی'' دکھانے کی خاطرملزموں پر تشدد کرنے کی ویڈیوز تیار کرائی تھی۔ اب جینا کو احساس ہوا کہ اگر یہ ویڈیوز منظر عام پر آگئیں، تو وہ بھی دنیا بھر میں معیوب اور ناپسندیدہ ہستی قرار پائے گی۔
جینا چناں چہ کوشش کرنے لگی کہ ویڈیوز ضائع کردی جائیں مگر سی آئی اے کے بڑوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔4 جون 2005ء کو مشہور امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کرکے انکشاف کیا کہ مشرقی یورپ میں سی آئی اے خفیہ تفتیشی مراکز (بلیک سائٹس) چلا رہی ہے۔ اس رپورٹ نے بھی امریکہ اور بیرون ممالک میں ہلچل مچادی۔ ماہرین اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سی آئی اے نے یقیناً ان خفیہ تفتیشی مراکز میں قیدیوں پر تشدد کیا ہوگا۔اب سی آئی اے عوامی تنقید اور احتجاج کا براہ راست نشانہ بن گئی۔ اس احتجاج نے جینا ہسپل کے ہوش و حواس اڑا دیئے۔
تب تک جینا کا ایک قریبی ساتھی، جوز روڈ گونیر سی آئی اے کے شعبے، نیشنل کلینڈ سٹائن سروس( National Clandestine Service) کا سربراہ بن چکا تھا۔ اسی شعبے کے کارندے بیرون ممالک سی آئی اے کے لیے خفیہ مہمات انجام دیتے اور قتل و غارت تک کرتے ہیں۔ جوز روڈ گونیر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ تھائی کیٹس آئی کی ویڈیوز تلف کردے۔ چناں چہ جینا نے اس پر شدید دباؤ ڈالا کہ ویڈیو ضائع کردی جائیں۔ یوں اس کے گناہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتے اور منظر عام پر نہیں آتے۔جوز روڈ گونیر اپنی ساتھی کے دباؤ میں آگیا۔
اس کے حکم پر 10 نومبر 2005ء کو ''92 ویڈیو ٹیپس'' ضائع کردی گئیں۔ ویڈیوز تلف کرنے کے حکم نامے پر جینا ہسپل کے بھی دستخط تھے۔یہ واضح رہے کہ اوائل 2005ء میں وائٹ ہاؤس کی قونصل (وکیل)، ہیرٹ میسرز نے سی آئی اے کے سربراہ وکلا کو ہدایت کی تھی کہ ایجنسی کے پاس اگر تشدد کی ویڈیوز موجود ہیں، تو وہ ضائع ''نہیں'' کی جائیں۔ تبھی ہیرٹ کو بتایا گیا کہ تھائی تفتیشی مرکز میں اتاری ویڈیوز محفوظ ہیں۔ لیکن بعد ازاں جوز روڈ گونیر اور جینا ہسپل نے باہمی سازش سے ویڈیوز تلف کردیں۔ مدعا جینا کو مقدمے بازی اور قانونی کارروائی سے محفوظ رکھنا تھا۔ لیکن وائٹ ہاؤس کے وکلا کو مطلع کیے بغیر ویڈیوز کو برباد کرنا جرم قرار پایا۔
یہی وجہ ہے، جب صدر اوباما برسراقتدار آئے تو 2 جنوری 2008ء کو وائٹ ہاؤس کے نئے قونصل، مائیکل مکسے نے اعلان کیا کہ تھائی تفتیشی مرکز کی ویڈیوز ضائع کرنے کے سکینڈل پر اب کرمنل تفتیش ہوگی۔ اس تفتیش کا سربراہ ریاست کینکٹیکٹ کے ریاستی وکیل، جان درہم کو مقرر کیا گیا۔ مسٹر جان درہم تقریباً تین سال تک کرمنل تفتیش کرتا رہا۔ نومبر 2010ء اچانک اس نے پُراسرار طور پر کیس بند کردیا۔ جوز روڈ گریوز اور جینا ہسپل پر کسی قسم کے الزامات نہیں لگائے گئے۔ظاہر ہے، قومی مفاد کی خاطر سی آئی اے کے دونوں مجرموں کو سزا سے بچالیا گیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔ جوز ستمبر 2007ء میں سی آئی اے سے ریٹائر ہوگیا۔ جینا ہسپل خفیہ ایجنسی سے وابستہ رہی۔ ماضی میں اس نے جو جرائم کیے تھے، وہ گویا معاف کردیئے گئے۔
2017ء میں اچانک وہ پھر نمایاں ہوئی، جب ماہ فروری میں نئے صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے اسے سی آئی اے کا ڈپٹی ڈائریکٹر بنادیا۔ تب پہلی بار عوام الناس کو معلوم ہوا کہ جینا ہسپل سی آئی اے کے لیے کام کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی بعض امریکی تنظیموں نے اس تقرری پر ٹرمپ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وجہ یہی کہ جینا ماضی میں قیدیوں پر تشدد اور غیر انسانی سلوک کرنے کے سیکنڈل میں ملوث رہی تھی۔
چند ماہ بعد جرمنی میں انسانی حقوق کی مشہور تنظیم، یورپین سینٹر فار کونسٹیٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس نے جرمن عدالت میں جینا ہسپل کے خلاف مقدمہ درج کرادیا۔ جرمن عدالت میں یہ مقدمہ زیر سماعت ہے۔ گویا جینا ہسپل ایک ملزمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر وہ جرمنی گئی، تو پولیس اسے گرفتار کرسکتی ہے۔
ملزمہ ہونے کے باوجود صدر ٹرمپ نے پچھلے ماہ جینا ہسپل کو سی آئی اے کا سربراہ بنا دیا۔ وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ قیدیوں پر تشدد کرنے کا حامی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح ملزم سینوں میں پوشیدہ راز اگل دیتے ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے امریکی فوجیوں اور سکیورٹی سے متعلق اپنی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سبھی اہل کاروں کو یہ پیغام دیا:
''دنیا بھر میں کسی بھی انسان کو امریکا کا دشمن قرار دے کر اسے گرفتار کرو، اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناؤ اور انسانیت کو پیروں تلے کچل ڈالو۔ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ قانون، انصاف اور اخلاقیات کی پروا مت کرو، ہم سب کچھ سنبھال لیں گے۔ تم جتنا زیادہ ظلم کرو گے، اتنے ہی بلند مناصب اور عہدوں پر پہنچ جاؤ گے۔''
درج بالا عجوبے کا ثبوت حال ہی میں سامنے آیا جب امریکی حکمران طبقے نے ایک اکسٹھ سالہ خاتون، جینا ہسپل (Gina Haspel )کو دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کا سربراہ بنا دیا... حالانکہ قانون، انصاف اور اخلاقیات کی رو سے محترمہ کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔اس انوکھے عمل کی داستان امریکی حکمران طبقے کی منافقت کا پردہ چاک کرتی ہے۔
جینا ہسپل 1985ء میں سی آئی اے کا حصہ بنی۔ تب تک اس کا فوجی شوہر اسے طلاق دے چکا تھا۔ جینا نے پھر ساری عمر شادی نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی بچہ ہے۔ گویا وہ ماں بننے کے عظیم الشان تجربے سے نہیں گزری جو ایک عورت کو محبت، رحم اور ہمدردی کے اعلیٰ جذبات سے بھر دیتا ہے۔
شروع دن سے سی آئی اے میں جینا کی ملازمت خفیہ تھی۔ وہ پہلے رپورٹنگ آفیسر کی حیثیت سے مختلف ممالک میں تعینات رہی۔ تجربے اور مدت ملازمت میں اضافہ ہوا، تو اسے مختلف ملکوں میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف بنایا گیا۔اسی دوران پُر اسرار انداز میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور امریکی حکومت خونخوار بھیڑیے کی طرح القاعدہ تنظیم، افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤںکا تعاقب کرنے لگی۔ اس تعاقب میں امریکی فوج اور امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے پیش پیش تھی۔
مارچ 2002ء میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے فیصل آباد (پاکستان) سے ایک غیر ملکی کو گرفتار کرلیا۔ دنیا والوں کو بتایا گیا کہ وہ القاعدہ رہنما، اسامہ بن لادن کا خاص ساتھی ہے۔سی آئی اے پھر ا سے تفتیش کرنے تھائی لینڈ لے گئی۔ تھائی لینڈ ہی میں سی آئی اے نے اپنا پہلا تفتیشی مرکز قائم کیا جہاں اس غیرملکی کو رکھا گیا۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے بعدازاں دیگر ممالک میں بھی ایسے تفتیشی مرکز کھول لیے جہاں گرفتار شدگان شدید تشدد کا نشانہ بنے۔ یہ تفتیشی مراکز اب ''بلیک سائٹ'' (Black site) کہلاتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں سی آئی اے نے اپنے پہلے تفتیشی مرکز کو ''کیٹس آئی''(Cat's Eye) اور ''ڈیٹینشن سائٹ گرین''(Detention Site Green) کہہ کر بھی پکارا۔
امریکی خفیہ ایجنسی کیٹس آئی کا انچارج ایسی شخصیت کو بنانا چاہتی تھی جو سخت مزاج ہو اور مسلم جہادیوں کو توڑ مروڑ کر رکھ دے۔ تبھی نگاہ انتخاب جینا ہسپل پر جاٹھہری جو سی آئی اے کے اندرونی حلقوں میں اپنی سے بے رحمی اور سخت مزاجی کی وجہ سے ''خونخوار جینا'' (Bloody Gina) کے خطاب سے مشہور ہوچکی تھی۔ چنانچہ مشہور امریکی جریدے، رولنگ اسٹون اور دیگر ممتاز امریکی اخبارات کی رو سے جینا ہسپل سی آئی اے کے پہلے تفتیشی مرکز کی چیف بنادی گئی۔
یہ یقینی ہے کہ جینا ہسپل کو ہدایت دی گئیں کہ ملزم سے القاعدہ کے راز اگلوانے ہیں چاہے اس پر تشدد کرنا پڑے۔ مشہور امریکی نیوز سائٹ، اے بی سی نیوز کی ایک رپورٹ میں درج ہے کہ جینا ہسپل نے تشدد کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کی غرض سے ملزم کو ''گنی پگ'' بنالیا۔ یہ طریقے بعدازاں ''Enhancecl Interrogation Techinaues'' کے تکنیکی نام سے مشہور ہوئے۔
نومبر 2002ء میں سی آئی اے نے دبئی سے ایک سعودی شہری کو گرفتار کرلیا۔ اس پر بھی الزام تھا کہ وہ القاعدہ کا سینئر لیڈر ہے۔ اس ملزم کو بھی تھائی لینڈ کے کیٹس آئی تفتیشی مرکز میں لاکر بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دسمبر 2002ء میں سی آئی اے نے اپنے دونوں ہائی ویلیو قیدی گوانتاناموبے جیل منتقل کردیئے اور کیٹس آئی مرکز بند کردیا۔
تھائی تفتیشی مرکز میں جینا ہسپل کی زیر قیادت تشدد کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ پھر دیگر مراکز میں پھیلتا چلا گیا۔ چونکہ اس تشدد کا حکمران طبقے نے کوئی نوٹس نہیں لیا لہٰذا امریکی فوج اور سی آئی اے کے کارکن شیر ہوگئے۔ عراق کی ابو غریب جیل میں تو انتہا ہوگئی۔ وہاں امریکی مرد و زن فوجیوں نے عراقی قیدیوں کے ساتھ شرمناک اور ظالمانہ سلوک کیا۔
انہیں نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ بہت سے عراقی قیدی قتل بھی کردیئے گئے۔آخر اپریل 2004ء میں امریکی چینل، سی بی ایس نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں افشا کیا کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں پر خوفناک مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ یوں ابو غریب جیل سکینڈل سامنے آیا جس نے امریکا ہی نہیں پوری دنیا کو ہلا دیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں امریکی حکومت سے مطالبہ کرنے لگیں کہ گرفتار شدگان کو دوران تفتیش تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے۔ امریکی عوام کی اکثریت نے بھی تشدد کی مخالفت کردی۔
تشدد کے طریقوں کے خلاف بین الاقوامی احتجاج نے جینا ہسپل کو پریشان کردیا۔ وجہ یہی کہ اس نے یہ طریقے وضع کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جینا ہسپل نے اپنی ''ایفیشنسی'' دکھانے کی خاطرملزموں پر تشدد کرنے کی ویڈیوز تیار کرائی تھی۔ اب جینا کو احساس ہوا کہ اگر یہ ویڈیوز منظر عام پر آگئیں، تو وہ بھی دنیا بھر میں معیوب اور ناپسندیدہ ہستی قرار پائے گی۔
جینا چناں چہ کوشش کرنے لگی کہ ویڈیوز ضائع کردی جائیں مگر سی آئی اے کے بڑوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔4 جون 2005ء کو مشہور امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کرکے انکشاف کیا کہ مشرقی یورپ میں سی آئی اے خفیہ تفتیشی مراکز (بلیک سائٹس) چلا رہی ہے۔ اس رپورٹ نے بھی امریکہ اور بیرون ممالک میں ہلچل مچادی۔ ماہرین اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سی آئی اے نے یقیناً ان خفیہ تفتیشی مراکز میں قیدیوں پر تشدد کیا ہوگا۔اب سی آئی اے عوامی تنقید اور احتجاج کا براہ راست نشانہ بن گئی۔ اس احتجاج نے جینا ہسپل کے ہوش و حواس اڑا دیئے۔
تب تک جینا کا ایک قریبی ساتھی، جوز روڈ گونیر سی آئی اے کے شعبے، نیشنل کلینڈ سٹائن سروس( National Clandestine Service) کا سربراہ بن چکا تھا۔ اسی شعبے کے کارندے بیرون ممالک سی آئی اے کے لیے خفیہ مہمات انجام دیتے اور قتل و غارت تک کرتے ہیں۔ جوز روڈ گونیر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ تھائی کیٹس آئی کی ویڈیوز تلف کردے۔ چناں چہ جینا نے اس پر شدید دباؤ ڈالا کہ ویڈیو ضائع کردی جائیں۔ یوں اس کے گناہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتے اور منظر عام پر نہیں آتے۔جوز روڈ گونیر اپنی ساتھی کے دباؤ میں آگیا۔
اس کے حکم پر 10 نومبر 2005ء کو ''92 ویڈیو ٹیپس'' ضائع کردی گئیں۔ ویڈیوز تلف کرنے کے حکم نامے پر جینا ہسپل کے بھی دستخط تھے۔یہ واضح رہے کہ اوائل 2005ء میں وائٹ ہاؤس کی قونصل (وکیل)، ہیرٹ میسرز نے سی آئی اے کے سربراہ وکلا کو ہدایت کی تھی کہ ایجنسی کے پاس اگر تشدد کی ویڈیوز موجود ہیں، تو وہ ضائع ''نہیں'' کی جائیں۔ تبھی ہیرٹ کو بتایا گیا کہ تھائی تفتیشی مرکز میں اتاری ویڈیوز محفوظ ہیں۔ لیکن بعد ازاں جوز روڈ گونیر اور جینا ہسپل نے باہمی سازش سے ویڈیوز تلف کردیں۔ مدعا جینا کو مقدمے بازی اور قانونی کارروائی سے محفوظ رکھنا تھا۔ لیکن وائٹ ہاؤس کے وکلا کو مطلع کیے بغیر ویڈیوز کو برباد کرنا جرم قرار پایا۔
یہی وجہ ہے، جب صدر اوباما برسراقتدار آئے تو 2 جنوری 2008ء کو وائٹ ہاؤس کے نئے قونصل، مائیکل مکسے نے اعلان کیا کہ تھائی تفتیشی مرکز کی ویڈیوز ضائع کرنے کے سکینڈل پر اب کرمنل تفتیش ہوگی۔ اس تفتیش کا سربراہ ریاست کینکٹیکٹ کے ریاستی وکیل، جان درہم کو مقرر کیا گیا۔ مسٹر جان درہم تقریباً تین سال تک کرمنل تفتیش کرتا رہا۔ نومبر 2010ء اچانک اس نے پُراسرار طور پر کیس بند کردیا۔ جوز روڈ گریوز اور جینا ہسپل پر کسی قسم کے الزامات نہیں لگائے گئے۔ظاہر ہے، قومی مفاد کی خاطر سی آئی اے کے دونوں مجرموں کو سزا سے بچالیا گیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔ جوز ستمبر 2007ء میں سی آئی اے سے ریٹائر ہوگیا۔ جینا ہسپل خفیہ ایجنسی سے وابستہ رہی۔ ماضی میں اس نے جو جرائم کیے تھے، وہ گویا معاف کردیئے گئے۔
2017ء میں اچانک وہ پھر نمایاں ہوئی، جب ماہ فروری میں نئے صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے اسے سی آئی اے کا ڈپٹی ڈائریکٹر بنادیا۔ تب پہلی بار عوام الناس کو معلوم ہوا کہ جینا ہسپل سی آئی اے کے لیے کام کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی بعض امریکی تنظیموں نے اس تقرری پر ٹرمپ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وجہ یہی کہ جینا ماضی میں قیدیوں پر تشدد اور غیر انسانی سلوک کرنے کے سیکنڈل میں ملوث رہی تھی۔
چند ماہ بعد جرمنی میں انسانی حقوق کی مشہور تنظیم، یورپین سینٹر فار کونسٹیٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس نے جرمن عدالت میں جینا ہسپل کے خلاف مقدمہ درج کرادیا۔ جرمن عدالت میں یہ مقدمہ زیر سماعت ہے۔ گویا جینا ہسپل ایک ملزمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر وہ جرمنی گئی، تو پولیس اسے گرفتار کرسکتی ہے۔
ملزمہ ہونے کے باوجود صدر ٹرمپ نے پچھلے ماہ جینا ہسپل کو سی آئی اے کا سربراہ بنا دیا۔ وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ قیدیوں پر تشدد کرنے کا حامی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح ملزم سینوں میں پوشیدہ راز اگل دیتے ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے امریکی فوجیوں اور سکیورٹی سے متعلق اپنی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سبھی اہل کاروں کو یہ پیغام دیا:
''دنیا بھر میں کسی بھی انسان کو امریکا کا دشمن قرار دے کر اسے گرفتار کرو، اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناؤ اور انسانیت کو پیروں تلے کچل ڈالو۔ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ قانون، انصاف اور اخلاقیات کی پروا مت کرو، ہم سب کچھ سنبھال لیں گے۔ تم جتنا زیادہ ظلم کرو گے، اتنے ہی بلند مناصب اور عہدوں پر پہنچ جاؤ گے۔''