زندگی کے سفر کو کریں آساں
اللہ پاک کا پسندیدہ ترین راستہ آپ کا منتظر ہے
ISLAMABAD:
ہمارے معاشرے میں تقریباً ستر فیصد افرد غربت کی لکیر کو چھو رہے ہیں یا اس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان افراد کی زندگی کا سفر کیسے گزر رہا ہے ، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بعض اوقات حقیقت کو سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کے ہر 10 میں سے 4 افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان سفید پوش افراد کے لیے بلاشبہ معاشرے میں کسی نہ کسی سطح ، بالخصوص نجی سطح پر کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے ۔
ملک میں این جی اوز کا جال ہے جو غریب ، متوسط ، کم وسیلہ اور وسائل سے محروم طبقات کے حالات زندگی بہتر کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں ۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بہترین این جی او صاحب استطاعت عوام ہے جس نے مل کر مذکورہ طبقات کے حالات سنوارنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ ایسے لوگ ہمارے ہاں زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ چیریٹی کرنے والا ملک ہے ۔
بلاشبہ پاکستان کو یہ اعزاز انہی صاحب استطاعت لوگوں کی خدا ترسی کی وجہ سے حاصل ہوا ۔ ہر سال ماہ رمضان میں یہ جذبہ خیر مزید بڑھتا ہے اور لوگ عطیات دینے کے لیے افراد اور ادارے ڈھونڈتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں خیراتی ادارے زکوۃ و صدقات اور عطیات کی اپیل لیے میدان میں نکل آتے ہیں ۔ ماہ رمضان ہمیں یہ بہترین موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس سے جس قدر استفادہ کر سکتے ہیں ، کر لیں ۔ یہ امر ہمیں یاددہانی بھی کرواتا ہے کہ مالک کائنات نے ہمیں پسے ہوئے طبقات کا کفیل بنایا ہے اور ان کا وسیلہ بننے کی ذمہ داری ہمیں بہرصورت ادا کرنی ہے ۔
اللہ کا صد شکر کہ اس نے ہمیں بہتر بنایا اور اچھے سے نوازا ہے ۔ سر شکر بجالانے کیلئے اس رب کے آگے بے اختیار جھک جاتا ہے ، جس نے نعمتیں عطا کررکھی ہیں ... اور ہمیں یہ ذمہ داری دے رکھی ہے کہ وسائل سے محروم لوگوں کی خاطر جتنا زیادہ ہو سکے ، کیا جائے ۔
لاہور کا ثریا عظیم ہسپتال معیاری علاج اور کم خرچ پر پرائیویٹ چیک اپ کی نسبت سے جانا جاتا ہے ۔ لاہور کے وسط میں موجود یہ ہسپتال مریضوں کو ارزاں نرخوں پر علاج کی جدید سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ اسی ضمن میں جیسے جیسے عطیات میسر آتے ہیں ، مختلف مشینریاں انسٹال کی جارہی ہیں ۔ اس ادارے کو درپیش موجودہ چیلنج جدیدسہولیات سے آراستہ ڈائیلسز شعبہ اور کارڈیک سنٹر کا قیام ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف شعبہ جات میں بھی انہیں ایم آر آئی سمیت دیگر نئی مشینوں کی ضرورت ہے ۔
اچھرہ لاہور کے قریب محمد علی جناح میڈیکل سنٹر کی تین منزلہ خوبصورت بلڈنگ بشیر مہدی کی زیر سرپرستی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہی ہے جہاں اہل علاقہ کی سفید پوشی کا بھرم رکھا جاتا ہے۔مختلف بیماریوں کے سینئر ڈاکٹرز جو عام نجی ہسپتالوں میں ہزاروں روپے فیس لیتے ہیں ، یہاں شام کے اوقات میں صرف ڈیرھ سو روپے پرچی فیس پر مریض چیک کرتے ہیں ۔ اچھرہ کے کم وسیلہ افراد یہاں سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے کی وجہ سے یہ ادارہ مسلسل خسارہ میں ہے ۔ اسی طرح حجاز ہسپتال ، گھرکی ہسپتال ، شوکت خانم ، فاطمید فاؤنڈیشن ، سندس فاؤنڈیشن اور ایسے دیگر مراکز صحت سفید پوش طبقات کی صحت یابی کے لیے میدان عمل میں ہیں۔وہ خدمت کے نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے مخیر حضرات کے منتظر ہیں۔
ایک اور معاشرتی پہلو کی طرف آئیے ۔ پیارے نبی ﷺ کو کُل عالم کا والی بنانے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ یتیموں سے کتنا انس رکھتے ہیں ۔ یتامیٰ کی کفالت حوالے سے ہمارا مذہب بھی بہت حساسیت رکھتا ہے ۔ جگہ جگہ ان کی سرپرستی کے ضمن میں تاکید کی گئی ہے ۔ باپ کی شفقت سے محروم ان بچوں کی مختلف مدات میں کفالت کے لیے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ، ایدھی ہومز ، سویٹ ہومز ، ایس او ایس اور خدمت جیسے ادارے مخیر حضرات کے تعاون سے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
اگرچہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں بسنے والے یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھائے ، لیکن حکومتوں کی ترجیحات میں یہ امر کبھی شامل نہیں رہا ۔ اسی لئے دردِ دل رکھنے والے چند حضرات نے مذکورہ جیسے ادارے بنائے ہیں جہاں ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت کا بندوبست ہے۔
تعلیم موجودہ دور کی اولین ضرورت بن چکی ہے ۔ یہ فرد کو مستحکم اور خودمختار بھی بناتی ہے ۔ تاہم بدقسمتی سے آج اسے تجارت بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم ایک سفید پوش فرد کی پہنچ سے بھی دور ہو چکی ہے ۔ ایسی صورتحال میں وسائل نہ رکھنے والے بچے عام تعلیمی اداروں میں بھی داخلہ لینے سے قاصر ہیں ۔ جھگی سکولز ، الخدمت بیٹھک سکولز اور ایسے ہی دیگر ادارے مذکورہ جیسے بچوں کیلئے آسانی کا سبب بنے ہیں جہاں مفت تعلیم کا بندوبست ہے ۔
یتیم پروری اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنا بلاشبہ بہت بڑی عبادات ہیں ۔ ان محروم طبقات کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کیلئے قدرت کی جانب سے ہمیں '' سہولت کار'' بنایا گیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ فرض اور قرض میں محض ایک نقطے کا فرق ہے۔ قرض دیجیے کہ فرض بھی پورا ہو اور منافع بھی حاصل ہو ۔ یہ اجر بھی ہے اور صدقہ جاریہ بھی ۔یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔
ہمارے معاشرے میں تقریباً ستر فیصد افرد غربت کی لکیر کو چھو رہے ہیں یا اس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان افراد کی زندگی کا سفر کیسے گزر رہا ہے ، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بعض اوقات حقیقت کو سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کے ہر 10 میں سے 4 افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان سفید پوش افراد کے لیے بلاشبہ معاشرے میں کسی نہ کسی سطح ، بالخصوص نجی سطح پر کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے ۔
ملک میں این جی اوز کا جال ہے جو غریب ، متوسط ، کم وسیلہ اور وسائل سے محروم طبقات کے حالات زندگی بہتر کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں ۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بہترین این جی او صاحب استطاعت عوام ہے جس نے مل کر مذکورہ طبقات کے حالات سنوارنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ ایسے لوگ ہمارے ہاں زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ چیریٹی کرنے والا ملک ہے ۔
بلاشبہ پاکستان کو یہ اعزاز انہی صاحب استطاعت لوگوں کی خدا ترسی کی وجہ سے حاصل ہوا ۔ ہر سال ماہ رمضان میں یہ جذبہ خیر مزید بڑھتا ہے اور لوگ عطیات دینے کے لیے افراد اور ادارے ڈھونڈتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں خیراتی ادارے زکوۃ و صدقات اور عطیات کی اپیل لیے میدان میں نکل آتے ہیں ۔ ماہ رمضان ہمیں یہ بہترین موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس سے جس قدر استفادہ کر سکتے ہیں ، کر لیں ۔ یہ امر ہمیں یاددہانی بھی کرواتا ہے کہ مالک کائنات نے ہمیں پسے ہوئے طبقات کا کفیل بنایا ہے اور ان کا وسیلہ بننے کی ذمہ داری ہمیں بہرصورت ادا کرنی ہے ۔
اللہ کا صد شکر کہ اس نے ہمیں بہتر بنایا اور اچھے سے نوازا ہے ۔ سر شکر بجالانے کیلئے اس رب کے آگے بے اختیار جھک جاتا ہے ، جس نے نعمتیں عطا کررکھی ہیں ... اور ہمیں یہ ذمہ داری دے رکھی ہے کہ وسائل سے محروم لوگوں کی خاطر جتنا زیادہ ہو سکے ، کیا جائے ۔
لاہور کا ثریا عظیم ہسپتال معیاری علاج اور کم خرچ پر پرائیویٹ چیک اپ کی نسبت سے جانا جاتا ہے ۔ لاہور کے وسط میں موجود یہ ہسپتال مریضوں کو ارزاں نرخوں پر علاج کی جدید سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ اسی ضمن میں جیسے جیسے عطیات میسر آتے ہیں ، مختلف مشینریاں انسٹال کی جارہی ہیں ۔ اس ادارے کو درپیش موجودہ چیلنج جدیدسہولیات سے آراستہ ڈائیلسز شعبہ اور کارڈیک سنٹر کا قیام ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف شعبہ جات میں بھی انہیں ایم آر آئی سمیت دیگر نئی مشینوں کی ضرورت ہے ۔
اچھرہ لاہور کے قریب محمد علی جناح میڈیکل سنٹر کی تین منزلہ خوبصورت بلڈنگ بشیر مہدی کی زیر سرپرستی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہی ہے جہاں اہل علاقہ کی سفید پوشی کا بھرم رکھا جاتا ہے۔مختلف بیماریوں کے سینئر ڈاکٹرز جو عام نجی ہسپتالوں میں ہزاروں روپے فیس لیتے ہیں ، یہاں شام کے اوقات میں صرف ڈیرھ سو روپے پرچی فیس پر مریض چیک کرتے ہیں ۔ اچھرہ کے کم وسیلہ افراد یہاں سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے کی وجہ سے یہ ادارہ مسلسل خسارہ میں ہے ۔ اسی طرح حجاز ہسپتال ، گھرکی ہسپتال ، شوکت خانم ، فاطمید فاؤنڈیشن ، سندس فاؤنڈیشن اور ایسے دیگر مراکز صحت سفید پوش طبقات کی صحت یابی کے لیے میدان عمل میں ہیں۔وہ خدمت کے نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے مخیر حضرات کے منتظر ہیں۔
ایک اور معاشرتی پہلو کی طرف آئیے ۔ پیارے نبی ﷺ کو کُل عالم کا والی بنانے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ یتیموں سے کتنا انس رکھتے ہیں ۔ یتامیٰ کی کفالت حوالے سے ہمارا مذہب بھی بہت حساسیت رکھتا ہے ۔ جگہ جگہ ان کی سرپرستی کے ضمن میں تاکید کی گئی ہے ۔ باپ کی شفقت سے محروم ان بچوں کی مختلف مدات میں کفالت کے لیے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ، ایدھی ہومز ، سویٹ ہومز ، ایس او ایس اور خدمت جیسے ادارے مخیر حضرات کے تعاون سے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
اگرچہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں بسنے والے یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھائے ، لیکن حکومتوں کی ترجیحات میں یہ امر کبھی شامل نہیں رہا ۔ اسی لئے دردِ دل رکھنے والے چند حضرات نے مذکورہ جیسے ادارے بنائے ہیں جہاں ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت کا بندوبست ہے۔
تعلیم موجودہ دور کی اولین ضرورت بن چکی ہے ۔ یہ فرد کو مستحکم اور خودمختار بھی بناتی ہے ۔ تاہم بدقسمتی سے آج اسے تجارت بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم ایک سفید پوش فرد کی پہنچ سے بھی دور ہو چکی ہے ۔ ایسی صورتحال میں وسائل نہ رکھنے والے بچے عام تعلیمی اداروں میں بھی داخلہ لینے سے قاصر ہیں ۔ جھگی سکولز ، الخدمت بیٹھک سکولز اور ایسے ہی دیگر ادارے مذکورہ جیسے بچوں کیلئے آسانی کا سبب بنے ہیں جہاں مفت تعلیم کا بندوبست ہے ۔
یتیم پروری اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنا بلاشبہ بہت بڑی عبادات ہیں ۔ ان محروم طبقات کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کیلئے قدرت کی جانب سے ہمیں '' سہولت کار'' بنایا گیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ فرض اور قرض میں محض ایک نقطے کا فرق ہے۔ قرض دیجیے کہ فرض بھی پورا ہو اور منافع بھی حاصل ہو ۔ یہ اجر بھی ہے اور صدقہ جاریہ بھی ۔یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔