اب ایوارڈز کی نہ تو ضرورت ہے نہ ہی خواہش

سولو پرفارمینس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ’’تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔

دنیائے گائیکی کی معروف شخصیت، بلقیس خانم نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جس کا شعبۂ موسیقی سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ فوٹو: فائل

یہ کہانی ہے ایک فن کار کی۔

ایسے فن کار کی، جس کے لیے اپنی کلا سے روبرو ہونا حیران کن تجربہ رہا کہ وہ اپنے اندرون میں اُس کی موجودگی سے یک سر لاعلم تھا!

دنیائے گائیکی کی معروف شخصیت، بلقیس خانم نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جس کا شعبۂ موسیقی سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اِسی سبب خود کو حادثاتی گلوکارہ کہتی ہیں۔ یادیں کھوجتے ہوئے وہ لمحہ بھی گرفت میں نہیں آتا، جب سازوں نے اپنی جانب متوجہ کیا کہ وہ ایک خاموش لمحہ تھا۔ واقعات کی فراوانی میں اس کے رونما ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا۔

اِس سینئر گلوکارہ نے ریڈیو سے اپنے کیریر کا آغاز کیا، فلموں میں بھی گایا، مگر عروج پی ٹی وی سے ملا، جس سے نشر ہونے والے دو گیت ''انوکھا لاڈلا'' اور ''کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں'' بے حد مقبول ہوئے۔ کہنا ہے،''یوں تو میرے دیگر گانے بھی پسند کیے گئے، مگر اِن ہی دو گانوں کی وجہ سے مجھے پہچان ملی۔ آج بھی محفلوں میں زیادہ تر اِن ہی کی فرمایش ہوتی ہے۔''

اُن کے دیگر مشہور گیتوں میں پروین شاکر کی غزل ''وہ تو خوشبو ہے ہوائوں میں بکھر جائے گا'' سرفہرست ہے، جس کی دھن بزمی صاحب نے ترتیب دی۔ اُن کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی عبید اﷲ علیم کی غزل ''نیند آنکھوں سے اڑی پھول سے خوشبو کی طرح'' بھی پسند کی گئی، جو استاد رئیس خان کی کمپوزیشن تھی۔ احمد ندیم قاسمی کی غزل ''جب تیرا حکم ملا ترک محبت کر دی'' کو سراہنے والوں کا حلقہ بھی وسیع ہے۔ اِس کی دھن بھی استاد رئیس خان ہی نے ترتیب کی۔

اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے اُن نغموں کا ذکر نکل آیا، جو اُن کے دل کے بے حد قریب ہیں۔ سب سے پہلے اسد محمد خان کے حمدیہ کلام ''تلاش کرتے رہو'' پر بات ہوئی، جسے استاد نذر حسین نے کمپوز کیا۔ پھر ایک غزل ''کب وہ سنتا ہے کہانی میری'' کا ذکر آیا، جس کی ریہرسل تو کی گئی، مگر وہ غزل کبھی ریکارڈ نہیں ہوسکی۔

تربیت کلاسیکی گائیکی کی حاصل کی، مگر نام غزل اور گیت گائیکی میں کمایا۔اس بابت کہتی ہیں، ''کلاسیکی گائیکی، فن گائیکی کی بنیاد ہے۔ اِس کے لیے بڑی ریاضت چاہیے۔ اِس کی نسبت مجھے گیت اور غزل کی اصناف آسان محسوس ہوئیں۔'' اپنے کام یاب کیریر میں ستایشی کلمات کو اہمیت دینے کے بجائے ہمیشہ اپنے فن کی بہتری کی جانب توجہ مرکوز رکھی۔ ''کبھی اپنی پرفارمینس سے مطمئن نہیں ہوئی۔ ہاں، جب کوئی سینئر موسیقار سراہتا تھا، تب خوشی محسوس ہوتی تھی۔''

شہرت ضرور ٹی وی سے ملی، مگر بہ قول اُن کے، جو کچھ سیکھا، ریڈیو سے سیکھا۔ ''ریڈیو کو میں فن کاروں کے لیے اکیڈمی تصور کرتی ہوں۔'' ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سے کوئی گلہ نہیں، مگر حکومت کے کردار سے مطمئن نہیں۔ ''میں نے اتنا کام کیا، مگر مجھے کسی حکومتی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ میری غزلیں گانے والوں کو پرائیڈ آف پرفارمینس مل گیا، مگر مجھے اِس کے قابل نہیں سمجھا گیا۔



خیر، اب نہ ہی نوازیں تو بہتر ہے، کیوں کہ نہ تو اب ایوارڈز کی ضرورت رہی ہے، نہ ہی خواہش!'' اُنھیں شکایت ہے کہ کئی اچھے فن کاروں نے اپنے فن کو میڈم نورجہاں، مہدی حسن اور لتا کے مقبول گانوں تک محدود رکھا، اپنے آئٹم پیش نہیں کیے۔ ''مجھے اِس بات پر شدید اعتراض ہے۔ آپ کو خدا نے نوازا ہے، گلا دیا ہے، مگر آپ اپنے گانے نہیں گا رہے۔ کئی اچھے فن کار صرف اسی وجہ سے شناخت نہیں بنا پائے۔ مجھے اس بات کا ادراک تھا، اِسی لیے ہمیشہ اپنے آئٹم پیش کرنے کو ترجیح دی۔''

حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ اُنھوں نے 25 دسمبر 1948 کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں مقیم ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد، عبد الحق فرنیچر سازی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ والدین سے روابط میں روایتی رنگ حاوی تھا۔ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں وہ بڑی ہیں۔ خاصی کم گو ہوا کرتی تھیں اس وقت۔ طبیعت میں شوخی نہیں تھی۔ ہمہ وقت سنجیدگی غالب رہتی۔ کھیلوں کا معاملہ فقط ایک گڑیا تک محدود رہا، جو بیش تر وقت صندوقچی میں رکھی رہتی۔ ہاں، مطالعے کا شوق تھا۔ اردوزبان اپنی جانب کھینچتی تھی۔ شعور کی آنکھ فیصل آباد میں کھولی۔ وہاں ایم بی گرلز ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب اسکول انتظامیہ کی جانب سے ملی نغمے پیش کرنے کے لیے چُنا گیا، اُس وقت تک قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ گا بھی سکتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور یاد ہے کہ بڑی جماعتوں کی طالبات کبھی کبھار اُن سے گنگنانے کی فرمایش کیا کرتی تھیں۔

کچھ عرصے بعد حالات خاندان کو واپس لاہور لے آئے۔ غالب مارکیٹ کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ یہیں کم سن بلقیس کی محمد شریف نامی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی تربیت نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ''وہ کلاسیکی موسیقی کے استاد تھے۔ تعلق جالندھر سے تھا۔ معروف نہیں تھے، مگر بڑے گنی آدمی تھے۔ اُنھوں نے مجھے صرف گائیکی نہیں سِکھائی، اردو سے میرا تعلق بھی اُن ہی کی وجہ سے قائم ہوا۔ مجھے وہ پڑھنے کے لیے کتابیں دیا کرتے تھے۔'' تربیت کا ڈھنگ کچھ یوں تھا کہ علی الصبح استاد کے گھر پہنچ جاتیں۔ ہارمونیم پر کلاسیکی گائیکی کی مشق کرتیں۔ تربیت کے عمل میں چند وقفے بھی آئے۔ شاید یہی وہ زمانہ تھا، جب سماعت سُروں سے آشنا ہوئی، مگر خود میں چھپے گائیک کو دریافت کرنے کی ضرورت پیش نہیں وہ بڑی خاموشی سے ازخود ظاہر ہوگیا۔ استاد کی سرپرستی میں نجی محافل میں وہ پرفارم کرنے لگیں، جہاں غزلیں اور گیت پیش کیا کرتیں۔

اور پھر زندگی میں ایک موڑ آیا ۔ یہ 64ء کا ذکر ہے۔ والد کے ایک دوست نے اُنھیں سنا، تو ریڈیو کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ بات دل کو لگی۔ استاد کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں۔ جن صاحب نے ریڈیو میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا، اُن کے محلے میں ریڈیو اسٹیشن کا چپڑاسی رہا کرتا تھا، جس کی اُس وقت کے ریجنل ڈائریکٹر، مختار صدیقی سے اچھی سلام دعا تھی۔ ''تو اُس چپڑاسی نے، جسے ریڈیو کی زبان میں اسٹوڈیو کمشنر کہا جاتا تھا، ریڈیو آڈیشن کے لیے میری سفارش کی۔'' آڈیشن کے تین ماہ بعد بلاوا آیا۔ ابتداً کورس میں گایا۔ ''لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ نئے فن کاروں کو شروع کے دو ماہ کورس ہی میں گوایا جاتا، تاکہ ٹریننگ ہوجائے۔ اُس وقت ہمیں فی پروگرام پچیس روپے ملا کرتے۔'' ریڈیو پر پہلی بار اپنی آواز سنی، تو مطمئن ہونے کے بجائے مزید بہتری کی خواہش نے جنم لیا۔


سولو پرفارمینس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ''تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی'' سے کیا۔ چھے ماہ بعد پھر آڈیشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ''ریڈیو کا طریقۂ کار بڑا سخت تھا۔ اِسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ جس نے ریڈیو کی مار کھائی ہو، وہ پھر کہیں مار نہیں کھاتا۔ چاہے وہ گلوکار ہو یا اداکار۔'' اِس بار معروف پروڈیوسر، سلیم گیلانی نے آڈیشن لیا۔ چالیس فن کار قسمت آزمانے آئے، منتخب ہونے والوں چند خوش نصیبوں میں وہ بھی شامل تھیں۔ معاوضہ بڑھا کر 65 روپے کر دیا گیا۔ پروگرامز کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور کے علاوہ دیگر اسٹیشنز کا بھی رخ کیا۔ پہلا سفر راول پنڈی کا تھا۔ اگلی بار مظفر آباد کی سمت بڑھیں۔ ریڈیو کی شہرت خوب کام آئی، نجی پروگرامز میں مدعو کیا جانے لگا۔ اِسی کے توسط سے پی ٹی وی تک رسائی حاصل کی، جہاں آڈیشن کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پنجابی گیت سے اِس سفر کا آغاز ہوا۔ 65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔ ''ہر طرف کے گانے گائے۔ اُس وقت میرا کوئی نام نہیں ہوا تھا۔ بس، جس طرح دیگر فن کار تھے، ویسے ہی ہم تھے۔''

آنے والے دنوں میں کنور آفتاب، طارق عزیز، فضل کمال، رفیق احمد وڑائچ اور شعیب منصور جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا۔ اُسی زمانے میں موسیقار، خلیل احمد نے فلمی گانے کی پیش کش کی۔ ''تصویر'' کے لیے اُنھوں نے گانا ''بلما اناڑی'' ریکارڈ کروایا، جو فلم کے پہلے شو کے بعد سینسر بورڈ نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ ''گیت کے بول مناسب نہیں!'' جہاں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ کام کیا، وہیں فلمی دنیا کے چند نئے موسیقاروں کی دھنوں کو بھی آواز دی۔ موسیقار، میاں شہریار نے ''بی بی'' نامی فلم کے تمام گانے اُن ہی سے گوائے، مگر وہ فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔ شہرت کا سفر جاری تھا، مگر جلد ہی فلمی دنیا سے اُوب گئیں۔ ''میں خود کو اُس ماحول میں ڈھال نہیں سکی۔ دھیرے دھیرے انڈسٹری سے دُور ہوتی گئی۔ پچیس تیس فلمی گانے گائے ہوں گے، لیکن میری قسمت 'اچھی' تھی، کیوں کہ تمام ہی فلمیں ڈبے میں گئیں۔''

فلم انڈسٹری سے دُوری کا ایک سبب کراچی آمد بھی تھا۔ یہ 70ء کا ذکر ہے۔ ایک نجی محفل میں شرکت کے لیے شہر قائد کا رخ کیا، جو اتنا بھایا کہ یہیں ڈیرا ڈال لیا۔ جلد ہی پی ٹی وی سے جُڑ گئیں، جہاں ایک ایسا گیت ریکارڈ کروانے کا موقع ملا، جو امر ہوگیا۔ ''انوکھا لاڈلا'' استاد عاشق علی خان کی کمپوزیشن تھا، جسے اسد محمد خان کے قلم نے جدید آہنگ دیا۔ امیر امام کے پروگرام ''سرگم'' میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا، اور چند ہی روز میں زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ اُن ہی دنوں عبیداﷲ علیم کی غزل ''کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں'' ریکارڈ کروائی، جو استاد نذر حسین کی کمپوزیشن تھی۔ اُس نے بھی مقبولیت کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

پہلا غیرملکی دورہ لندن کا کیا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب لاہور میں مقیم تھیں۔ 72-73 میں جب سلیم گیلانی کی سربراہی میں فن کاروں کے وفد نے مشرقی افریقا کا رخ کیا، تو وہ اُس میں شامل تھیں۔

78ء میں نام وَر ستار نواز، استاد رئیس خان سے ملاقات ہوئی، جو اُس وقت ہندوستان میں مقیم تھے۔ ملاقاتوں میں جلد ہی محبت کا رنگ در آیا۔ 80ء میں شادی ہوئی، اور بلقیس خانم ہندوستان چلی گئیں۔ اگلے سات برس ممبئی میں بیتے۔ وہاں ٹی وی اور فلم کے لیے گانے کی پیش کش ہوئی، مگر یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اِن دنوں ''پریکٹس'' میں نہیں۔ ہندوستان کے ماحول سے تو ہم آہنگ ہوگئیں، مگر Sinus کے مسئلے کی وجہ سے ممبئی راس نہیں آیا۔ بس، اِسی وجہ سے 86ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں، اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔

بلقیس صاحبہ تو پاکستانی ہیں، اُن کے لیے یہ فیصلہ ضرور آسان رہا ہوگا، مگر استاد رئیس خان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، جو اپنے اوج پر ہونے کے باوجود سب چھوڑ چھاڑ کر اُن کے ساتھ چلے آئے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے تو مائیک نہیں سنبھالا، مگر 90ء میں پاکستان آنے کے بعد پھر پلٹیں، اور پٹنا میں رئیس خان کے ساتھ پنجابی گیتوں اور غزلوں کے البمز ریکارڈ کروائے، جو بلقیس خانم اور رئیس خان کے سولو اور ڈؤٹ آئٹمز پر مشتمل تھے۔ دھنیں استاد رئیس خان ہی نے کمپوز کیں۔ بتاتی ہیں، اُن البمز کی چند کمپوزیشنز مقبول تو بہت ہوئیں، مگر اُن کے نام سے نہیں۔ کچھ ہندوستانی فن کاروں نے، جن کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتیں، کمپوزیشنز کاپی کرکے خوب داد بٹوری۔

گو وقت لگا، مگر پاکستان لوٹنے کے بعد ریڈیو اور ٹی وی سے رشتہ بحال ہوگیا۔ اُن کی آواز پھر سامعین کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ نجی محفلوں میں بھی پرفارم کرتی رہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ یہ سلسلہ گھٹتا گیا، مگر منقطع کبھی نہیں ہوا۔ آج بھی سامعین اُن کے فن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہتی ہیں، اُنھوں نے کبھی پروگرام کے لیے کسی سے سفارش نہیں کروائی۔ ''خدا کا شکر ہے، اِس کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لوگ خود پروگرام لے کر آتے ہیں۔''

موسیقاروں میں وہ بزمی صاحب کا ذکر بہت احترام سے کرتی ہیں۔ استاد نذر حسین کو بھی سراہتی ہیں۔ من پسند گلوکاروں کے موضوع پر بات کرتے ہوئے میڈم نورجہاں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہیں کہ بہ قول اُن کے، وہ اپنے فن میں یکتا تھیں۔ ہم عصروں میں فریدہ خانم کا نام لیتی ہیں۔ اقبال بانو اور نیرنور کے فن سے متعلق مثبت رائے رکھتی ہیں۔ یہی معاملہ عابدہ پروین، مہناز، گل بہار اور حمیرا چنا کا ہے۔ مردوں میں مہدی حسن، حسین بخش اور غلام عباس کی گائیکی پسند ہے۔ کچھ ایسے فن کاروں کا بھی نام لیتی ہیں، جنھوں نے بہت کم گایا۔ اِس ضمن میں روبینہ بدر کا ذکر خصوصی طور پر کرتی ہیں، جن کا گیت ''تم سنگ نینا لاگے'' بہت اچھا لگا۔

پاکستانی موسیقی کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں۔ کہنا ہے، اب موسیقی سننے سے زیادہ دیکھنے کی چیز بن گئی ہے۔ ''آج اچھے گلوکار انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔'' شکایت ہے کہ نئے آنے والے سیکھنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ ''اگر آپ ہر ماہ لاکھوں کما رہے ہیں، تو بہتر ہے کہ چند ہزار روپے کسی استاد کو دے کر تھوڑا بہت سیکھ بھی لیں۔''

بلقیس صاحبہ خوش لباس خاتون کی شہرت رکھتی ہیں۔ کھانے کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ مصروفیات کے باعث باورچی خانے سے دُور ہی رہیں۔ خدا نے دو بیٹوں، فرحان رئیس اور حضور حسنین سے نوازا۔ شفیق والدہ ہیں، مگر شفقت بچوں میں بگاڑ کا سبب نہیں بنی۔ نمایشی لوگ سخت ناپسند ہیں۔ اخبارات باقاعدگی سے نہیں پڑھتیں، البتہ خبریں ضرور دیکھتی ہیں۔ مطالعے کا شوق ہے۔ شاعری سے گہرا شغف رکھتی ہیں۔ میر اور غالب کی مداح ہیں۔ جدید شعرا میں منیر نیازی، ناصر کاظمی، فراز اور اطہر نفیس کا نام لیتی ہیں۔ اپنے مزاج کی بابت کہتی ہیں،''کبھی خواہش ہوتی ہے کہ گھر سے باہر ہی نہ نکلوں۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ باہر ہی رہوں۔ بس، زندگی کے حوالے سے عجیب سی بے اعتباری ہے۔ دراصل بچپن کی مڈل کلاس لڑکی آج بھی مجھ میں زندہ ہے۔''

اور جب صاحباں جی اٹھی۔۔۔

لائیو پروگرام میں غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار بڑی ہی دل چسپ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اُن کے ساتھ پیش آیا:

''پی ٹی وی سے مرزا صاحباں کا میوزیکل پلے پیش کیا جارہا تھا۔ پلے میں گلوکار ہی ایکٹ کیا کرتے تھے۔ میں صاحباں کا کردار کر رہی تھی۔ عام طور سے فن کار مصنوعی زیورات استعمال کیے کرتے تھے، مگر میں کبھی کبھار اصلی زیور بھی پہن لیتی۔ اُس روز میں نے سونے کا ٹیکا پہنا ہوا تھا۔ پلے کے آخر میں صاحباں مر جاتی ہے۔ اُس سین میں مَیں اتنی شدت سے زمین پر گری کہ خیال گزرا، ٹیکا ٹوٹ گیا ہے۔

اب صاحباں تو مر گئی ہے، کیمرا میرے چہرے پر فوکس ہے، اور میں ٹیکے کے لیے پریشان ہو رہی ہوں۔ تو میں اٹھی۔ ہاتھ لگا کر ٹیکا چیک کیا، اور مطمئن ہو کر دوبارہ 'مر' گئی۔ اور یہ پورا منظر لائیو چلا گیا۔ (قہقہہ!) برسوں تک لوگ اِس واقعے کو یاد کرکے ہنستے رہے۔''
Load Next Story