ہیمنت کمار کی آواز خوابوں میں لے جاتی ہے

پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز والد کے ایک دوست کی ’’فرم‘‘ سے بہ حیثیت کلرک کیا۔

رحمٰن نشاط کے تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ فوٹو: فائل

کئی جہتیں ہیں اُن کی شخصیت کی۔

شعر کہتے ہیں، فکشن تخلیق کرتے ہیں، مدرس ہیں، اِس پر مستزاد موسیقی کے اسرارو رموز کا بھی علم رکھتے ہیں، فن ستارنوازی میں طاق ہیں، مگر اصل حوالہ تو افسانہ نگاری ہی ہے!

یہ رحمٰن نشاط کا ذکر ہے، جن کے تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ''آئینے میں سورج'' 88ء میں شایع ہوا۔ دوسرا ''بے چھت آسمان'' 2001 میں اور تیسرا مجموعہ ''پانی پر لکیر'' 2012 میں منظر عام پر آیا۔ چوتھا مجموعہ ''پانیوں میں گھلتی زمین'' زیرترتیب ہے۔ ادب کے ساتھ ساتھ اِس سفر میں صحافت کا بھی تجربہ کیا۔ کھیلوں کے میدان میں بھی خاصے متحرک رہے۔ الغرض بھرپور زندگی گزاری۔ کبھی ڈیپریشن حملہ کرے، تو دیوان غالب سے رجوع کرتے ہیں۔ اچھی موسیقی سُنتے ہیں۔ منزل کا تعین کیے بغیر سفر پر نکل جاتے ہیں، اور اِسی سفر سے بیان کرنے لائق کہانیاں مل جاتی ہیں۔

حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ 6 جولائی 1950 کو اُنھوں نے کراچی کے علاقے جیکب لائن میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، فضل الرحمٰن اپنے شعبے میں استاد مچھو خان کے نام سے معروف تھے، اور ستارنوازی کے میدان میں سند تصور کیے جاتے تھے۔ والدین کا دیا ہوا نام عتیق الرحمٰن ہے۔ ایک بہن، تین بھائیوں میں وہ بڑے ہیں۔ بچپن کی یادیں ذہن میں محفوظ ہیں۔ وہ دن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیںِ،''میں بہت کم زور اور ڈرپوک بچہ تھا۔ دراصل میں ننھیال اور ددھیال کا پہلا بچہ تھا، لہٰذا سب کی توجہ، محبت اور امیدوں کا مرکز رہا۔ اِس باعث میں بچپن ہی میں بڑا بلکہ کہنا چاہیے بزرگ بن گیا تھا۔ میں بہت 'انٹروورڈ' تھا، بلکہ اب بھی ہوں۔''

والدین انتہائی شفیق اور محبت کرنے والے تھے۔ ''والد صاحب مہربان بھی تھے، اور سخت مزاج بھی۔ اُن کے کچھ اصول تھے۔ ہمیں مغرب کے بعد گھر سے باہر رہنے کی، دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے دوستوں سے پہلے وہ خود ملتے، پھر جن کو مناسب سمجھتے تھے، ان سے دوستی رکھنے کی اجازت دے دیتے۔'' رحمٰن نشاط کے مطابق ان کے بچپن کا زمانہ آج سے بہت مختلف تھا۔ ''یہ انٹرنیٹ، موبائل فون، کمپیوٹر کیفے، ہوٹلز وغیرہ نہیں تھے۔ میری عمر کے لڑکے یا تو کھیل کود میں مصروف رہتے، یا پھر لائبریریوں میں وقت گزارتے تھے۔''

گنتی قابل طلبا میں ہوا کرتی تھی۔ تمام امتحانات اچھے نمبروں سے پاس کیے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول، جیکب لائن سے حاصل کی۔ پھر بی ایم بی اسکول، صدر میں داخلہ لے لیا، جہاں سے 69ء میں سائنس سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ لیاقت کالج ملیر سے 72ء میں اُنھوں نے انٹر کیا۔ اگلے برس اردو فاضل کا امتحان پاس کیا۔ 74ء میں گریجویشن کرنے کے بعد جامعہ کراچی کا رخ کیا، جہاں سے اردو ادب میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔

کھیل کے میدان ابتدا ہی سے توجہ کا مرکز رہے۔ فاسٹ بالر کی حیثیت سے بلے بازوں کے لیے خطرے کی علامت تھے۔ کہتے ہیں،''ایک سال میں اپنے اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا۔ لیاقت کالج کی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہا۔ میرا چھوٹا بھائی، فرید بھی بہت اچھا کرکٹر تھا۔ میرے بعد وہ بی ایم بی اسکول کی ٹیم کا کپتان بنا۔'' کرکٹ کے دل دادہ تھے، مگر دیگر کھیلوں میں بھی دل چسپی لی، خصوصاً بیڈمنٹن کا کھیل توجہ کا مرکز رہا۔ ''میں 78ء تا 88ء ایک کالج سے منسلک رہا۔ اُس دوران میں اسٹاف کے مقابلوں میں تین سال بیڈمنٹن چیمپیئن رہا۔''

پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز والد کے ایک دوست کی ''فرم'' سے بہ حیثیت کلرک کیا۔ ایک ماہ ہی وہاں ٹکے۔ پھر اسٹیٹ لائف کا حصہ بن گئے، مگر یہ کام بھی طبیعت سے میل نہیں کھاتا تھا، سو 73ء میں ٹیچرز ٹریننگ کا کورس کرکے تدریس کے پیشے میں آگئے۔ وہ دن ہے، اور آج کا دن، اِسی پیشے سے منسلک ہیں۔ ''چالیس برس ہوگئے۔ انگریزی پڑھاتا ہوں۔ ٹیچرز کو ٹریننگ دیتا ہوں، انگلش لینگویج سِکھاتا ہوں۔'' کیریئر کا آغاز، اُن کے بہ قول، نیو میتھڈ سیکنڈری اسکول، ناظم آباد سے کیا۔

پھر دہلی گورنمنٹ انجینئر سیکنڈری اسکول میں پڑھایا۔ 93ء میں وہ گورنمنٹ اسکول لٹل اینجلز کے ہیڈ ماسٹر ہوگئے۔ 97ء میں اُنھیں ڈائریکٹوریٹ آف اسکولز میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔ اُسی برس آغا خان یونیورسٹی اور شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی، برطانیہ کے اشتراک سے ہیڈماسٹرز کے لیے ''اسکول ایڈمنسٹریشن اینڈ مینجمینٹ'' کورس کا اہتمام کیا گیا۔ ان کا بھی انتخاب ہوا۔ کورس کے دوران کارکردگی بہت اچھی رہی، مزید تربیت کے لیے اُنھیں لندن بھیج دیا گیا۔ 2000 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرمینٹ لے کر ایک پرائیویٹ اسکول میں بہ حیثیت پرنسپل کام شروع کردیا۔ اِس وقت میٹروپولیس ایجوکیشن سسٹم میں بہ طور ڈائریکٹر اکیڈمکس خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اُن کے پاس لا کی ڈگری بھی ہے، مگر وکالت کی طرف نہیں گئے کہ درس و تدریس کا پیشہ اُن کا عشق ہے۔ ''اس پیشے کے علاوہ کسی اور کام میں جی نہیں لگتا۔'' ہاں، اس عرصے میں صحافت کا تجربہ ضرور کیا۔ کہتے ہیں،''لاہور سے ایک پندرہ روزہ اخبار 'سورج' نکلا کرتا تھا، میں کراچی میں اُس کا نمایندہ تھا۔ پھر مختلف اخبارات و رسائل میں بہ طور نمایندہ، نائب مدیر، نگراں صفحہ برائے طلبا کام کرتا رہا۔''

ادبی سفر موضوع بنا، تو بتانے لگے کہ وہ بچپن ہی سے مطالعے کے شایق ہیں۔ کالج کے زمانے تک اردو کلاسیکی ادب کا بڑا حصہ پڑھ چکے تھے۔ لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں اور مضامین سے کیا۔ طنز و مزاح اُن کا موضوع تھا۔ کچھ پُراسرار اور اساطیری کہانیاں بھی لکھیں، جن میں ''گومدیا'' اور ''روح کا بلاوا'' بہت مقبول ہوئیں۔

شروعات نثر سے ہوئی، 69ء میں شعر بھی کہنے لگے۔ 72ء میں پہلا افسانہ لکھا۔ ''صبح سے پہلے'' نامی یہ افسانہ ماہ نامہ سوداگر کے سال نامے میں شایع ہوا۔ آنے والے برسوں میں شعرگوئی اور افسانہ نگاری ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ شاعری اور افسانہ نگاری میں کسی کو استاد نہیں کیا کہ اُن کے نزدیک یہ خداداد صلاحیت ہے۔ ''ویسے دوستوں کو سناتا، اور مشورے لیتا رہتا ہوں۔ اچھی اردو لکھنا میں نے ابن صفی سے سیکھا۔ میں نے اُنھیں بہت پڑھا ہے۔ ایک اعتبار سے وہ میرے غائبانہ استاد ہیں۔ اُن سے ملاقات، خواہش کے باوجود کبھی نہیں ہوسکی۔ بس ایک مشاعرے میں دُور سے انھیں دیکھا تھا۔''

اُن کے مجموعوں کے اشاعت میں خاصا وقفہ نظر آتا ہے۔ اِس کا سبب وہ یوں بیان کرتے ہیں،''دراصل میں نے اپنے تینوں مجموعے خود ہی شایع کیے ہیں، کسی پبلشر کی منت سماجت نہیں کی۔ لہٰذا جب بھی وسائل میسر ہوئے، مجموعہ شایع کردیا۔'' مجموعوں میں، اُن کے فن سے متعلق کسی کی رائے یا مضمون کی غیرموجودگی کی بابت کہتے ہیں،''میں اپنے افسانوں کو کسی کی رائے، مضمون یا فلیپ کے بل پر وقیع نہیں بنانا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے افسانے اِس لیے پڑھے جائیں کہ یہ میرے افسانے ہیں۔ رحمٰن نشاط کے افسانے۔ کم زور یا مضبوط جیسے بھی ہیں، چھپنے کے بعد نقاد، قاری، ادیب، دوست، جو رائے چاہیں قائم کریں۔''


افسانہ نگاری کے ساتھ شاعری کا سلسلہ بھی جاری ہے، مگر شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا۔ اِس ضمن میں کہنا ہے،''میں شعر کم کہتا ہوں۔ جب مجموعے کے مطابق شعری مواد ہو جائے گا، تو شعری مجموعہ بھی شایع کردوں گا۔ یوں بھی میں خواہش مند ہوں کہ شاعر سے زیادہ مجھے بہ طور افسانہ نگار پہچانا جائے۔''

اِس جھنجھٹ میں نہیں پڑتے کہ مجموعہ مارکیٹ میں جائے، فروخت ہو۔ طریقہ یہ ہے کہ ادب دوستوں میں خود ہی مفت تقسیم کردیتے ہیں۔ ''ادب میرا شوق ہے، میں اسے بیچنا نہیں چاہتا۔ بس یہ میری اپنی سوچ ہے۔ میں نہ تو لفافہ مشاعروں میں شریک ہوتا ہوں، نہ ہی اپنی کتابیں فروخت کرتا ہوں۔ لکھتا ہوں، شایع کرتا ہوں، اور دوستوں اور ادب پروروں کو اعزازی طور پر پیش کردیتا ہوں۔''

ادب میں، رحمٰن نشاط کسی نظریے کے قائل نہیں کہ اُن کے نزدیک نظریہ تخلیق کار کو مبلغ بنا دیتا ہے، اور تخلیق کو پابند اور محدود کردیتا ہے۔ یہیں سے ترقی پسند تحریک کا ذکر نکل آیا۔ کہنے لگے،''دیکھیں، نظریہ یا فلسفہ اور اُس کے تحت جنم لینے والی تحریکیں مخصوص حالات، سوچ اور فکر کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ حالات جوں ہی تبدیل ہوتے ہیں، نہ تو وہ سوچ رہتی ہے، نہ ہی وہ مخصوص اندازفکر۔ پھر تحریک بھی دم توڑ دیتی ہے، اور اِس کے تحت لکھا جانے والا ادب بھی۔ اسی وجہ سے ترقی پسند تحریک کے اہم اور سرگرم کارکن اور لکھنے والے خود اِس تحریک سے دور ہوگئے۔'' اس موڑ پر پہنچ کر بات کا رخ جدیدیت کی جانب مڑا، تو کہنے لگے،''ادیب یا شاعر، جدید اپنی سوچ اور فکر میں ہوتا ہے، نہ کہ اسلوب اور زبان و بیان میں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لفظوں کی توڑپھوڑ اور گنجلک علامات کے استعمال کو جدیدیت سمجھ لیا گیا ہے۔''

ادب کا مستقبل، اُن کے نزدیک تاب ناک ہے۔ ''میں مایوس نہیں ہوں، ہمارے ہاں بہت اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے۔'' اپنے افسانوں کے تعلق سے کہتے ہیں،''مجھے تو اپنے تمام ہی افسانے عزیز ہیں۔ اگر آپ اسے خودستائی نہ سمجھیں، تو کہوں گا کہ میرے بہت سے افسانے بین الاقوامی معیارات پر پورے اترتے ہیں۔'' اُن کے افسانوں کے عنوانات میں انوکھا پن نظر آتا ہے کہ اِس کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔ ''میں اپنے افسانوں کے عنوانات اور مجموعوں کے نام بہت غوروفکر کے بعد رکھتا ہوں۔''

موسیقی سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ خود بھی موسیقار ہیں۔ فن ستارنوازی پر گہری گرفت ہے۔ باقاعدہ یہ فن سیکھا۔ اِس کے طفیل ریڈیو پاکستان سے تعلق قائم ہوا۔71ء میں ریڈیو کے موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کا سلسلہ شروع ہوا، جو اگلے بیس برس تک جاری رہا۔ اِس دوران ستار بجانے کے علاوہ ریڈیو سے کمپیئرنگ کی۔ خطوں کے جواب، ادبی خبریں اور انٹرویوز جیسے پروگرام کرتے رہے۔

عشق کا تجربہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''لڑکپن ہی میں بزرگ بن گیا تھا، بھلا عشق کیا کرتا! مطلب یہ کہ اپنی فطری سنجیدگی، بردباری اور خاموش طبعی کے سبب کسی سے اظہار کرنا بھی چاہا، تو نہیں کرسکا۔ کوئی قریب آیا بھی، تو میری بزرگانہ شخصیت اور رویے کی وجہ سے جلد ہی دور ہوگیا۔'' اِس ضمن میں اپنا ایک شعر بھی سناتے ہیں ؎

کام یوں تو بہت کیے ہم نے
ایک بس عشق کا نہ وقت ملا

گائیکی میں وہ مہناز، آشا بھوسلے، مہدی حسن اور ہیمنت کمار کے مداح ہیں۔ ''خصوصاً ہیمنت کمار مجھے بہت پسند ہے۔ اس کی آواز بہت پراسرار ہے، خوابوں کی دنیا میں لے جاتی ہے۔''

سردی کا موسم بھاتا ہے۔ عام طور سے پتلون قمیص میں نظر آتے ہیں۔ انھیں اسکول جاتے ہوئے بچے، صبح کھانے کا ٹفن ہاتھ میں لیے کام پر جاتے ہوئے نوجوان، محنت مشقت کرتے بوڑھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ''اسی طرح مجھے بارش میں بھیگتے ہوئے دور تک پیدل چلنا بہت اچھا لگتا ہے۔''

ہم عصر افسانہ نگاروں میں کسی کا نام نہیں لیتے۔ ''مجھے اپنی نسل میں یا نئی نسل میں کوئی نام نظر نہیں آتا۔ بات یہ ہے کہ نام اور شناخت بننے میں بہت وقت لگتا ہے۔ میں پچاس سال سے لکھ رہا ہوں۔ اب اس جگہ پہنچا ہوں کہ میرا 'نوٹس' لیا جارہا ہے۔'' نئے لکھنے والوں میں، ان کے بہ قول، مشاہدے اور مطالعے دونوں کی کمی ہے۔ ''پھر نئی نسل میں تحمل اور ٹھہراؤ بھی نہیں۔ ایک ایک دو دو سال ہوتے ہیں شعر کہتے یا افسانہ لکھتے ہوئے، اور مجموعے شایع ہوجاتے ہیں۔ میں نے 72ء میں پہلا افسانہ لکھا تھا، اور 88 میں، یعنی 16 برس بعد پہلا مجموعہ آیا۔''

1976 میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے چار بیٹیوں سے نوازا۔ چاروں ہی کی شادی ہوچکی ہے۔ بتاتے ہیں،''بڑی بیٹی ڈاکٹر ہے، اسلام آباد میں رہتی ہے۔ دوسری بیٹی کراچی میں مقیم ہے، مونٹیسوری ڈائریکٹریس ہے، ایک پرائیویٹ اسکول میں دس بارہ برس تک پری پرائمری سیکشن کی پرنسپل رہ چکی ہے۔ تیسری بیٹی ہاؤس وائف ہے۔ چھوٹی بیٹی لندن میں ہے۔ وہ بھی مونٹیسوری ڈائریکٹریس ہے۔'' بیٹیوں کے علاوہ بھانجیاں، بھتیجیاں بھی تدریس ہی کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ایک معنوں میں پڑھانا ان کا فیملی پروفیشن ہے۔

اُن کے ڈرائنگ روم میں لگا شیلف ایوارڈز سے سجا ہے۔ اُن کی بابت کہتے ہیں،''اِن میں سے کچھ تعلیمی اور تدریسی خدمات کے اعتراف میں ملے ہیں، کچھ ادبی حوالے سے۔ 88ء میں مجھے ایک نجی تنظیم کی جانب سے سال کے بہترین افسانہ نگار کا گولڈ میڈل ملا تھا۔ اِسی طرح 2003 میں بہترین قلم کار کی حیثیت سے گولڈ میڈل میرے حصے میں آیا۔ البتہ سب سے بڑا ایوارڈ ایک نجی تنظیم کے ٹیچرز کنونشن میں ملا۔ یہ لیڈرشپ ایکسیلینس ایوارڈ تھا، جو تیس پینتیس سالہ تعلیمی اور تدریسی خدمات کے اعتراف میں ملتا ہے۔''

زندگی سے سے مطمئن ہیں۔ ''اﷲ نے مجھے بہت نوازا۔ میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ کانفرنس اور سیمینارز میں شرکت کے لیے کئی ممالک کا سفر کرچکا ہوں۔ بیٹیوں کی بروقت شادی کردی، وہ سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ داماد چاروں بہت اچھے ملے ہیں۔ بہن بھائی ہیں، نواسے نواسیاں ہیں۔ الغرض مجھ پر کسی کا کوئی قرض، کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ اللہ نے صحت بھی دی ہے، اور کیا چاہیے!'' نوجوانوں کو ان الفاظ میں نصیحت کرتے ہیں،''میرے تجربے کے مطابق قناعت، صبر، خیر خواہی اور رزق حلال زندگی کو مطمئن، آسان اور خوش و خرم بناتے ہیں۔''
Load Next Story