نگران وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی نامزدگی پر تحریک انصاف مطمئن
تحریک انصاف کے اندر نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے کوئی جوش وخروش دکھائی نہیں دے رہا
حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نگران وزیر اعظم کیلئے جسٹس(ر) ناصر الملک اور پنجاب کے نگران وزیر اعلی کیلئے ناصر کھوسہ کے ناموں کا مشترکہ اعلان کردیا گیا ہے ۔گو کہ دونوں اعلانات متفقہ طور پر کیئے گئے ہیں اور تحریک انصاف کی قیادت نے نگرانوں کو مبارکباد بھی دی ہے لیکن تحریک انصاف کے اندر نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے کوئی جوش وخروش دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
ناصر کھوسہ کے حوالے سے افسر شاہی اور عوامی حلقوں میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کے بہت نزدیک ہیںکیونکہ انہوں نے چیف سیکرٹری پنجاب سمیت کئی اہم عہدوں پر ان کے ساتھ کام کیا ہے جبکہ اڑتی چڑیا کے پر گننے کے دعویدار بعض حلقے یہ سازشی تھیوری بھی پیش کرتے ہیں کہ جس وقت عدالت نے پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا تب عالمی بنک میں تعینات ناصر کھوسہ کی ہنگامی پاکستان آمد بھی''بچت کی کوشش'' کے طور پرتھی۔کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ ناصر کھوسہ کی نامزدگی کے ذریعے مسلم لیگ(ن) عوام میں یہ پیغام دینے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ ''اپنا بندہ'' نامزد کروانے کا مطلب ہے کہ ہم گیم سے آوٹ نہیں ہیں۔ یہ تمام تھیوریز ایک جانب لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ناصر کھوسہ کا تحریک انصاف کے اہم ترین مرکزی رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔
جن دنوں جہانگیر ترین شوکت عزیز کی کابینہ میں شامل تھے ان دنوں ناصر کھوسہ نے ان کے ماتحت ''کھالہ جات کی اصلاح پروگرام'' کے انچارج کی حیثیت سے کام کیا ہوا ہے ۔ ناصر کھوسہ کے نام پر تحریک انصاف کے اتفاق کی ایک بڑی وجہ جہانگیر ترین کی ان کے بارے میں مثبت رائے ہے۔ جہانگیر ترین سمجھتے ہیں کہ ناصر کھوسہ میرٹ سے ہٹ کر نہ تو کام کرتے ہیں نہ کوئی دباؤ برداشت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناصر کھوسہ ایک متوازن مزاج افسر ہیں۔ ن لیگ کے جو عہدیدار ناصر کھوسہ کی تعیناتی کو ن لیگ کی'' کامیابی'' قرار دیتے ہوئے بڑھکیں لگا رہے ہیں انہوں نے بالکل ایسی ہی بڑھکیں اور''اپنا بندہ آگیا'' کے نعرے اس وقت بھی لگائے تھے جب جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی کی گئی اور جب جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ناصر کھوسہ کا نام تحریک انصاف نے تجویز کیا تھا۔ ایک بات اطمینان بخش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر مطمئن اور پر امید ہیں کہ ناصر کھوسہ کے ہوتے ہوئے کسی سیاسی جماعت کو'' اضافی'' مدد نہیں ملے گی۔
الیکشن2018 ء میں کسی ایک سیاسی جماعت کو برتری ملنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد میں معمولی فرق ہی ہو گا ۔ تحریک انصاف کو مخلوط حکومت بنانا ہو گی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کمزور مخلوط حکومت کو مدت پوری کرنے اور اپنے انتخابی منشور پر عمل کرنے میں شدید ترین دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مخلوط حکومت میں شامل چھوٹی جماعتیں اور گروپ اپنا ''بھاو'' بڑھانے کیلئے دباو ڈالتے رہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین یہ رائے دے رہے ہیں کہ آئندہ جو بھی حکومت بنے گی شاید وہ مدت پوری نہ کر سکے۔
تاہم ایک بڑے حلقہ کی رائے ہے کہ حکومت مدت بھی پوری کرے گی اور تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور پر بہت حد تک عمل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے گی اور اگر کسی طور نئی حکومت اپنی مدت مکمل کر لیتی ہے تو اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں میاں نواز شریف کا سیاسی کردار کم ہوجائے گا کیونکہ پانچ برس بعد میاں نواز شریف کی بڑھتی ہوئی عمر کے قدرتی عوامل بھی اثر انداز ہوں گے اور تحریک انصاف کو وفاقی حکومت کرنے کے بعد ن لیگ کا انتخابی مقابلہ کرنے میں مزید آسانی ہوجائے گی ۔ ووٹر سو فیصد کسی بھی جماعت سے مطمئن نہیں ہو سکتا لہذا ہر سیاسی جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹر ز کی حمایت حاصل کی جائے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن کا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں دیا جانے والا یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ بعض عالمی طاقتیں پاکستان میں عام انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔53 روز کی انتخابی مہم جتنی تیز رفتار ہو گی اتنی ہی پر خطر ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی حفاظت کے انتظامات خود بھی بہتر بنانا ہوں گے جبکہ پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کو بھی اس کڑے چیلنج سے نبٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی اور سب سے مقبول سیاسی جماعت دکھائی دیتی ہے۔ ہر الیکٹ ایبل اور نان الیکٹ ایبل انتخابی امیدوار کی اولین خواہش تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ہے۔ ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں آنے والے''الیکٹ ایبلز'' کی تعداد 60 سے تجاوز کر چکی ہے اور یکم جون کے بعد ن لیگ چھوڑ کر شامل ہونے والوں کا آخری بڑا ریلا بھی آنے والا ہے ۔ لاہور میں شیخ روحیل اصغراور بہاولپور سے رکن اسمبلی ریاض پیرزادہ سمیت دیگر شہروں میں متعدد اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کے موجودہ اراکین اسمبلی کے تحریک انصاف سے رابطوں کی اطلاعات سنائی دے رہی ہیں۔ تحریک انصاف کا پارلیمانی بورڈ جون کے پہلے ہفتے میں ٹکٹوں کا فیصلہ کرنے والا ہے تاہم 70 فیصد حلقوں میں امیدوار فائنل کیئے جا چکے ہیں اور ان امیدواروں کو فائنل کرنے میں عمران خان کے ساتھ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور ریجنل صدور کی مشاورت شامل ہے، لہذا پارلیمانی بورڈ کا اجلاس کوئی غیر معمولی ہونے کی توقع نہیں ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے اندر جاری نئی دھڑے بندی کی وجہ سے بعض امیدواروں پر اعتراض اور جواب اعتراض کا سلسلہ دیکھنے میں آئے۔
گزشتہ چند روز سے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان تلخ کلامی کے واقعے کو ن لیگ کی میڈیا مینجمنٹ کے زور پر بہت اچھالا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی بہت سینئر سیاستدان ہیں مگر ان کا ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہ اپنی جگہ سمیٹنے کے بعد دوسروں کی جگہ لپیٹنے کے چکر میں الجھ جاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے دو برس قبل بھی جہانگیر ترین، چوہدری سرور اور عبدالعلیم خان کے خلاف متنازعہ تقریر کی تھی اور اس وقت یہ اطلاعات گھوم رہی تھیں کہ یہ تقریر سیف اللہ نیازی، نعیم الحق اور حامد خان کی مبینہ فرمائش پر کی گئی ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کے خلاف ہر سال،ڈیڑھ سال بعد ایک چھوٹا سا دھڑا بغاوت کی کوشش کرتا ہے اور عمران خان کی جانب سے''رسپانس'' نہ ملنے کے بعد جب بغاوت ناکام ہوجاتی ہے تو پھر سے تعلقات کو نارمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کو پنجاب کی وزارت اعلی کا امیدوار بننا ہے تو اس کیلئے انہیں عمران خان کی نامزدگی درکار ہے وہ اسٹیبلشمنٹ یا کسی پریشر گروپ کے زور پر یہ نامزدگی حاصل نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی اس وقت تحریک انصاف کو غیر معمولی تنظیمی ڈسپلن اور اتحاد ویکجہتی کی ضرورت ہے لہذا کسی بھی رہنما کو دوسرے رہنما کی ٹانگیں کھینچنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ناصر کھوسہ کے حوالے سے افسر شاہی اور عوامی حلقوں میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کے بہت نزدیک ہیںکیونکہ انہوں نے چیف سیکرٹری پنجاب سمیت کئی اہم عہدوں پر ان کے ساتھ کام کیا ہے جبکہ اڑتی چڑیا کے پر گننے کے دعویدار بعض حلقے یہ سازشی تھیوری بھی پیش کرتے ہیں کہ جس وقت عدالت نے پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا تب عالمی بنک میں تعینات ناصر کھوسہ کی ہنگامی پاکستان آمد بھی''بچت کی کوشش'' کے طور پرتھی۔کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ ناصر کھوسہ کی نامزدگی کے ذریعے مسلم لیگ(ن) عوام میں یہ پیغام دینے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ ''اپنا بندہ'' نامزد کروانے کا مطلب ہے کہ ہم گیم سے آوٹ نہیں ہیں۔ یہ تمام تھیوریز ایک جانب لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ناصر کھوسہ کا تحریک انصاف کے اہم ترین مرکزی رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔
جن دنوں جہانگیر ترین شوکت عزیز کی کابینہ میں شامل تھے ان دنوں ناصر کھوسہ نے ان کے ماتحت ''کھالہ جات کی اصلاح پروگرام'' کے انچارج کی حیثیت سے کام کیا ہوا ہے ۔ ناصر کھوسہ کے نام پر تحریک انصاف کے اتفاق کی ایک بڑی وجہ جہانگیر ترین کی ان کے بارے میں مثبت رائے ہے۔ جہانگیر ترین سمجھتے ہیں کہ ناصر کھوسہ میرٹ سے ہٹ کر نہ تو کام کرتے ہیں نہ کوئی دباؤ برداشت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناصر کھوسہ ایک متوازن مزاج افسر ہیں۔ ن لیگ کے جو عہدیدار ناصر کھوسہ کی تعیناتی کو ن لیگ کی'' کامیابی'' قرار دیتے ہوئے بڑھکیں لگا رہے ہیں انہوں نے بالکل ایسی ہی بڑھکیں اور''اپنا بندہ آگیا'' کے نعرے اس وقت بھی لگائے تھے جب جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی کی گئی اور جب جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ناصر کھوسہ کا نام تحریک انصاف نے تجویز کیا تھا۔ ایک بات اطمینان بخش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر مطمئن اور پر امید ہیں کہ ناصر کھوسہ کے ہوتے ہوئے کسی سیاسی جماعت کو'' اضافی'' مدد نہیں ملے گی۔
الیکشن2018 ء میں کسی ایک سیاسی جماعت کو برتری ملنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد میں معمولی فرق ہی ہو گا ۔ تحریک انصاف کو مخلوط حکومت بنانا ہو گی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کمزور مخلوط حکومت کو مدت پوری کرنے اور اپنے انتخابی منشور پر عمل کرنے میں شدید ترین دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مخلوط حکومت میں شامل چھوٹی جماعتیں اور گروپ اپنا ''بھاو'' بڑھانے کیلئے دباو ڈالتے رہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین یہ رائے دے رہے ہیں کہ آئندہ جو بھی حکومت بنے گی شاید وہ مدت پوری نہ کر سکے۔
تاہم ایک بڑے حلقہ کی رائے ہے کہ حکومت مدت بھی پوری کرے گی اور تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور پر بہت حد تک عمل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے گی اور اگر کسی طور نئی حکومت اپنی مدت مکمل کر لیتی ہے تو اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں میاں نواز شریف کا سیاسی کردار کم ہوجائے گا کیونکہ پانچ برس بعد میاں نواز شریف کی بڑھتی ہوئی عمر کے قدرتی عوامل بھی اثر انداز ہوں گے اور تحریک انصاف کو وفاقی حکومت کرنے کے بعد ن لیگ کا انتخابی مقابلہ کرنے میں مزید آسانی ہوجائے گی ۔ ووٹر سو فیصد کسی بھی جماعت سے مطمئن نہیں ہو سکتا لہذا ہر سیاسی جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹر ز کی حمایت حاصل کی جائے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن کا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں دیا جانے والا یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ بعض عالمی طاقتیں پاکستان میں عام انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔53 روز کی انتخابی مہم جتنی تیز رفتار ہو گی اتنی ہی پر خطر ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی حفاظت کے انتظامات خود بھی بہتر بنانا ہوں گے جبکہ پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کو بھی اس کڑے چیلنج سے نبٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی اور سب سے مقبول سیاسی جماعت دکھائی دیتی ہے۔ ہر الیکٹ ایبل اور نان الیکٹ ایبل انتخابی امیدوار کی اولین خواہش تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ہے۔ ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں آنے والے''الیکٹ ایبلز'' کی تعداد 60 سے تجاوز کر چکی ہے اور یکم جون کے بعد ن لیگ چھوڑ کر شامل ہونے والوں کا آخری بڑا ریلا بھی آنے والا ہے ۔ لاہور میں شیخ روحیل اصغراور بہاولپور سے رکن اسمبلی ریاض پیرزادہ سمیت دیگر شہروں میں متعدد اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کے موجودہ اراکین اسمبلی کے تحریک انصاف سے رابطوں کی اطلاعات سنائی دے رہی ہیں۔ تحریک انصاف کا پارلیمانی بورڈ جون کے پہلے ہفتے میں ٹکٹوں کا فیصلہ کرنے والا ہے تاہم 70 فیصد حلقوں میں امیدوار فائنل کیئے جا چکے ہیں اور ان امیدواروں کو فائنل کرنے میں عمران خان کے ساتھ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور ریجنل صدور کی مشاورت شامل ہے، لہذا پارلیمانی بورڈ کا اجلاس کوئی غیر معمولی ہونے کی توقع نہیں ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے اندر جاری نئی دھڑے بندی کی وجہ سے بعض امیدواروں پر اعتراض اور جواب اعتراض کا سلسلہ دیکھنے میں آئے۔
گزشتہ چند روز سے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان تلخ کلامی کے واقعے کو ن لیگ کی میڈیا مینجمنٹ کے زور پر بہت اچھالا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی بہت سینئر سیاستدان ہیں مگر ان کا ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہ اپنی جگہ سمیٹنے کے بعد دوسروں کی جگہ لپیٹنے کے چکر میں الجھ جاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے دو برس قبل بھی جہانگیر ترین، چوہدری سرور اور عبدالعلیم خان کے خلاف متنازعہ تقریر کی تھی اور اس وقت یہ اطلاعات گھوم رہی تھیں کہ یہ تقریر سیف اللہ نیازی، نعیم الحق اور حامد خان کی مبینہ فرمائش پر کی گئی ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کے خلاف ہر سال،ڈیڑھ سال بعد ایک چھوٹا سا دھڑا بغاوت کی کوشش کرتا ہے اور عمران خان کی جانب سے''رسپانس'' نہ ملنے کے بعد جب بغاوت ناکام ہوجاتی ہے تو پھر سے تعلقات کو نارمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کو پنجاب کی وزارت اعلی کا امیدوار بننا ہے تو اس کیلئے انہیں عمران خان کی نامزدگی درکار ہے وہ اسٹیبلشمنٹ یا کسی پریشر گروپ کے زور پر یہ نامزدگی حاصل نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی اس وقت تحریک انصاف کو غیر معمولی تنظیمی ڈسپلن اور اتحاد ویکجہتی کی ضرورت ہے لہذا کسی بھی رہنما کو دوسرے رہنما کی ٹانگیں کھینچنے سے گریز کرنا چاہیے۔