نگران سیٹ اپ کیلئے حکومت اوراپوزیشن میں اتفاق رائے نہ ہو سکا
گذشتہ دس سالہ کارکردگی کی بنیاد پر سندھ میں پیپلز پارٹی انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔
KARACHI:
آئینی مدت پوری کرنے کے بعد سندھ اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے اور سندھ حکومت ختم ہو گئی ہے لیکن 28 مئی 2018 ء کی رات 12 بجے تک وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے مابین نگران وزیر اعلی کے لیے کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں نگران حکومت کے قیام میں مزید دو تین دن لگ سکتے ہیں لیکن سندھ میں سیاسی سرگرمیوں میں بہت تیزی آ گئی ہے۔
تحلیل ہونے والی سندھ اسمبلی کا پہلا اجلاس 29 مئی 2013 ء کو ہوا تھا جبکہ آخری اور الوداعی اجلاس 28 مئی 2018 ء کو منعقد ہوا۔ اس عرصے میں سندھ میں کوئی بڑا سیاسی بحران پیدا نہیں ہوا کیونکہ 2013 ء میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہونے سے حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کراچی میں گزشتہ تین عشروں سے جاری دہشت گردی اور خونریزی نے سندھ کی سیاست کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یہ بدامنی سندھ میں سیاسی بحرانوں کا سبب رہی اور اس بدامنی کو بعض قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ان پانچ سالوں کے دوران سندھ میں وزیر اعلی کی تبدیلی ہوئی لیکن اس تبدیلی کی وجہ پہلے کی طرح بدامنی یا دہشت گردی نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے 27 جولائی 2016 ء کو سید قائم علی شاہ کی جگہ سید مراد علی شاہ کو سندھ کا وزیر اعلی مقرر کیا۔ سید قائم علی شاہ اس سے پہلے بھی پانچ سال تک سندھ کے وزیر اعلی رہے۔ انہوں نے 6 اپریل 2008 ء سے 21 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیئے۔ پھر 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد انہیں دوبارہ یہ منصب سونپا گیا۔ وہ 30 مئی 2013 سے 25 جولائی 2016 تک کام کرتے رہے۔ اس طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کے دو ادوار حکومت میں انہوں نے 8 سال 2 ماہ تک یہ ذمہ داری سنبھالی۔ 1988 ء میں بھی وہ سندھ کے وزیر اعلی رہے۔ سید قائم علی شاہ کو نہ صرف تین مرتبہ سندھ کا وزیر اعلی بننے کا اعزاز حاصل رہا ہے بلکہ سندھ میں سب سے زیادہ عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کا اعزاز بھی ان کے پاس ہے۔
سید قائم علی شاہ کے دو ادوار حکومت انتہائی مشکل تھے کیونکہ کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ سید قائم علی شاہ نے اپنے تدبر اور تجربے سے بہت سے معاملات کو سنبھالا اور اپنے دوسرے اور تیسرے دور حکومت میں صوبے میں کوئی سیاسی بحران پیدا نہیں ہونے دیا ۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے منشور اور پالیسیوں کے مطابق صوبے کی ترقی، غربت کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کے لیے بھی بہت کام کیا۔ ان کی عمر کی وجہ سے شاید پیپلز پارٹی کی قیادت نوجوان سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلی سندھ کی ذمہ داریاں سونپیں۔ سید مراد علی شاہ نے دو سال سے بھی کم عرصے میں اپنی بھرپور توانائی، جوش اور ولولے کے ساتھ کام کیا اور پیپلز پارٹی کے مخالفین کو بھی باور کرا دیا کہ کام ہوا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی مسلسل 10 سال تک حکومت رہی ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنی دس سالہ کارکردگی کی بنیاد پر عوام میں جا رہی ہے۔ اگلے روز چیف منسٹر ہاؤس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ اور موجودہ وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے سندھ کی آخری حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دی ۔ اس بریفنگ میں سینئر صحافی بھی موجود تھے ۔ بریفنگ سے لوگوں کو احساس ہوا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں بہت کام کیے ہیں ۔ وہ کام نہ صرف کراچی بلکہ سندھ کے دیگر شہروں اور علاقوں میں نظر بھی آ رہے ہیں ۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سندھ اسمبلی کی کارکردگی بھی دیگر صوبائی اسمبلیوں سے بہت بہتر رہی کیونکہ سندھ میں سب سے زیادہ قانون سازی ہوئی۔ عوامی مسائل پر کئی تحاریک التواء ، قرار دادوں پر بحث ہوئی ۔ وقفہ سوالات میں بھی ریکارڈ سوالوں کے جوابات دیئے گئے۔
گذشتہ دس سالہ کارکردگی کی بنیاد پر سندھ میں پیپلز پارٹی انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔ ان دس سالوں میں پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتیں اس کے لیے کوئی چیلنج پیدا نہیں کر سکی ہیں۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے پیر پگارا کی سربراہی میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) قائم کیا گیا ہے ۔ جی ڈی اے میں شامل سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے ایک ہی پلیٹ فارم سے مشترکہ انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے جی ڈی اے کو انتخابی نشان ( ستارہ ) الاٹ کر دیا ہے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے دھڑوں میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے انتخابات لڑیں گے ۔ سندھ کے باقی علاقوں میں پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑی ہے لیکن کراچی میں ایم کیو ایم کی دھڑے بندیوں کی وجہ سے بہت زیادہ گنجائش ہے ۔ کراچی میں سیاسی دنگل بہت دلچسپ ہو گا ۔ پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لیے انٹرویوز شروع کر دیئے ہیں ۔ تھوڑے عرصے میں سیاسی منظرنامہ مزید واضح ہو گا ۔
آئینی مدت پوری کرنے کے بعد سندھ اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے اور سندھ حکومت ختم ہو گئی ہے لیکن 28 مئی 2018 ء کی رات 12 بجے تک وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے مابین نگران وزیر اعلی کے لیے کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں نگران حکومت کے قیام میں مزید دو تین دن لگ سکتے ہیں لیکن سندھ میں سیاسی سرگرمیوں میں بہت تیزی آ گئی ہے۔
تحلیل ہونے والی سندھ اسمبلی کا پہلا اجلاس 29 مئی 2013 ء کو ہوا تھا جبکہ آخری اور الوداعی اجلاس 28 مئی 2018 ء کو منعقد ہوا۔ اس عرصے میں سندھ میں کوئی بڑا سیاسی بحران پیدا نہیں ہوا کیونکہ 2013 ء میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہونے سے حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کراچی میں گزشتہ تین عشروں سے جاری دہشت گردی اور خونریزی نے سندھ کی سیاست کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یہ بدامنی سندھ میں سیاسی بحرانوں کا سبب رہی اور اس بدامنی کو بعض قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ان پانچ سالوں کے دوران سندھ میں وزیر اعلی کی تبدیلی ہوئی لیکن اس تبدیلی کی وجہ پہلے کی طرح بدامنی یا دہشت گردی نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے 27 جولائی 2016 ء کو سید قائم علی شاہ کی جگہ سید مراد علی شاہ کو سندھ کا وزیر اعلی مقرر کیا۔ سید قائم علی شاہ اس سے پہلے بھی پانچ سال تک سندھ کے وزیر اعلی رہے۔ انہوں نے 6 اپریل 2008 ء سے 21 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیئے۔ پھر 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد انہیں دوبارہ یہ منصب سونپا گیا۔ وہ 30 مئی 2013 سے 25 جولائی 2016 تک کام کرتے رہے۔ اس طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کے دو ادوار حکومت میں انہوں نے 8 سال 2 ماہ تک یہ ذمہ داری سنبھالی۔ 1988 ء میں بھی وہ سندھ کے وزیر اعلی رہے۔ سید قائم علی شاہ کو نہ صرف تین مرتبہ سندھ کا وزیر اعلی بننے کا اعزاز حاصل رہا ہے بلکہ سندھ میں سب سے زیادہ عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کا اعزاز بھی ان کے پاس ہے۔
سید قائم علی شاہ کے دو ادوار حکومت انتہائی مشکل تھے کیونکہ کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ سید قائم علی شاہ نے اپنے تدبر اور تجربے سے بہت سے معاملات کو سنبھالا اور اپنے دوسرے اور تیسرے دور حکومت میں صوبے میں کوئی سیاسی بحران پیدا نہیں ہونے دیا ۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے منشور اور پالیسیوں کے مطابق صوبے کی ترقی، غربت کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کے لیے بھی بہت کام کیا۔ ان کی عمر کی وجہ سے شاید پیپلز پارٹی کی قیادت نوجوان سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلی سندھ کی ذمہ داریاں سونپیں۔ سید مراد علی شاہ نے دو سال سے بھی کم عرصے میں اپنی بھرپور توانائی، جوش اور ولولے کے ساتھ کام کیا اور پیپلز پارٹی کے مخالفین کو بھی باور کرا دیا کہ کام ہوا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی مسلسل 10 سال تک حکومت رہی ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنی دس سالہ کارکردگی کی بنیاد پر عوام میں جا رہی ہے۔ اگلے روز چیف منسٹر ہاؤس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ اور موجودہ وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے سندھ کی آخری حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دی ۔ اس بریفنگ میں سینئر صحافی بھی موجود تھے ۔ بریفنگ سے لوگوں کو احساس ہوا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں بہت کام کیے ہیں ۔ وہ کام نہ صرف کراچی بلکہ سندھ کے دیگر شہروں اور علاقوں میں نظر بھی آ رہے ہیں ۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سندھ اسمبلی کی کارکردگی بھی دیگر صوبائی اسمبلیوں سے بہت بہتر رہی کیونکہ سندھ میں سب سے زیادہ قانون سازی ہوئی۔ عوامی مسائل پر کئی تحاریک التواء ، قرار دادوں پر بحث ہوئی ۔ وقفہ سوالات میں بھی ریکارڈ سوالوں کے جوابات دیئے گئے۔
گذشتہ دس سالہ کارکردگی کی بنیاد پر سندھ میں پیپلز پارٹی انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔ ان دس سالوں میں پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتیں اس کے لیے کوئی چیلنج پیدا نہیں کر سکی ہیں۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے پیر پگارا کی سربراہی میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) قائم کیا گیا ہے ۔ جی ڈی اے میں شامل سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے ایک ہی پلیٹ فارم سے مشترکہ انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے جی ڈی اے کو انتخابی نشان ( ستارہ ) الاٹ کر دیا ہے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے دھڑوں میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے انتخابات لڑیں گے ۔ سندھ کے باقی علاقوں میں پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑی ہے لیکن کراچی میں ایم کیو ایم کی دھڑے بندیوں کی وجہ سے بہت زیادہ گنجائش ہے ۔ کراچی میں سیاسی دنگل بہت دلچسپ ہو گا ۔ پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لیے انٹرویوز شروع کر دیئے ہیں ۔ تھوڑے عرصے میں سیاسی منظرنامہ مزید واضح ہو گا ۔