کراچی میں مختلف جماعتوں کے کلین سوئپ کرنے کے دعوے
1987 سے 2015 تک ہونے والے انتخابات میں ایم کیو ایم کلین سوئپ کرتی آ رہی ہے
25 جولائی کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کے الیکشن ایک ہی دن ہوں گے، اس وقت پورے ملک کی نظریں کراچی کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں کہ یہاں کون سی جماعت سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔
کراچی میں کلین سوئپ کرنے کے دعوے مختلف سیا سی جماعتیں کر ر ہی ہیں، ان میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، پاک سرزمین پارٹی، ایم ایم اے سمیت دیگر جماعتیں کراچی میں بھرپور کامیابی کے دعوے کر رہی ہیں لیکن دیکھنا ہو گا کہ کون سی جماعت سب سے زیادہ کامیابی حاصل کرتی ہے،1987 سے 2015 تک ہونے والے تمام انتخابات میں ایم کیو ایم کلین سوئپ کرتی چلی آ رہی ہے لیکن 22 اگست 2016 سے صورت حال تبد یل ہو گئی، سیاسی ماہرین کے مطابق کراچی میں اس وقت بہت بڑا اسپیس موجود ہے، ایم کیو ایم کا ووٹر اس وقت شش و پنج کا شکار ہے، غیر متوازن صورت حال میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم ہونے کا امکان بھی لگتا ہے، کراچی میں تمام ہی سیا سی جماعتیں کلین سوئپ کے دعوے کر ر ہی ہیں، ایم کیو ایم پاکستان اس وقت 3 حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے جبکہ ایم کیو ایم لندن کے حمایتیوں کی جانب سے خاموشی ہے جبکہ پی آئی بی اور بہادر آباد سیٹوں کی تقسیم کی وجہ سے تقسیم دکھائی دیتی ہیں۔
دوسری طرف پیپلز پا رٹی ایم کیوایم کے زیر اثر علاقوں میں تیز ی سے دفاتر کھول رہی ہے اور کراچی میں پیپلز پارٹی کی قیادت پُر امید ہے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے نے بھی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں لیکن اب تک کر اچی میں کسی بھی سیاسی جماعت کی پوزیشن واضح نہیں، کراچی میں 30 سال بعد ایم کیو ایم بانی کے نام کے بغیر الیکشن میں حصہ لے گی، فی الحال کوئی امکان نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑے ایک پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیںجبکہ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا ہے، اس تمام صورت حال کا فائدہ پی ایس پی کو ہو سکتا ہے۔
کراچی کے 11 سے12حلقے ایسے ہیں جہاں 90 فیصد آبادی اردو بولنے والوں کی ہے اور ایم کیو ایم30 سال سے بلاشرکت غیر کراچی میں کامیابی حاصل کر تی چلی آر ہی ہے لیکن اس بار ایم کیو ایم نام سے الگ الگ گروپ انتخابات میں حصہ لیں گے، وہ علاقے جہاں ما ضی میں ایم کیوایم کے امیدواروں کے مقابلے میں 90 فیصد مخالفین کی ضمانت ضبط ہوجاتی تھی لیکن اس بار کورنگی، لانڈھی، ملیر شاہ فیصل کا لونی، لیاقت آباد ، نارتھ کر اچی، ناظم آباد، بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن ، عزیز آباد، نیو کر اچی میں اس بار کون جیتے گا۔
یہ بڑا سوالیہ نشان ہے، گلشن اقبال، ڈیفنس، کلفٹن ، پی آ ئی بی، بہادر آبا د، محمود آباد، سائٹ میٹروول اور کیماڑی یہ وہ حلقے ہیں جہاں کوئی بھی جماعت الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے، کراچی میں قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد21 ہے، 5 نشستوں پر پیپلز پارٹی کی جیت کا قوی امکان ہے جبکہ 16 نشستوں پر کوئی بھی جماعت کامیابی کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کر اچی میں اس بار دیکھنا ہو گا کہ نئی تار یخ رقم ہو گی یا پھر ماضی کی طرح ایکش ری پلے دیکھنے کو ملے گا۔
کراچی میں کلین سوئپ کرنے کے دعوے مختلف سیا سی جماعتیں کر ر ہی ہیں، ان میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، پاک سرزمین پارٹی، ایم ایم اے سمیت دیگر جماعتیں کراچی میں بھرپور کامیابی کے دعوے کر رہی ہیں لیکن دیکھنا ہو گا کہ کون سی جماعت سب سے زیادہ کامیابی حاصل کرتی ہے،1987 سے 2015 تک ہونے والے تمام انتخابات میں ایم کیو ایم کلین سوئپ کرتی چلی آ رہی ہے لیکن 22 اگست 2016 سے صورت حال تبد یل ہو گئی، سیاسی ماہرین کے مطابق کراچی میں اس وقت بہت بڑا اسپیس موجود ہے، ایم کیو ایم کا ووٹر اس وقت شش و پنج کا شکار ہے، غیر متوازن صورت حال میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم ہونے کا امکان بھی لگتا ہے، کراچی میں تمام ہی سیا سی جماعتیں کلین سوئپ کے دعوے کر ر ہی ہیں، ایم کیو ایم پاکستان اس وقت 3 حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے جبکہ ایم کیو ایم لندن کے حمایتیوں کی جانب سے خاموشی ہے جبکہ پی آئی بی اور بہادر آباد سیٹوں کی تقسیم کی وجہ سے تقسیم دکھائی دیتی ہیں۔
دوسری طرف پیپلز پا رٹی ایم کیوایم کے زیر اثر علاقوں میں تیز ی سے دفاتر کھول رہی ہے اور کراچی میں پیپلز پارٹی کی قیادت پُر امید ہے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے نے بھی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں لیکن اب تک کر اچی میں کسی بھی سیاسی جماعت کی پوزیشن واضح نہیں، کراچی میں 30 سال بعد ایم کیو ایم بانی کے نام کے بغیر الیکشن میں حصہ لے گی، فی الحال کوئی امکان نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑے ایک پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیںجبکہ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا ہے، اس تمام صورت حال کا فائدہ پی ایس پی کو ہو سکتا ہے۔
کراچی کے 11 سے12حلقے ایسے ہیں جہاں 90 فیصد آبادی اردو بولنے والوں کی ہے اور ایم کیو ایم30 سال سے بلاشرکت غیر کراچی میں کامیابی حاصل کر تی چلی آر ہی ہے لیکن اس بار ایم کیو ایم نام سے الگ الگ گروپ انتخابات میں حصہ لیں گے، وہ علاقے جہاں ما ضی میں ایم کیوایم کے امیدواروں کے مقابلے میں 90 فیصد مخالفین کی ضمانت ضبط ہوجاتی تھی لیکن اس بار کورنگی، لانڈھی، ملیر شاہ فیصل کا لونی، لیاقت آباد ، نارتھ کر اچی، ناظم آباد، بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن ، عزیز آباد، نیو کر اچی میں اس بار کون جیتے گا۔
یہ بڑا سوالیہ نشان ہے، گلشن اقبال، ڈیفنس، کلفٹن ، پی آ ئی بی، بہادر آبا د، محمود آباد، سائٹ میٹروول اور کیماڑی یہ وہ حلقے ہیں جہاں کوئی بھی جماعت الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے، کراچی میں قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد21 ہے، 5 نشستوں پر پیپلز پارٹی کی جیت کا قوی امکان ہے جبکہ 16 نشستوں پر کوئی بھی جماعت کامیابی کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کر اچی میں اس بار دیکھنا ہو گا کہ نئی تار یخ رقم ہو گی یا پھر ماضی کی طرح ایکش ری پلے دیکھنے کو ملے گا۔