بجلی کے لائن لاسز کے باعث قومی خزانے کو 360 ارب روپے سے زائد کا دھچکا
2014 سے 2016 کے دوران جینکوز کی ناقص حکمت عملی سے 15 ارب بجلی یونٹس کا نقصان ہوا، ذرائع پاور ڈویژن
رواں برس توانائی کے شعبے میں لائن لاسز میں کمی نہ ہونے کے باعث قومی خزانے کو 360 ارب روپے سے زائد دھچکا لگے گا.
پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق توانائی کے شعبے میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبوشن لاسز 17.8 فیصد تک پہنچ چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ لاسز میں صرف 1.2 فیصد کمی ہوسکی ہے۔ جینکوز کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں جی ٹی پی ایس کوٹری، جی ٹی پی ایس فیصل آباد اور ایس پی ایس فیصل آباد میں گیس سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹس اسٹینڈ بائی پر رہے جبکہ انہیں فعال کرکے بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا تھا اور شہریوں کو سستی بجلی کی فراہمی ممکن تھی۔
پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ 2014 سے 2016 تک کے درمیانی عرصے میں کراچی الیکٹرک سمیت دیگر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں (جینکوز) کی ناقص حکمت عملی سے 15 ارب بجلی یونٹس کا نقصان ہوا۔
پرفارمنس ایویلیویشن رپورٹ (پی ای آر) میں بتایا گیا ہے کہ جینکوز کے خراب ترسیلی نظام کی وجہ سے دو سال میں قومی خزانے کو 150 ارب روپے کا خسارہ ہوا تھا جو اب بڑھ کر 360 ارب روپے سے بھی تجاوز کر جائے گا۔نیپرا کے مطابق جینکوز میں حکومت کی کمزور عملداری، ناقص مٹیریل، ترسیلی نظام کی غیر تسلی بخش مرمت، شیڈول کی کمی، ناکافی تکنیکی مہارت اور نااہل انتظامیہ کے سبب نقصان ہوا۔
اسی طرح نیپرا نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ مذکورہ یونٹس بند ہونے کی وجہ سے 66 کروڑ 80 لاکھ یونٹس کی ترسیل متاثر ہوئی۔ نیپرا نے رپورٹ میں بتایا کہ جامشورو، مظفر آباد، فیصل آباد، نندی پور، گدو پر قائم جی ٹی پی ایس، سی سی پی پی اور ایس پی ایس کی جانب سے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی سے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور فعال کرنے کے دوران بھی مجموعمی طور پر 14 ارب 10 کروڑ 90 لاکھ یونٹ کی پیداوار میں ناکام رہے۔
پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق توانائی کے شعبے میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبوشن لاسز 17.8 فیصد تک پہنچ چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ لاسز میں صرف 1.2 فیصد کمی ہوسکی ہے۔ جینکوز کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں جی ٹی پی ایس کوٹری، جی ٹی پی ایس فیصل آباد اور ایس پی ایس فیصل آباد میں گیس سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹس اسٹینڈ بائی پر رہے جبکہ انہیں فعال کرکے بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا تھا اور شہریوں کو سستی بجلی کی فراہمی ممکن تھی۔
پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ 2014 سے 2016 تک کے درمیانی عرصے میں کراچی الیکٹرک سمیت دیگر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں (جینکوز) کی ناقص حکمت عملی سے 15 ارب بجلی یونٹس کا نقصان ہوا۔
پرفارمنس ایویلیویشن رپورٹ (پی ای آر) میں بتایا گیا ہے کہ جینکوز کے خراب ترسیلی نظام کی وجہ سے دو سال میں قومی خزانے کو 150 ارب روپے کا خسارہ ہوا تھا جو اب بڑھ کر 360 ارب روپے سے بھی تجاوز کر جائے گا۔نیپرا کے مطابق جینکوز میں حکومت کی کمزور عملداری، ناقص مٹیریل، ترسیلی نظام کی غیر تسلی بخش مرمت، شیڈول کی کمی، ناکافی تکنیکی مہارت اور نااہل انتظامیہ کے سبب نقصان ہوا۔
اسی طرح نیپرا نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ مذکورہ یونٹس بند ہونے کی وجہ سے 66 کروڑ 80 لاکھ یونٹس کی ترسیل متاثر ہوئی۔ نیپرا نے رپورٹ میں بتایا کہ جامشورو، مظفر آباد، فیصل آباد، نندی پور، گدو پر قائم جی ٹی پی ایس، سی سی پی پی اور ایس پی ایس کی جانب سے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی سے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور فعال کرنے کے دوران بھی مجموعمی طور پر 14 ارب 10 کروڑ 90 لاکھ یونٹ کی پیداوار میں ناکام رہے۔