جمہوریت اور وفاق کی اکائیوں میں یکجہتی

آج بلوچستان کے معاملات کو بھی طاقت کے ذریعے حل کرنے کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے.

جمہوریت کسی بھی متنوع معاشرے میں مختلف طبقات اور قومیتوں کو با اختیار بنا کر ایک حقیقی قومی یک جہتی پیدا کرتی ہے۔ پاکستان میں ہم نے اس فطری عمل سے ہمیشہ انحراف کیا اور وفاق میں موجود مختلف اکائیوں کو جمہوری عمل کے بجائے فوجی آپریشنز کے ذریعے متحد کر کے جعلی قومی یک جہتی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

ایک ایسی ہی کوشش کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹا اور بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔ آج بلوچستان کے معاملات کو بھی طاقت کے ذریعے حل کرنے کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے جس کے تباہ کن نتائج کے بارے میں عدالت عظمیٰ بار بار متنبہ کر چکی ہے۔ اس صوبے کے ناراض نوجوان مسلح مزاحمت کا راستہ اپنا رہے ہیں اور اس صوبے میں جمہوری سیاست کرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کو ان کی جانب سے سخت خطرات لاحق ہیں۔ یہ امر باعث طمانیت ہے کہ بلوچستان کی با اثر قوم پرست جماعتیں تا حال اپنے جمہوری اور قومی حقوق کے لیے پر امن جدوجہد کر رہی ہیں۔

بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ڈیتھ اسکواڈ کو بھی سیاسی عمل میں شریک کرنے اور سیاست میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ جب گزشتہ سال کے اواخر میں اپنی کئی سالہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئے تو انھوں نے بلوچستان کے موجودہ مسائل کے حل کے ضمن میں چھ نکات پیش کیے تھے اور کہا تھا کہ ان چھ نکات کو گزشتہ صدی کی 60ء کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمان کی طرف سے پیش کیے گئے چھ نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے۔ اتنے واضح اعلان کے باوجود بھی آج تک ان کے مطالبات پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

وہ ایک بار پھر پاکستان آ چکے ہیں۔ ان کی جماعت نے انتخابات 2013ء میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود طاقت ور حلقوں کے رویوں میں نمایاں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جناب اختر مینگل آج بھی اپنے پیش کیے گئے چھ نکات پر عملدرآمد کے خواہش مند ہیں۔ ان کے نزدیک بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ترقی کی خواہش یا معاشی بدحالی اور سماجی استحصال کے خاتمے سے کہیں زیادہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کے سلسلے کا ختم ہونا ہے۔

بلوچستان کی وہ سیاسی قیادت جسے ہم نے قوم پرست کہہ کر ہمیشہ ان کے قومی کردار کی نفی کی ہے آج حقیقی اور بامعنی مفاہمت کی پیشکش کر کے پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کے خاتمے اور قومی یکجہتی کے فروغ کا نادر موقع بھی فراہم کر رہی ہے۔ یہ بھی ایک توجہ طلب سوال ہے کہ آخر قومی یکجہتی کا مسئلہ پیش کیوں آتا ہے؟ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ جب ہم قومی سطح پر سماجی اور معاشی انصاف کرنے میں کتراتے ہیں اور یہ عمل اتنا واضح ہو جاتا ہے کہ جسے پوشیدہ رکھنا بھی ہمارے بس میں نہیں رہتا۔

سماجی اور معاشی ناانصافیوں کا شکار ہونے والے جب اپنے اوپر روا رکھے جانے والے ظالمانہ رویے پر احتجاج کرتے ہیں تو ابتدا میں اس احتجاج کو حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس کے رد عمل میں، احتجاج میں شدت پیدا ہوتی ہے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب معاملات پیچیدہ ہونے لگتے ہیں تو مسئلے کی جانب توجہ دی جاتی ہے۔


اس موقعے پر بھی سماجی اور معاشی ناانصافیوں کا رویہ ترک کر کے منصفانہ پالیسی اختیار کرنے کی بجائے حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو سمجھانے اور خاموش کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ اس غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ پالیسی کے نتیجے میں جب حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں اور ملک کی وحدت اور سلامتی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں تو پھر قومی یکجہتی کا خیال آتا ہے اور اس کے حصول کا سب سے آسان ذریعہ فوجی آپریشن میں تلاش کر لیا جاتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے سخت گیر رویے کو ترک کریں اور بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کریں۔

ملک میں ہمیشہ تمام مسائل کا سبب سیاسی حکومتوں کو قرار دینے والے عناصر آج بلوچستان کی صورتحال پر مضطرب ہیں کیونکہ وہاں کے حالات فوجی آمریت کی پیداوار ہیں۔ فوجی آمر نے اپنی تخلیق کردہ ''جمہوری حکومت'' کے مشوروں کو پست پشت ڈال کر بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا اور قابل احترام اور محب وطن سیاسی رہنما اکبر بگٹی کو شہید کر دیا لیکن ان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر عملدرآمد کو اپنی توہین تصور کیا۔

ان تلخ تجربات کے باوجود بلوچستان کی حقیقی عوامی قیادت تمام تر شکایات کے باوجود آج بھی ملک کی سیاسی قوتوں سے بات کرنے کو تیار ہے جن میں سرفہرست پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت کو داد دی جانی چاہیے کہ وہ ایک ایسے قومی رہنما ہیں جن کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے اور جس سے ماضی میں سب کو شکایات رہی ہیں۔ یعنی ون یونٹ کے زمانے میں جب سابقہ مشرقی پاکستان ایک یونٹ اور مغربی پاکستان دوسرا یونٹ ہوا کرتا تھا۔

آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے بڑا یونٹ تھا لیکن پیرٹی کے ذریعے اس کی عدد ی برتری کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کو پنجاب کی اشرافیہ سے شکایات تھیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ اسی طرح ملک کے دیگر چھوٹے صوبے جن میں خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان شامل ہیں، انھیں مختلف اوقات میں پنجاب سے شکایات رہی ہیں۔

لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت جس کے سربراہ کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے وہ اپنے سیاسی طرز عمل کی بدولت ملک کے تینوں چھوٹے صوبوں کے ساتھ مثالی سیاسی تعلقات کی بنیاد استوار کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلگتے بلوچستان کے سیاسی رہنما میاں نواز شریف پر کسی دوسرے سیاسی رہنما کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ یہی صورتحال دیگر وفاقی اکائیوں کی بھی ہے۔

یہ ہے سیاسی عمل کی قوت جو تمام تر اختلافات کے باوجود معاشرے کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی ارتقاء کو جاری رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس عمل کی بدولت اختلافات، نفرت میں تبدیل ہونے کے بجائے مثبت حل کی شکل اختیار کرتے ہیں اور ریاست میں پیدا ہونے والے بیگانگی کے جذبات حقیقی قومی یکجہتی کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر بلوچستان کی موجودہ صورتحال اور ملک کی سیاسی قیادتوں کی بصیرت کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی عمل کا فروغ اور اس کا استحکام ہی پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان محبت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

جمہوریت کے علاوہ دوسرا کوئی نظام قومی یکجہتی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ ہمارے پاس اب مستحکم جمہوری نظام کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود ہی نہیں ہے۔ جمہوریت کی کامیابی ہی بلوچستان کے محروم طبقات کے دکھوں کے مداوا کی آخری امید ہے۔ بصورت دیگر ہمیں سردار اختر مینگل کے ان جملوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان کے چھ نکات کو شیخ مجیب کے چھ نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے۔
Load Next Story