سچائی کمیشن
سچائی کمیشن کی اصطلاح استعمال کرنا نہایت آسان ہے، لیکن اس کے مفہوم اور تشریحات کا ادراک ایک الگ معاملہ ہے۔
TEHRAN:
پھر عرض ہے کہ آج کی دنیا معلومات کی تشہیرکی دنیا ہے۔ کسی ایک ذریعے سے کوئی خبر چھپائی جاتی ہے، تو دوسرے کئی ذرائع اسے منظر عام پر لے آتے ہیں ۔ آج بات ہی نہیں خود انسان کا دنیاکی نظروں سے چھپنا ممکن نہیں ہے ۔
ترقی یافتہ جمہوری دنیا نے بہت پہلے فیصلہ کرلیا تھا کہ ہر ریاستی راز کو30 برسوں بعد منظر عام پر لے آیا جائے گا، تاکہ عوام کو ان فیصلوںاور اقدامات کے بارے آگہی حاصل ہوسکے ، جو ان کی حکومتوں اور متعلقہ اداروں نے ریاست کے وسیع تر مفاد میں کیے تھے، مگرغیر جمہوری اور ہمارے جیسے نیم جمہوری ممالک جہاں جمہوریت تلوار کی نوک پر جھولتی رہتی ہے، ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سازشی تھیوریاں ہی جنم لیتی ہیں۔
حال ہی میں ہماری اہم خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی، جن پرماضی میںدائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو رشوت دے کرایک ایسا سیاسی اتحاد بنانے کا الزام ہے، جس کا مقصد بینظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرنا تھا ۔ان کے خلاف مقدمہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے، جس نے FIAکو اس معاملے کی مزید تحقیق کی ذمے داری سونپی ہے۔ وہ اب ایک نئے تنازع کا شکار ہوگئے ہیں ۔
بھارتی خفیہ ایجنسی کے سربراہ امر جیت سنگھ دولت کے ساتھ ان کی مختلف شہروں میں ملاقات کے دوران تحریر کردہ کتاب نے بعض ایسے حساس معاملات چھیڑ دیے ہیں، جو پاکستانی عوام بالخصوص متوشش شہریوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔جن کی حقیقت اور سچائی منظر عام پر آنا ملک کے وجود اور بقا کی خاطر ضروری ہے ۔ اس حوالے سے عام شہریوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ دو بڑے Spy Mastersکی گفتگو پر مبنی کتاب منظوری کے بغیر ممکن نہیںہے۔ پھر جس انداز میں بھارت میں اس کے اجرامیں سابق وزیر اعظم سمیت دیگر اہم شخصیات شریک ہوئیں، اس سے یہی تاثر ملتاہے۔
لیکن گذشتہ پیر کو جب جنرل (ر) درانی کو فوجی ہیڈکوارٹر طلب کر کے ان سے مذکورہ کتاب کے بارے میں وضاحتیں طلب کی گئیں، تو شکوک وشبہات کے بادل چھٹنا شروع ہوئے ، پھر ان وضاحتوں سے غیر مطمئن ہونے کے بعد یہ طے کیا گیا کہ لیفٹینٹ جنرل کے عہدوں کے افسران پر مشتمل ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی ان سے اس حوالے سے تفتیش کرے ۔ ISPR کے ٹیوٹر کے مطابق حکومت سے ان کا نامECLمیں ڈالنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنرل موصوف نے اپنے ادارے کو اعتماد میں لیے بغیر اس کتاب کی تیاری میں حصہ لیا ۔ جس نے معاملے کی حساسیت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
اس کتاب کے اجرا اور اس میں کیے گئے انکشافات کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ایک اعلیٰ سطح کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک وسیع البنیادسچائی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو 1947 سے تا دم تحریر رونما ہونے والے تمام اہم قومی نوعیت واقعات وسانحات کی تحقیق وتفتیش کرے گا۔ اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔
اول، جب فوج خود اپنے جرنیل کے اس حالیہ اقدام کے خلاف تحقیق وتفتیش کررہی ہے، توکیا ایک نئے کمیشن کا قیام معاملات کو الجھانے کا باعث نہیں بنے گا؟ دوئم، کیا اس اظہاریے کے اشاعت کے روز (31مئی ) قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرکے تحلیل اور وزیراعظم سبک دوش ہوجائیں گے،تو کیا وہ ایک ایسا کمیشن تشکیل دینے کے مجاز ہوں گے۔
اب جہاں تک کمیشنوں کے قیام اور ان کی جانب سے پیش کردہ سفارشات اور تجاویزکا تعلق ہے، توگزشتہ اکہتر برسوں کے دوران کسی بھی کمیشن کی جانب سے پیش کی گئی ایک بھی سفارش پر عمل درآمد نہیں ہوا، بلکہ کچھ عرصے بعد ان کمیشنوں کی رپورٹوں کو داخل دفتر کردیا جاتا ہے۔ یہ طے ہے کہ وطن عزیز میں جو بڑے بڑے سانحات اور بدترین واقعات رونما ہوئے ہیں، ان پر معروضی، حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں تحقیق و تفتیش کرنے کے بعد پیش کردہ تجاویز وسفارشات پر عمل کرلیا جاتا تو بہت سے یکساں نوعیت کے واقعات سے بچنے کے قوی امکانات پیدا ہوسکتے تھے ۔
سچائی کمیشن کی اصطلاح استعمال کرنا نہایت آسان ہے، لیکن اس کے مفہوم اور تشریحات کا ادراک ایک الگ معاملہ ہے۔ جب بھی سچائی کمیشن کی اصطلاح سامنے آتی ہے تو جنوبی افریقہ کے بطل حریت آنجہانی نیلسن منڈیلاکی جانب سے قائم کردہ سچائی اور مفاہمتی کمیشن ذہن میں آتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی افریقہ 1960سے1995تک کوئی35 برس بدترین نسلی منافرت(Apartheid)کاشکار رہا ۔
نیلسن منڈیلا نے اقتدار میں آنے کے بعد اس بدترین نسلی منافرت اورانسانی حقوق کی پامالی کے حقائق جاننے کے لیے آئین کے آرٹیکل 34کے تحت سچائی اور مفاہمتی کمیشن تشکیل (Truth & Reconciliation Commission)دیاتھا۔ جس نے1996میں اپنا کام شروع کیا اور دو برسوں میں نسلی منافرتوں کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا۔اس کے بعد ان کی حکومت نے مفاہتی پالیسی کے تحت عام معافی دے کر ملک کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کیا۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر اگر نیلسن منڈیلا 35 برسوںکے دوران کی جانے والی بدترین نسلی منافرت کے ذمے داروں کو سزا دینے کا فیصلہ کرتے، تو ملک میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں اور ایک نئی منافرت جنم لیتی۔ مگر اس عظیم انسان کو اپنے ملک کے عوام اور ان کی ترقی عزیز تھی، اس لیے اس نے یہ جتا دیا کہ ظلم و زیادتیوں کی ذمے داری کن اداروں اورکن افراد پر عائد ہوتی ہے، مگر ساتھ ہی عام معافی کا اعلان کرکے عظیم روایات کو دہرا دیا۔ جو اس عظیم شخص کا عظیم کارنامہ تھا۔
اگرآئین و قانون کی خلاف ورزیوں کے مختلف واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے، صرف حقوق انسانی کی پامالی، عوام کو ان کے بنیادی شہری حقوق سے محروم رکھنے اور سیاسی عمل میں مداخلت جیسے سنگین واقعات کو اس کمیشن کے دائرہ کار میں لایا جائے، تو یہ بھی اتنے طویل معاملات ہیں کہ ان کی کارروائی کے لیے کئی سال درکار ہوں گے، کیونکہ وطن عزیز میں مختلف نوعیت کی اندرون خانہ سازشوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا خاصی حد تک مشکل ہے، مگر سیاسی عزم و بصیرت ہو تو چند واقعات کو نظیر بناتے ہوئے دیگر واقعات کے بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے۔
یہ طے ہے کہ پاکستان میں ایک ایسے کمیشن کی بہر حال وقت کی ضرورت ہے، جو 1947سے اب تک ہونے والے ان واقعات کے بارے میں غیر جانبداری اور بااختیاریت کے ساتھ تحقیق و تفتیش کرے، جن کی وجہ سے جمہوریت کو نقصان پہنچا، ملک دولخت ہوا، عوام کے مختلف مواقعے پر حقوق سلب ہوئے اور سب سے بڑھ کر ملک میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلی و لسانی عصبیتوں کو فروغ دے کر جناح کے تصور پاکستان کی نفی کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی ۔ یہ بھی طے ہے کہ با اثر اور طاقتور حلقے اس کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد میں حسب روایت مزاحمت کریں گے، لیکن اگر دیانتداری کے ساتھ اس کی رپورٹس منظر عام پر آنے دی جائیں، تو عوام خود مقتدر اشرافیہ کا گریبان پکڑ کر ان سے حساب لے لیں گے۔