سب بکواس ہے
کبھی عام عدالتوں کے باہر جا کر دیکھا ہے کہ کتنی بیٹیاں باہر دھوپ میں کھڑی اپنے باپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
یہ کیڑے مکوڑے، اسپتال میں دس روپے کی دوا کے لیے گھنٹوں لائن میں لگے رہیں تو بھاڑ میں جائیں ۔ میں اپنی چمکتی، چمچماتی ہوئی گاڑی میں جھنڈا لگا کر ''ہٹو بچو'' کی آواز لگاتا رہوں گا، لیکن جب مجھے باہر جانا ہو اور یہ فرسودہ نظام میرے پاؤں کی بیڑی بن جائے تو مجھے یاد آجائے گا کہ جمہوریت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ میں جمہوریت کا سب سے بڑا چمپئین بن جاؤں گا۔
سالوں میرا کیڑے مکوڑوں کا مقدمہ عدالت میں چلتا رہے گا۔ نسلوں تک تاریخ پر تاریخ ملتی رہے گی۔کبھی وکیل نہیں آیا توکبھی جج کی چھٹی ہے۔کبھی گواہ بیمار ہے توکبھی ہڑتال ہے۔اُس وقت میں اپنے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اپنی سالگرہ کا کیک کاٹ رہا ہوں گا۔
کوئی ٹی وی چینل کوئی اخبار جب یہ خبر لگائے گا کہ عوام کا کوئی پوچھنے والا نہیں تو میں اپنے ماتحت سے یہ بیان جاری کراؤں گا کہ بادشاہ سلامت نے نوٹس لے لیا ہے اور پھر سب بھاڑ میں جائے، لیکن جب میں اسی ظلم کا حساب دینے جاؤں گا تو مجھے یاد آجائے گا کہ معاشرے میں کتنا ظلم ہو رہا ہے۔
مگر جب میں با اختیار تھا اور یہ کیڑے مکوڑے دس روپے کی دوا کے لیے در درکی ٹھوکریں کھا رہے تھے توکاش میں انھیں نظام کا شہد دیتا تو آج یہ میرے گرد چکر لگا رہے ہوتے۔ مجھے بار بار یہ نعرہ نہیں لگانا پڑتا کہ کیا میرا ساتھ دوگے؟ اگر میں نے انھیں جلد انصاف دینے کا بندوبست کیا ہوتا تو آج ان لوگوں کو نعرے نہیں دینے ہوتے۔ آج انھیں یہ یاد نہیں دلانا ہوتا کہ میری بیٹی کے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ آج بیٹی کارڈ نہیں کھیلنا ہوتا۔ کبھی عام عدالتوں کے باہر جا کر دیکھا ہے کہ کتنی بیٹیاں باہر دھوپ میں کھڑی اپنے باپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
چمکتی ہوئی گاڑی میں، نئے اسٹائل کے کپڑوں میں میچنگ جوتوں کے ساتھ،کبھی اس دکھ کا اندازہ کیا ہے جو اُس بیٹی کو سہنا پڑتا ہے جس کا باپ لاپتہ ہوتا ہے۔ اس دکھ کا اندازہ تو ابھی ہوا ہی نہیں ہے۔ بس ایک روز چمکتی ہوئی گاڑی کی بجائے چنگ چی رکشے میں عدالت پہنچ کر دیکھیں۔ دروازے سے کورٹ عمارت تک دھوپ میں سفرکرکے دیکھیں۔ پولیس کے پروٹوکول کے بغیر پولیس کا رویہ آزما کر دیکھیں، پھر وکیل، جج اورگواہ کے انتظار میں دھوپ میں لگے بینچ پر بیٹھ کر سمجھیں کہ انصاف کیا چیز ہوتی ہے۔
جب سورج جسم کو پگھلا رہا ہو، انتظار حد سے بڑھ رہا ہو، سالوں سے ہر ہفتے پیشی کے لیے جگہ جگہ پیسے خرچ کرنے پڑرہے ہو اورآج پھر اگلی تاریخ مل رہی ہو تو اُس وقت دل سے نکلتی ہوئی بد دعا کو محسوس کیجیے اور پھر اپنی شاہی پیشی کو دیکھیں اور پھر بیٹی کارڈ کھیلیں۔کاش اُس وقت یہ کہا جاتا کہ آج مجھے اپنی بیٹی کوکٹہرے میں دیکھ کر افسوس ہوا۔ اب میں اس ملک کی ہر بیٹی کو جلد انصاف دلاؤں گا۔ اس ملک کی کسی بیٹی کو پیشی کے دوران اُس نظروں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو اُسے زندہ مار دیتی ہیں۔ اب کوئی بیٹی تاریخ پر تاریخ نہیں پائے گی۔کاش آپ اُس وقت نہ کہتے کہ بھاڑ میں جائے۔
آپ کہتے ہیں کہ کوئی آپ کو سبق سکھا رہا ہے اس لیے آپ کی پیشی پر پیشی لگ رہی ہے۔ آپ اس عوام کو تو بتا دیں کہ یہ کس جرم کی سزا پا رہے ہیں ۔ جو انھیں تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔ ان کی نسلوں نے ایسا کیا جرم کیا ہے جو سزا ختم ہی نہیں ہورہی ہے ۔ آپ نے کاش بس اتنا ہی کردیا ہوتا کہ جو بیٹیاں اپنے گھروں سے انصا ف کے لیے نکلتی ہیں انھیں ایک چھتری ہی دے دیتیںکہ سورج کی آگ سے تحفظ مل جاتا۔
میں یوں تو ایسی کئی بیٹیوں کو جانتا ہوں جو انصاف کے لیے جھولی پھیلا پھیلا کر بددعا دیتی ہے، مگرکیونکہ آپ لوگ اپنے عیش سے لے کر بیماری تک کو بیچتے ہیں۔اس لیے آپ کو احساس ہی نہیں ہو سکتا، مگر پتہ نہیں کیوں مجھے کچھ دن یاد آجاتے ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کے ساتھ کیا ہوا تھا، کیا وہ عورت نہیں تھی۔ کیا وہ کسی کی بیٹی نہیں تھی۔ اُسے کون سبق سکھا رہا تھا اور آپ خاموش تھیں۔کیا آپ کو شرمیلا فاروقی یاد ہے۔ اُسے جب آپ کے دور حکومت میں سبق سیکھایا جارہا تھا تو وہ کسی کی بیٹی نہیں تھی۔ 5 نومبر 1997ء کو جب فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کیا تو کوئی یہ بتاسکتا ہے اُس وقت تین بچوں کی ماں کوکس نے نظر بند کیا تھا۔ اُس وقت وہ کسی کی بیٹی نہیں تھی؟ اُس پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے تھے کیا وہ کسی بیٹی نہیں تھی۔
ہمیں عورت، ماں، بیٹی، بہن کا خیال اُس وقت کیوں آتا ہے جب اپنے دامن میں آگ لگتی ہے یا پھر اس کارڈ کو بھی کھیلا جارہا ہے۔ کیا اس سے بھی کوئی سیاسی فائدہ لیا جا رہا ہے؟کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔ ہزارہ کمیونٹی کی بچیوں نے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ یہ بچیاں اپنے بھائی، باپ اور شوہرکی زندگیوں کے تحفظ کے لیے سڑک پر بیٹھی تھی۔ کیا آپ ان کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے گئے۔کیا آپ نے دو لفظ بولے ان کے لیے؟ کیا یہ کسی کی بیٹیاں نہیں ہیں؟
خیر جانے دیجیے۔ بات کو بڑھانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ یہ بتائیں کہ آپ کے پاس اپنی مظلومیت کا کارڈ بیچنے کے علاوہ کوئی فارمولا ہے؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا نسخہ ہے جس کے ذریعے اب کسی کی بیٹی کو تاریخ پر تاریخ نہ ملے؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا فارمولا ہے کہ کسی کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے کچہری کے چکر نہ لگائے جائیں۔کیا آپ کے پاس ایسی کوئی دوا ہے کہ کسی غریب باپ کو سبق سکھانے کے لیے اُس کی بیٹی کو ونی نہ کیا جائے؟
ظلمت ِ شب میں کسی کے پاس کوئی چراغ ہے جو ایسا روشن ہوکہ کیڑے مکوڑے دوا کے لیے نہ ترسیں ۔ سب اپنے اوپر ہونے والی کہانی کو بیچ رہے ہیں اور ہم سب کے ساتھ لبیک اس لیے کہہ بیٹھتے ہیں کہ ان کا دکھ اپنا جیسا لگنے لگتا ہے اور یہ امید ہو جاتی کہ شاید ، شاید اب یہ لوگ اقتدار میں آکر نظام بدلیں گے ۔ ہر بچے کے ہاتھ میں قلم ہوگا، ہر بھوکے کوکھانا ملے گا، ہر نوجوان کے پاس نوکری ہوگی، ہرگھر میں دیا جلے گا، ہر مریض کو دوا ملے گی، ہر سائل کو فوری اور سستا انصاف ملے گا، لیکن ووٹ کی پرچی ڈبے میں جانے کے بعد سارے خواب مٹی میں مل جاتے ہیں اور پھر جنھیں عزت دینے کی بات کی جاتی ہے انھی کو بھاڑمیں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم ان کا دکھ اپنا سمجھ کر اپنے کُل کا انھیں مالک بنا دیتے ہیں ، لیکن ہمارا دکھ کیوں نہیں سمجھا جاتا؟
70 سال سے ایک جیسی کہانی کو بار بار دہرایا جاتا ہے ۔ نام بدل کر وہ ہی چہرے مسلط ہوجاتے ہیں۔ کبھی کوئی مظلومیت کا کارڈ کھیلتا ہے توکوئی زبان کا۔کسی کو مذہب کے نام پر سیاست یاد آتی ہے توکوئی اسٹیبلشمنٹ سے ڈسنے کا رونا روتا ہے۔کوئی احتساب کے نام پر جادوکی چھڑی دکھاتا ہے توکوئی پڑوس کی دشمنی بیچتا ہے۔
اور جہاں تک بات رہ گئی نگراں حکومت کی، تو آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ 5 نومبر 1997 ء کو ملک معراج خالد کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا۔ ماضی کا ریکارڈ دیکھ کر یہ کہا جا رہا تھا کہ ان سے صاف ستھرا آدمی کوئی ہوہی نہیں سکتا۔ وہ ٹریفک سگنل پر رک جاتے تھے۔کوئی پروٹوکول نہیں لیتے۔ جہاز میں عوامی طریقے سے سفرکرتے تھے۔ سارے مبینہ صاف شفاف لوگوں کوکابینہ میں رکھا گیا۔
نواز شریف نے اسی دن پریس کانفرنس میں کہا کہ انھیں معراج محمد خان پر پورا یقین ہے اور پھر نواز شریف بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گئے۔کیا یہ الیکشن صاف شفاف تھا۔ اس الیکشن کو نام نہاد صاف شفاف بنانے میں معراج خالد اور ان کی کابینہ کوئی کردار تھا؟ پاکستان کی تاریخ میں نگراں حکومت کا الیکشن میںکسی کا ماحول بنانے میں کتنا ہاتھ ہوتا ہے؟ کیا الیکشن میں جیت کا ماحول بنا دیا گیا ہے؟ تین انتخابات سے پہلے نواز شریف کی حمایت میں ماحول تھا لیکن اس بار یہ نظر نہیں آرہا ہے اور اسی لیے بیٹی سے لے کر مظلومیت تک کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے ۔ باقی سب جائے بھاڑ میں۔