منزل انھیں ملی…
’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کرنے والے کو اپنی بیٹی عدالت کے کٹہرے میں آنے پر دکھ ہو رہا ہے۔
KARACHI:
جب ہم جرنلزم جوکہ ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں تبدیل ہوگیا تھا، ماسٹرز کر رہے تھے تو ہر طالب علم کے اندر ایک جذبہ تھا ایک لگن تھی کہ ہم سب مل کر معاشرے کو تبدیل کریں گے مثبت سوچ کو وسیع کریں گے صحافت کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں لائیں گے زرد صحافت کی طرف تو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں گے بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر تو ہمارے ہی ہاتھوں ہوگا۔ طلبا کے گروپ بیٹھ کر یہی باتیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ بس ماسٹر مکمل کرنے کی دیر ہے پھر ہم سب ہوں گے اور میڈیا ہوگا مگر ہر خواب کی تعبیر وہ نہیں ہوتی جو کہ ہم سوچتے ہیں۔
آج جب میں مختلف چینلز پر ایسے لوگوں کو رپورٹنگ کرتے دیکھتی ہوں جن کو الفاظ کے چناؤکا پتہ نہیں، بولنے کے انداز کو دیکھیں تو لگتا ہے لڑ رہے ہیں، ہر خبر کو دیتے وقت جو جذباتی انداز ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی ذاتی رائے بھی شامل کرتے جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ بغیر کسی ٹریننگ کے اس کار دراز میں قدم رکھ دیا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ کاش ہم بھی اپنا وقت آنرز، ماسٹر وغیرہ کرنے میں ضایع نہ کرتے۔
ہمیں محمود غزنوی، طاہر مسعود، انعام باری جیسے اساتذہ نے خبر بنانا، خبر پڑھنا، پیش کرنے کا انداز، لکھنے کے طریقے اس طرح بتائے کہ لگتا تھا کہ گھول کر پلا دیے۔ مگر منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ یہ مسئلہ صحافت میں ہی نہیں ہر جگہ بہ وبا تیزی سے پھیل رہے ہیں کہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جوکچھ نہیں جانتے۔ وہ تحریر و ہنر کے فن سے ناواقف ہیں۔
سیاست کا معاملہ ہی لے لیں ایسے ایسے نااہل کردار اپنی شعلہ بیانی کے زور پر اپنے آپ کو اہل ثابت کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں کہ سیاق و سباق ہی بھول گئے ہیں۔ یہاں تک یاد داشت خراب ہوگئی ہے کہ یہ بھی بھول گئے کہ ہم کن لوگوں کے کندھوں پر سوار ہوکر اس مقام تک پہنچے ہیں۔ 3 مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے ببانگ دہل اعلان کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہم اقتدار میں آکر ملک کو امریکا کے ہم پلہ کردیں گے ۔
حیرت ہوتی ہے کہ صحافیوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان تقاریر کے دوران موجود ہوتے ہیں کوئی یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتا کہ پچھلے سالوں میں آپ نے کیا کیا؟ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرنے والوں کی اپنی حکومت ختم ہوگئی مگر لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم نہ ہوا۔
ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اللہ نہ کرے بلیک لسٹ میں جانے کا عذاب سر پر سوار ہے مگر اقتدار کی ہوس میں یہ سیاستدان اپنے ہی ملک کے رازوں کو سرعام کھول کر ملک کی خدمت نہیں بلکہ ملک دشمنوں کی کمر ٹھونک رہے ہیں، انھیں شادیانے بجانے کا موقعہ دے رہے ہیں۔ آج جو مشرف کے خلاف بول رہے ہیں مگر عوام کی رائے پوچھی جائے تو انھیں مشرف کے دور کی خوبیاں نظر آئیں گی کیونکہ جمہوریت کے دور میں آٹا 45 اور مشرف کے دور میں 16 روپے تھا ۔
غریب آدمی کا پیٹ آسانی سے بھر جاتا تھا، انھیں سیاست کی باریکیوں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا عوام کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے والے کی طرف جھکاؤ محسوس ہوتا ہے۔ آج یہ حال ہے کہ حکومت اپنی مگرکردار اپوزیشن کا ادا کر رہے ہیں، باقی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمی تغیرات آرہے ہیں ۔ مئی کے سخت ترین گرم دنوں میں روزوں کی حالت میں عوام گرمی کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کا عذاب سہہ رہے ہیں ۔
پیپلز پارٹی ہو یا (ن) لیگ۔ ابھی تو عنان حکومت ان کے ہاتھوں سے جانے والی ہے مگر جانے سے پہلے کسی نے Kالیکٹرک، واپڈا کی اصلاح کی اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے کچھ انتظامات کیے، اربوں کھربوں روپیہ جلسوں میں پھونک کر عوام کو طفل تسلیاں دینے والے ایک لمحے کے لیے بھی اس سوچ کو پروان چڑھائیں کہ سیاست عوام کی خدمت کا دوسرا نام ہے ''مجھے کیوں نکالا'' کی گردان کرنے والے کو اپنی بیٹی عدالت کے کٹہرے میں آنے پر دکھ ہو رہا ہے ملک کی ہزاروں بیٹیاں انھی عدالتوں میں سالہاسال سے دھکے کھا رہی ہیں کبھی ان کے لیے بھی کوئی آئین اور قانون میں ترمیم ہوئی جس سے ان کے لیے کوئی ریلیف ملے، جب بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے لیے نازیبا اشتہارات ہیلی کاپٹروں سے برسائے گئے ان کی کردار کشی کی گئی جب خیال نہیں آیا کہ یہ بھی کسی کی بیٹیاں ہیں بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ مکافات کبھی رکتا نہیں۔ اس لیے سوچ لینا چاہیے کہ ماضی میں ہم نے کیا بویا تھا جس کی فصل ہم آج کاٹ رہے ہیں۔ عمران خان کو لاڈلہ کہنے والے ذرا غور کریں کہ لاڈلے تو آپ ہیں کہ اتنی ہرزہ سرائی کے باوجود آپ کو چھوٹ ملی ہوئی ہے لاف زنی جاری ہے بلکہ دراز ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی کے ایک لیڈر نے تو فوج کے خلاف کہنے کا ایسا نتیجہ بھگتا کہ باوجود معافی کے آج بھی پابندی کا شکار ہیں پارٹی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی مگر معافی نہ ملی مگر ان کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ جو چاہیں کہیں ۔ مجھے تو حیرت وزیر اعظم کے کردار پر ہوتی ہے کہ ملک کے جلیل القدر عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قومی سلامتی کے اجلاس میں کچھ کہتے ہیں اور باہر آکر کچھ۔ اس دہرے معیار پر تو ان کو خود استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا مگر یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں کی مکمل تصویر بنے بیٹھے ہیں۔نگراں حکومت آنے میں کچھ ہی دن رہ گئے ہیں مگر یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا، اسے بٹھانے کے لیے بڑی تگ و دو جاری ہے دیکھیں ہما کس کے سر پر بیٹھتا ہے۔ ہم غریبوں کے سر پر تو بیٹھنے سے رہا۔
جب ہم جرنلزم جوکہ ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں تبدیل ہوگیا تھا، ماسٹرز کر رہے تھے تو ہر طالب علم کے اندر ایک جذبہ تھا ایک لگن تھی کہ ہم سب مل کر معاشرے کو تبدیل کریں گے مثبت سوچ کو وسیع کریں گے صحافت کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں لائیں گے زرد صحافت کی طرف تو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں گے بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر تو ہمارے ہی ہاتھوں ہوگا۔ طلبا کے گروپ بیٹھ کر یہی باتیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ بس ماسٹر مکمل کرنے کی دیر ہے پھر ہم سب ہوں گے اور میڈیا ہوگا مگر ہر خواب کی تعبیر وہ نہیں ہوتی جو کہ ہم سوچتے ہیں۔
آج جب میں مختلف چینلز پر ایسے لوگوں کو رپورٹنگ کرتے دیکھتی ہوں جن کو الفاظ کے چناؤکا پتہ نہیں، بولنے کے انداز کو دیکھیں تو لگتا ہے لڑ رہے ہیں، ہر خبر کو دیتے وقت جو جذباتی انداز ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی ذاتی رائے بھی شامل کرتے جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ بغیر کسی ٹریننگ کے اس کار دراز میں قدم رکھ دیا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ کاش ہم بھی اپنا وقت آنرز، ماسٹر وغیرہ کرنے میں ضایع نہ کرتے۔
ہمیں محمود غزنوی، طاہر مسعود، انعام باری جیسے اساتذہ نے خبر بنانا، خبر پڑھنا، پیش کرنے کا انداز، لکھنے کے طریقے اس طرح بتائے کہ لگتا تھا کہ گھول کر پلا دیے۔ مگر منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ یہ مسئلہ صحافت میں ہی نہیں ہر جگہ بہ وبا تیزی سے پھیل رہے ہیں کہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جوکچھ نہیں جانتے۔ وہ تحریر و ہنر کے فن سے ناواقف ہیں۔
سیاست کا معاملہ ہی لے لیں ایسے ایسے نااہل کردار اپنی شعلہ بیانی کے زور پر اپنے آپ کو اہل ثابت کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں کہ سیاق و سباق ہی بھول گئے ہیں۔ یہاں تک یاد داشت خراب ہوگئی ہے کہ یہ بھی بھول گئے کہ ہم کن لوگوں کے کندھوں پر سوار ہوکر اس مقام تک پہنچے ہیں۔ 3 مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے ببانگ دہل اعلان کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہم اقتدار میں آکر ملک کو امریکا کے ہم پلہ کردیں گے ۔
حیرت ہوتی ہے کہ صحافیوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان تقاریر کے دوران موجود ہوتے ہیں کوئی یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتا کہ پچھلے سالوں میں آپ نے کیا کیا؟ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرنے والوں کی اپنی حکومت ختم ہوگئی مگر لوڈ شیڈنگ کا عذاب ختم نہ ہوا۔
ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اللہ نہ کرے بلیک لسٹ میں جانے کا عذاب سر پر سوار ہے مگر اقتدار کی ہوس میں یہ سیاستدان اپنے ہی ملک کے رازوں کو سرعام کھول کر ملک کی خدمت نہیں بلکہ ملک دشمنوں کی کمر ٹھونک رہے ہیں، انھیں شادیانے بجانے کا موقعہ دے رہے ہیں۔ آج جو مشرف کے خلاف بول رہے ہیں مگر عوام کی رائے پوچھی جائے تو انھیں مشرف کے دور کی خوبیاں نظر آئیں گی کیونکہ جمہوریت کے دور میں آٹا 45 اور مشرف کے دور میں 16 روپے تھا ۔
غریب آدمی کا پیٹ آسانی سے بھر جاتا تھا، انھیں سیاست کی باریکیوں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا عوام کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے والے کی طرف جھکاؤ محسوس ہوتا ہے۔ آج یہ حال ہے کہ حکومت اپنی مگرکردار اپوزیشن کا ادا کر رہے ہیں، باقی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمی تغیرات آرہے ہیں ۔ مئی کے سخت ترین گرم دنوں میں روزوں کی حالت میں عوام گرمی کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کا عذاب سہہ رہے ہیں ۔
پیپلز پارٹی ہو یا (ن) لیگ۔ ابھی تو عنان حکومت ان کے ہاتھوں سے جانے والی ہے مگر جانے سے پہلے کسی نے Kالیکٹرک، واپڈا کی اصلاح کی اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے کچھ انتظامات کیے، اربوں کھربوں روپیہ جلسوں میں پھونک کر عوام کو طفل تسلیاں دینے والے ایک لمحے کے لیے بھی اس سوچ کو پروان چڑھائیں کہ سیاست عوام کی خدمت کا دوسرا نام ہے ''مجھے کیوں نکالا'' کی گردان کرنے والے کو اپنی بیٹی عدالت کے کٹہرے میں آنے پر دکھ ہو رہا ہے ملک کی ہزاروں بیٹیاں انھی عدالتوں میں سالہاسال سے دھکے کھا رہی ہیں کبھی ان کے لیے بھی کوئی آئین اور قانون میں ترمیم ہوئی جس سے ان کے لیے کوئی ریلیف ملے، جب بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے لیے نازیبا اشتہارات ہیلی کاپٹروں سے برسائے گئے ان کی کردار کشی کی گئی جب خیال نہیں آیا کہ یہ بھی کسی کی بیٹیاں ہیں بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ مکافات کبھی رکتا نہیں۔ اس لیے سوچ لینا چاہیے کہ ماضی میں ہم نے کیا بویا تھا جس کی فصل ہم آج کاٹ رہے ہیں۔ عمران خان کو لاڈلہ کہنے والے ذرا غور کریں کہ لاڈلے تو آپ ہیں کہ اتنی ہرزہ سرائی کے باوجود آپ کو چھوٹ ملی ہوئی ہے لاف زنی جاری ہے بلکہ دراز ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی کے ایک لیڈر نے تو فوج کے خلاف کہنے کا ایسا نتیجہ بھگتا کہ باوجود معافی کے آج بھی پابندی کا شکار ہیں پارٹی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی مگر معافی نہ ملی مگر ان کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ جو چاہیں کہیں ۔ مجھے تو حیرت وزیر اعظم کے کردار پر ہوتی ہے کہ ملک کے جلیل القدر عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قومی سلامتی کے اجلاس میں کچھ کہتے ہیں اور باہر آکر کچھ۔ اس دہرے معیار پر تو ان کو خود استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا مگر یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں کی مکمل تصویر بنے بیٹھے ہیں۔نگراں حکومت آنے میں کچھ ہی دن رہ گئے ہیں مگر یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا، اسے بٹھانے کے لیے بڑی تگ و دو جاری ہے دیکھیں ہما کس کے سر پر بیٹھتا ہے۔ ہم غریبوں کے سر پر تو بیٹھنے سے رہا۔