اردو کے بہترین شخصی خاکے
خاکہ نگار کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ زیر تحریر شخصیت کے اندر بھی جھانکے۔
مبین مرزا جنھوں نے تین جلدوں میں ''اردو کے بہترین شخصی خاکے'' مرتب کیے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ''خاکے کی شخصیت ایک تراشیدہ مجسمہ ہوتی ہے جس کے ناک نقشے اور چہرے بشرے میں خاکہ نگار کوئی رد و بدل نہیں کرسکتا اسے تو بس اس مجسمے کو اٹھاکر طاق پر آویزاں کرنا ہے، یہ بہ ظاہر سادہ اور آسان نظر آنے والا کام اس قدر دشوار اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ کوئی خاکہ نگار اسے اس وقت تک انجام دے ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنے موضوع کے خارج کے ساتھ ساتھ اس کے داخل سے بھی یہ خوبی واقف نہ ہو گویا خاکہ نگار کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ زیر تحریر شخصیت کے اندر بھی جھانکے اور پھر جو دیکھے اسے اس طرح بیان کرے کہ پڑھنے والا اس شخصیت کو تہہ در تہہ دیکھ سکے'' شوکت سبزواری اس خیال کی تائید کرتے ہوئے عندلیب شادانی کے خاکے میں لکھتے ہیں ''شخصیت کے بے نقاب ہونے کی بہت سی راہیں ہیں بہت سے دروازے ہیں جن سے شخصیت جھانکتی ہے، ان میں کچھ سیدھی، صاف اورکشادہ ہیں، کچھ ٹیڑھی میڑھی اور تنگ و تاریک ہیں۔ عام طور سے لوگ سیدھی اور کشادہ راہوں سے شخصیت کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن شخصیت کی جھلک تیرہ و تاریک راہوں سے دکھائی دیتی ہے چور دروازے اس کے مشاہدے کے لیے زیادہ موزوں ہیں گو ان چور دروازوں تک رسائی آسان نہیں۔''
مبین مرزا نے اپنی کتاب کے لیے شخصی خاکوں کا انتخاب کرتے وقت خاکہ نگاری کے ان سب پہلوؤں پر نظر رکھی ہے اوپندارناتھ اشک کا لکھا ہوا خاکہ ''منٹو: میرا دشمن'' اس کی ایک مثال ہے منٹو کا شیام پر مضمون، ''مرلی کی دھن'' بھی اس قبیل کی چیز ہے، یہ دونوں شخصی خاکے جو مبین مرزا کی اردو کے بہترین خاکوں کی کتاب کی پہلی جلد میں ہیں دو شخصیتوں کی سچی تصویر ہی نہیں لکھنے والوں کی آپ بیتی بھی ہیں۔ پڑھنے والے کا دونوں سے تعارف ہوجاتا ہے۔ عصمت چغتائی کا اپنے مرحوم بھائی کا خاکہ بھی اپنے اندر یہ پہلو رکھتا ہے، بلاشبہ عصمت نے اس خاکے کا عنوان ''دوزخی'' رکھ کر ظلم کیا ہے۔
یہ خاکہ بھی اسی جلد میں ہے یہ جب چھپا تھا تو عام تصور یہ تھا کہ عصمت نے بھائی سے انصاف نہیں کیا۔ عندلیب شادانی سے شوکت سبزواری کی پہلی ملاقات بریلی میں ہوئی پھر یہ دونوں ڈھاکہ میں ملے یہاں ان کے شادانی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ شوکت لکھتے ہیں: ''شادانی کی کہانیاں آپ بیتی ہیں ہی، ان کی غزلیں اور نظمیں بھی آپ بیتی ہیں ان کی تنقیدیں بھی آپ بیتی کی حیثیت رکھتی ہیں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب آپ بیتی ہے۔''
شوکت سبزواری نے عندلیب شادانی کی شخصیت کی جو تصویر کھینچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ حسن پرست ہیں اور اس حسن پرستی کا اثر ان کی زندگی کے ہر شعبے پر پڑا ہے وہ صاف ستھرا لباس پہنتے ہیں ان کے ہرکام میں ستھرا پن ہے، ان کی تحریر حسین و جمیل ہوتی ہے وہ صرف محبت نہیں کرتے نفرت کرنا بھی جانتے ہیں، اس لحاظ سے ان کی شخصیت یک رخی نہیں، جو نفرت نہیں کرسکتا وہ محبت بھی نہیں کرسکتا۔ شادانی کے ہاں ''انا'' کی بھی بڑی اہمیت ہے ان کی سب سے بڑی دلچسپی حسن کاری ہے اور سب سے بڑا کام احساس فرض ہے۔
شورش کاشمیری نے عبدالمجید سالک کا خاکہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ہر شخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمری سے جن لوگوں ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایہ ناز تھے، اقبال، ابوالکلام آزاد، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی جس پایہ کے یہ لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے، ہم سفروں میں انھیں مہر جیسا رفیق ملا، ہم نشینوں میں چراغ حسن حسرت، مرتضیٰ احمد مکیش، احمد شاہ بخاری، محمد دین تاثیر، شاگردوں میں احمد ندیم قاسمی اور اولاد میں عبدالسلام خورشید، تمام عمر قرطاس و قلم میں گزری، سالہا سال لکھا اور سالہا سال پڑھا، اس اعتبار سے وہ ایک تہائی صدی کے ادب و سیاست کی چلتی پھرتی کہانی تھے۔ کیا کیا باتیں ان کے سینے میں نہیں تھے کتنی ہی باتیں ان کے قلم سے صفحہ کاغذ پر آگئیں کتنی ہی لوگوں کے حافظے میں بے تحریر پڑی ہیں اور کتنی ہی ناگفتنی ہونے کے باعث محفلوں میں اڑتی پھرتی ہیں اکثر گفتنی اور نا گفتنی وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے جس موضو ع پر وہ بولتے موتی رولتے۔''
شورش کاشمیری، سالک کو ''صحافتی قبیلے کی آخری کھیپ کا شہسوار'' قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی ذات میں بیک وقت ادب و شعر کی بہت سی روایتیں جمع ہوگئی تھیں، زبان کی باریکیوں سے وہ کما حقہ واقف تھے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ نثر لکھنا ان کے لیے انتہائی آسان تھا، جتنا آبشار کے لیے بہنا بے تکان اور بے تکلف لکھتے زندگی بھر ہزاروں صفحات لکھ ڈالے۔ ''انقلاب'' کے بیس بائیس سال کے فائل گواہ ہیں ہمیشہ قلم برداشتہ لکھتے صبح سویرے گاؤ تکیے پر ٹیک لگاکر لکھتے خط اتنا خوبصورت تھا کہ موتی پروتے۔
غلام عباس نے ن م راشد کا خاکہ لکھا ہے۔ راشد کو انھوں نے کئی بار مشاعروں میں شعر پڑھے سنا تھا لیکن ان سے شناسائی اس وقت ہوئی جب چراغ حسن حسرت دارالاشاعت پنجاب کے ادارے میں شامل ہوئے اور ان کے گرد اس وقت کے ابھرتے ہوئے ادبا اور شعرا کا مجمع لگ گیا ان میں اکثر راشد اور میراجی ہوتے۔ 1937ء میں غلام عباس ''پھول'' اخبار کی ایڈیٹری چھوڑ کر دلی چلے گئے جہاں آل انڈیا ریڈیو کے رسالے کی ایڈیٹری انھیں سونپ دی گئی ان ہی دنوں راشد بھی دلی آگئے اور ریڈیو میں کام کرنے لگے غلام عباس کے ساتھ رہے اور یوں ان دونوں کی باہمی شناسائی گہری دوستی میں بدل گئی۔
غلام عباس لکھتے ہیں ''راشد شدید تنگ دستی کا زمانہ گزار کر دلی آئے تھے۔ یہاں جو آسودگی نصیب ہوئی تو آسائش کی زندگی کی طرف مائل ہونے لگے۔ پینے پلانے کی طرف سے بھی حجاب اٹھنے لگا اس دوران جنگ عظیم چھڑ گئی، راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا، وہ باہر چلے گئے واپس آئے تو دلی میں میرے پاس ہی ٹھہرے۔ راشد مزاجاً سخت گیر تھے، کسی سے انھیں تکلیف پہنچے تو اسے آسانی سے معاف نہیں کرتے تھے اپنے خلاف بے جا یا معاندانہ تنقید کی چبھن انھیں عمر بھر رہتی تھی جب راشد کی نظموں کا دوسرا مجموعہ ''ایران میں اجنبی'' شایع ہو اتو اس کا دیباچہ پطرس بخاری نے نہایت محبت اور خلوص سے لکھا البتہ اس میں کہیں کہیں مخصوص طنزیہ رنگ میں راشد پر تنقید بھی کی تھی۔
یہ تنقید راشد کو بالکل پسند نہ آئی کہنے لگے مصیبت میں پھنس گیا ہوں سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے شایع کروں یا نہ کروں ۔میں نے کہا یہ سچ ہے کہ اس دیباچے میں تمہاری زیادہ مدح سرائی نہیں کی گئی ہے مگر یقین جانو کہ اس میں کسی بے التفاتی یا عناد کو ذرا بھی دخل نہیں اگر یہ دیباچہ مدحیہ انداز میں ہوتا تو پھر بخاری صاحب میں اور دوسرے لکھنے والوں میں فرق ہی کیا رہ جاتا مگر میں راشد کو مطمئن نہ کرسکا۔ راشد کو بے صبری اور جلد بازی کی عادت بھی تھی ایک دفعہ اس کی سخت سزا بھی انھیں بھگتنی پڑی ہوا یہ کہ جب راشد کو یہ معلوم ہوا کہ انھیں فوج میں کمیشن مل گیا ہے اور اب صرف چند ابتدائی کارروائیاں مثلاً جسمانی معائنہ وغیرہ باقی رہ گیا ہے تو وہ خود ہی فوج کے دفتر میں پہنچ گئے کہ میرا معائنہ کرلیجیے۔
شام کو جب واپس آئے تو ان کی بری حالت تھی جسم پر جگہ جگہ چوٹیں آئی تھیں۔ گھٹنے زخمی تھے منہ سوجا ہوا تھا سارا جسم اکڑ گیا تھا چلتا پھرتا دو چار تھا ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ملال ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ انھوں نے یہ صعوبتیں ناحق اٹھائی کیوںکہ انھیں تو اس جسمانی معائنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا یہ معائنہ تو صرف جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے لیے لازمی تھا لکھنے پڑھنے کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں۔ انھیں درختوں پر چڑھنے، چھلانگیں لگانے، دوڑیں لگانے کی ضرورت نہ تھی۔
مبین مرزا نے اپنی کتاب کے لیے شخصی خاکوں کا انتخاب کرتے وقت خاکہ نگاری کے ان سب پہلوؤں پر نظر رکھی ہے اوپندارناتھ اشک کا لکھا ہوا خاکہ ''منٹو: میرا دشمن'' اس کی ایک مثال ہے منٹو کا شیام پر مضمون، ''مرلی کی دھن'' بھی اس قبیل کی چیز ہے، یہ دونوں شخصی خاکے جو مبین مرزا کی اردو کے بہترین خاکوں کی کتاب کی پہلی جلد میں ہیں دو شخصیتوں کی سچی تصویر ہی نہیں لکھنے والوں کی آپ بیتی بھی ہیں۔ پڑھنے والے کا دونوں سے تعارف ہوجاتا ہے۔ عصمت چغتائی کا اپنے مرحوم بھائی کا خاکہ بھی اپنے اندر یہ پہلو رکھتا ہے، بلاشبہ عصمت نے اس خاکے کا عنوان ''دوزخی'' رکھ کر ظلم کیا ہے۔
یہ خاکہ بھی اسی جلد میں ہے یہ جب چھپا تھا تو عام تصور یہ تھا کہ عصمت نے بھائی سے انصاف نہیں کیا۔ عندلیب شادانی سے شوکت سبزواری کی پہلی ملاقات بریلی میں ہوئی پھر یہ دونوں ڈھاکہ میں ملے یہاں ان کے شادانی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ شوکت لکھتے ہیں: ''شادانی کی کہانیاں آپ بیتی ہیں ہی، ان کی غزلیں اور نظمیں بھی آپ بیتی ہیں ان کی تنقیدیں بھی آپ بیتی کی حیثیت رکھتی ہیں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب آپ بیتی ہے۔''
شوکت سبزواری نے عندلیب شادانی کی شخصیت کی جو تصویر کھینچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ حسن پرست ہیں اور اس حسن پرستی کا اثر ان کی زندگی کے ہر شعبے پر پڑا ہے وہ صاف ستھرا لباس پہنتے ہیں ان کے ہرکام میں ستھرا پن ہے، ان کی تحریر حسین و جمیل ہوتی ہے وہ صرف محبت نہیں کرتے نفرت کرنا بھی جانتے ہیں، اس لحاظ سے ان کی شخصیت یک رخی نہیں، جو نفرت نہیں کرسکتا وہ محبت بھی نہیں کرسکتا۔ شادانی کے ہاں ''انا'' کی بھی بڑی اہمیت ہے ان کی سب سے بڑی دلچسپی حسن کاری ہے اور سب سے بڑا کام احساس فرض ہے۔
شورش کاشمیری نے عبدالمجید سالک کا خاکہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ہر شخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمری سے جن لوگوں ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایہ ناز تھے، اقبال، ابوالکلام آزاد، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی جس پایہ کے یہ لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے، ہم سفروں میں انھیں مہر جیسا رفیق ملا، ہم نشینوں میں چراغ حسن حسرت، مرتضیٰ احمد مکیش، احمد شاہ بخاری، محمد دین تاثیر، شاگردوں میں احمد ندیم قاسمی اور اولاد میں عبدالسلام خورشید، تمام عمر قرطاس و قلم میں گزری، سالہا سال لکھا اور سالہا سال پڑھا، اس اعتبار سے وہ ایک تہائی صدی کے ادب و سیاست کی چلتی پھرتی کہانی تھے۔ کیا کیا باتیں ان کے سینے میں نہیں تھے کتنی ہی باتیں ان کے قلم سے صفحہ کاغذ پر آگئیں کتنی ہی لوگوں کے حافظے میں بے تحریر پڑی ہیں اور کتنی ہی ناگفتنی ہونے کے باعث محفلوں میں اڑتی پھرتی ہیں اکثر گفتنی اور نا گفتنی وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے جس موضو ع پر وہ بولتے موتی رولتے۔''
شورش کاشمیری، سالک کو ''صحافتی قبیلے کی آخری کھیپ کا شہسوار'' قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی ذات میں بیک وقت ادب و شعر کی بہت سی روایتیں جمع ہوگئی تھیں، زبان کی باریکیوں سے وہ کما حقہ واقف تھے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ نثر لکھنا ان کے لیے انتہائی آسان تھا، جتنا آبشار کے لیے بہنا بے تکان اور بے تکلف لکھتے زندگی بھر ہزاروں صفحات لکھ ڈالے۔ ''انقلاب'' کے بیس بائیس سال کے فائل گواہ ہیں ہمیشہ قلم برداشتہ لکھتے صبح سویرے گاؤ تکیے پر ٹیک لگاکر لکھتے خط اتنا خوبصورت تھا کہ موتی پروتے۔
غلام عباس نے ن م راشد کا خاکہ لکھا ہے۔ راشد کو انھوں نے کئی بار مشاعروں میں شعر پڑھے سنا تھا لیکن ان سے شناسائی اس وقت ہوئی جب چراغ حسن حسرت دارالاشاعت پنجاب کے ادارے میں شامل ہوئے اور ان کے گرد اس وقت کے ابھرتے ہوئے ادبا اور شعرا کا مجمع لگ گیا ان میں اکثر راشد اور میراجی ہوتے۔ 1937ء میں غلام عباس ''پھول'' اخبار کی ایڈیٹری چھوڑ کر دلی چلے گئے جہاں آل انڈیا ریڈیو کے رسالے کی ایڈیٹری انھیں سونپ دی گئی ان ہی دنوں راشد بھی دلی آگئے اور ریڈیو میں کام کرنے لگے غلام عباس کے ساتھ رہے اور یوں ان دونوں کی باہمی شناسائی گہری دوستی میں بدل گئی۔
غلام عباس لکھتے ہیں ''راشد شدید تنگ دستی کا زمانہ گزار کر دلی آئے تھے۔ یہاں جو آسودگی نصیب ہوئی تو آسائش کی زندگی کی طرف مائل ہونے لگے۔ پینے پلانے کی طرف سے بھی حجاب اٹھنے لگا اس دوران جنگ عظیم چھڑ گئی، راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا، وہ باہر چلے گئے واپس آئے تو دلی میں میرے پاس ہی ٹھہرے۔ راشد مزاجاً سخت گیر تھے، کسی سے انھیں تکلیف پہنچے تو اسے آسانی سے معاف نہیں کرتے تھے اپنے خلاف بے جا یا معاندانہ تنقید کی چبھن انھیں عمر بھر رہتی تھی جب راشد کی نظموں کا دوسرا مجموعہ ''ایران میں اجنبی'' شایع ہو اتو اس کا دیباچہ پطرس بخاری نے نہایت محبت اور خلوص سے لکھا البتہ اس میں کہیں کہیں مخصوص طنزیہ رنگ میں راشد پر تنقید بھی کی تھی۔
یہ تنقید راشد کو بالکل پسند نہ آئی کہنے لگے مصیبت میں پھنس گیا ہوں سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے شایع کروں یا نہ کروں ۔میں نے کہا یہ سچ ہے کہ اس دیباچے میں تمہاری زیادہ مدح سرائی نہیں کی گئی ہے مگر یقین جانو کہ اس میں کسی بے التفاتی یا عناد کو ذرا بھی دخل نہیں اگر یہ دیباچہ مدحیہ انداز میں ہوتا تو پھر بخاری صاحب میں اور دوسرے لکھنے والوں میں فرق ہی کیا رہ جاتا مگر میں راشد کو مطمئن نہ کرسکا۔ راشد کو بے صبری اور جلد بازی کی عادت بھی تھی ایک دفعہ اس کی سخت سزا بھی انھیں بھگتنی پڑی ہوا یہ کہ جب راشد کو یہ معلوم ہوا کہ انھیں فوج میں کمیشن مل گیا ہے اور اب صرف چند ابتدائی کارروائیاں مثلاً جسمانی معائنہ وغیرہ باقی رہ گیا ہے تو وہ خود ہی فوج کے دفتر میں پہنچ گئے کہ میرا معائنہ کرلیجیے۔
شام کو جب واپس آئے تو ان کی بری حالت تھی جسم پر جگہ جگہ چوٹیں آئی تھیں۔ گھٹنے زخمی تھے منہ سوجا ہوا تھا سارا جسم اکڑ گیا تھا چلتا پھرتا دو چار تھا ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ملال ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ انھوں نے یہ صعوبتیں ناحق اٹھائی کیوںکہ انھیں تو اس جسمانی معائنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا یہ معائنہ تو صرف جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے لیے لازمی تھا لکھنے پڑھنے کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں۔ انھیں درختوں پر چڑھنے، چھلانگیں لگانے، دوڑیں لگانے کی ضرورت نہ تھی۔