نگران سیٹ اپ نے آج تک ہمیں کیا دیا

حقیقت میں ہمیں اس’’نگران‘‘ مخمصے سے نکلنے کے لیے بھارت کے سسٹم سے ہی مدد لے لینی چاہیے۔


[email protected]

آج جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں تو تاریخ کا ایک باب اپنی بے یقینیوں، کشمکشوں، تہمتوں کے ساتھ بند ہو چکا ہے۔ تاریخ ایک اور دروازہ کھول چکی ہے۔ جسے نگراں دور کہا جاتا ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس کی نگرانی میں آج ایک عبوری حکومت قائم ہوچکی ہے۔

2013ء کے الیکشن کے نتائج آنے پر میں نے لکھا تھا کہ یہ نتائج 1970ء کے انتخابات کی طرح خطرناک ثابت ہوں گے، ایک بڑے صوبے میں اکثریت کے بل پر پورے پاکستان پر حکمرانی کا حق ایک جماعت کو مل رہا ہے۔ صحیح معنوں میں قومی قیادت نہیں تھی۔ پھر جیسا میں نے پچھلے کالموں میں ذکر کیا کہ نواز شریف اورعالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات میں ہم آہنگی تھی۔

بہرکیف اب جب کہ مملکتِ خداداد پاکستان کی 7ویں نگران حکومت قائم ہو چکی ہے، جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر الملک حلف بھی اُٹھا چکے ہوں گے۔جن کا تعارف اتناہی کافی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں عدالت برخاست ہونے تک قید کی سزا دی تھی۔ سزا تو علامتی ہی تھی لیکن اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کو آئین کے تحت پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔

اب جب کہ ان سیاسی حالات میں جب ہر اسٹیک ہولڈر پہلے سے زیادہ متحرک اور جذباتی نظر آرہا ہے، ایسے میں جسٹس ناصرالملک کیسے انتخابات کراتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا کیوں کہ اب تک بنائی گئی تمام نگران حکومتوں اور نگران وزرائے اعظم کے عام انتخابات میں کردار کا جائزہ لیا جائے تو 1990ء سے لے کر 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی حالات اور واقعات کوئی زیادہ حوصلہ افزاء نظر نہیں آتے۔

1973ء کے آئین میں بنیادی طور پر نگران حکومت سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں تھا۔اور1977ء میں جنرل ضیاء مارشل لاء کے 8 سال بعد 1985ء میں ہونے والے ملک کے تیسرے عام انتخابات جو غیر جماعتی تھے، کا انعقاد کسی نگران حکومت کے بجائے فوجی صدر کی نگرانی میں ہوا۔

1988ء میں چوتھے عام انتخابات، صدر غلام اسحاق خان کی حکومت کی نگرانی میں ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِاعظم بنیں۔ ان الیکشن میں جنرل حمید گل نے خود تسلیم کیا ہم نے 30 سیٹوں پر کام کیا تاکہ بینظیر کو اکثریت نہ مل سکے۔ اس کے بعد 1990ء میں پاکستان کے پانچویں عام انتخابات کا اعلان ہوا، غلام مصطفی جتوئی نگران وزیر اعظم بنے، انتخابات میں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم بنے۔

ان انتخابات میں آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی کے کردار پر اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے اور اِن دنوں بھی سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر اصغر خان کیس کے فیصلے پر حکومتی عمل درآمد کا جائزہ لیتی نظر آئی۔ حالانکہ اس حوالے سے بینظیرہمیشہ الیکشن کے نتائج پر اعتراض ہی کرتی رہیں، پھر 1993ء میں معین قریشی نگران وزیر اعظم لائے گئے، جن کے پاس قومی شناختی کارڈ تک نہیں تھا، انھیں استعمال کر کے بینظیر کی حکومت بنوائی گئی۔ پھر 1996ء میں ملک معراج خالد کی نگران حکومت قائم ہوئی، جنھیں فاروق لغاری کی جانب سے پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کرنے کے بعد لگایا گیا۔1996ء کے الیکشن میں ایک بار پھر اسٹیبشلمنٹ نے نواز شریف کی مدد کی اور بھاری اکثریت سے الیکشن جتوایا، 2002ء کے الیکشن میں بھی جنرل مشرف اپنے پسند کے اُمیدواروں کو جتواتے رہے۔

اگر 2008ء کے الیکشن کی بات کی جائے تو محمد میاں سومرو کو نومبر 2007ء میں نگران وزیر اعظم لگایا گیا، جن کی موجودگی میںجیتی ہوئی ق لیگ کو ہروایا گیا، اس بات کو چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ 2008ء کا الیکشن فکس تھا۔ اس کے بعد پاکستان کے چھٹے نگران وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کی نگرانی میں کرائے گئے عام انتخابات 2013ء کے نتائج سے ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنوں نے جنم لیا۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ عدالتی کمیشن سے ان انتخابات میں منظم دھاندلی نہ ہونے کا فیصلہ آنے کے باوجود، صرف پاکستان تحریکِ انصاف ہی نہیں بلکہ مختلف صوبوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام بھی ان انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھاتی نظر آئیں۔ عمران خان شور مچاتا رہا کہ میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے، پھر چار حلقے کھولے گئے اور ہر ہر حلقے میں بے ضابطگیاں پائی گئیں۔ اور سپریم کو رٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو سسٹم بہتر بنانے کے لیے انتباہ کیا گیا، مگر یہ الیکشن بھی اُسی سسٹم کے تحت ہونے ہیں۔ جن کی نگرانی جسٹس ناصر الملک کو کرنی ہے، لیکن مذکورہ بالا تاریخ کو مدنظر رکھ کر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ کہ 2018ء کے الیکشن غیرجانبدار ہوں گے۔ کیا یہ انجینئرڈ نہیں ہوں گے ؟

کتنا دلچسپ اتفاق ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں مبیّنہ دھاندلی پر بنائے گئے عدالتی کمیشن کی سربراہی کرنے والے جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو ملک میں آیندہ عام انتخابات 2018ء کے لیے نگران وزیراعظم منتخب کیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اتفاق رائے کے نتیجے میں منتخب ہونے والے ملک کے 7ویں نگران وزیراعظم پر پاکستان تحریک انصاف نے بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔لیکن کیا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں بڑی جماعتیں خصوصاً تحریک انصاف جسٹس ناصر الملک پر اعتماد برقرار رکھ سکیں گی؟کیونکہ جیسے ہی پی ٹی آئی کو نگران حکومت کا پلڑا مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کی طرف جھکتا نظر آیا اُسی وقت پی ٹی آئی کے ذہن میں جسٹس ناصر الملک کے حوالے سے شفافیت ختم ہو جائے گی، بالکل اسی طرح جیسے ناصر سعید کھوسہ کے ساتھ ہوا ہے، پہلی بات تو یہ کہ انھیں منتخب ہی کیوں کیا گیاتھا، اور میں حیران بھی تھا کہ پی ٹی آئی ناصر سعید کھوسہ سے متفق کیسے ہوگئی تھی؟ اور نہ جانے عمران خان کو کون بے وقوف بنا رہا ہے۔

حقیقت میں ہمیں اس''نگران'' مخمصے سے نکلنے کے لیے بھارت کے سسٹم سے ہی مدد لے لینی چاہیے جہاں نئے انتخابات سے پہلے نگران سیٹ اپ کی غیر موجودگی اور تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجانے کی مثال موجود ہے پھر یورپی ممالک میں جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تب الیکشن کروا لیے جاتے ہیں اور وہاں الیکشن بورڈ کے پاس سارے اختیارات منتقل ہو جاتے ہیں، مگر ہم لوگ پسند اور ناپسند کے چکر میں شخصیات کو اس قدر متنازع بنا لیتے ہیں کہ ہمیں وقت سے پہلے دھاندلی کی بو آنے لگتی ہے۔

خیر اب جب کہ نگران حکومت کا وقت آچکا ہے تو سوال یہ ہے کہ گزشتہ 30، 35سال سے جو کچھ ہو رہا ہے، اسی کی اگلی قسط دہرائی جائے گی یا ناصر الملک اپنی نیک نامی کی لاج رکھتے ہوئے شفاف انتخابات کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں