سرینگر سے ایک دلدوز خط اور لندن کا مددگار

سرینگر میں بیٹھے مشتاق ڈار کا ذکر چھڑا تو شدتِ جذبات سے وہ بات ہی نہ کر سکے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

ویسے تو مقبوضہ کشمیر کا ہر گھر ہی مجبور اور مظلوم ہے۔ آنسو اور آہیں اُن کا مقدر بنا دیے گئے ہیں۔ شاباش ہے مگر اُن کی جدو جہد کو ۔ نہایت کسمپرسی کی حالت میں ہمارے یہ کشمیری بھائی ، بہنیں اور بیٹے جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، ہم پاکستان کے آزاد اور پُرامن ماحول میں بیٹھ کر اُس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔

تصور میں بھی اُن حالات کو آنکھوں میں نہیں بھر سکتے جن حالات میں حریت پسند کشمیری ایک ایک لمحہ بِتا رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ آج مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین اور حریت پسند علیحدگی پسند جماعتیں اور اُن کے لیڈرز اپنی جدو جہد سے دستکش ہونے کا اعلان کر دیںتو غاصب اور قابض بھارتی ہندو اسٹیبلشمنٹ شائد کشمیریوں پر مظالم ڈھانے سے بھی باز آ جائیں۔

کشمیری جو پچھلے سات عشروں سے آزادی کے لیے جانوں اور مالوں کی قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں، ایسا کرنے کا مگر سوچ بھی نہیں سکتے۔ اب معاملات بہت آگے جا چکے ہیں۔ اس کے لیے کشمیری بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔ اپنی جانوں کی شکل میں، گھروں کی تباہی کی صورت میں، عفت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانی کی شکل میں۔۔۔۔کونسی ایسی قربانی کا نام باقی رہ گیا ہے جو کشمیریوں نے نہیں دی ہے۔کاروبار اُن کے کامل برباد ہیں۔ ملازمتیں موہوم ۔ جو کشمیری بیمار اور زخمی ہیں، اُن کی کہانیاں پڑھ اور دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ایسی ہی ایک کہانی خط کی شکل میں مجھے موصول ہُوئی ہے۔

اِس کہانی میں ہم سارے مجبور اور محکوم کشمیریوں کی داستاں پڑھ سکتے ہیں۔یہ خط سرینگر کے الٰہی باغ، 11گرین انپونیو، کے مشتاق ڈار صاحب کا ہے۔ انھوں نے تو اپنا موبائل نمبر بھی ارسال کیا ہے لیکن اِسے شایع کرنا مناسب نہیں ہے۔مشتاق ڈار صاحب کی ایک ہی اولاد ہے اور وہ بھی پچھلے بارہ سال شدید بیمار۔ اُن کے اکلوتے بیٹے کا نام ریان مشتاق ہے۔ کسی پُراسرار بیماری کے شکار بیٹے کا علاج کراتے کراتے خود مشتاق ڈار بیمار ہو چکے ہیں۔ بیماری کا علاج کراتے کراتے پہلے جمع پونجی پانی کی طرح بہہ گئی۔

پھر اہلیہ کے تھوڑے سے جو زیورات تھے، وہ بِک گئے۔ بیٹے کو مگر صحت پھر بھی نہ مل سکی۔سرینگر کے ہمہ دَم بگڑتے سماجی اور معاشی حالات نے مشتاق ڈار کی دکانداری بھی تباہ کر ڈالی۔ پھر ایک روز مارے جبر کے یہ دکان بھی فروخت ہو گئی ۔ اور یوں گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے تھوڑا سا جو معاشی سہارا موجود تھا، وہ بھی جاتا رہا۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشتاق ڈار کی نفسیاتی، سماجی اور معاشی حالت کیا ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر کے معاشی حالات اسقدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ کسی دوسرے مجبور بھائی بہن کی مالی دستگیری کرنا تقریباًنا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ یہ بھارتی قابضین کی ایک خاص اسٹرٹیجی بھی ہے جسے وہ کامیابی سے موسوم کرتے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ مجبور ہو کر کشمیری ایک روز تو اُن کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے۔

اللہ تعالیٰ مگر مسبب الاسباب ہے۔ اِس دنیا میں اب بھی کئی ایسے لوگ ، ادارے موجود ہیں جو کسی کو خبر کیے بغیر محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر ضرورتمندوں کی اعانت کو پہنچتے ہیں۔ مشتاق ڈار کے طویل لکھے گئے خط سے عیاں ہوتا ہے کہ اُن کا رابطہ لندن میں بروئے کار ''المصطفیٰ ویلفیئرٹرسٹ'' اور اِس ادارے کے بانی چیئرمین جناب عبدالرزاق ساجد سے ہُوا۔ خط کتابت ہُوئی تو ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' مشتاق ڈار صاحب اور اُن کے بیٹے کی مقدور بھر مدد کرنے پر تیار ہو گئے۔

عبدالرزاق ساجد نہ سرینگر گئے اور نہ ہی مشتاق ڈار سے ملے لیکن لندن میں بروئے کار اُن کے ادارے کی طرف سے بیمار بچے کے لیے امداد جاری کر دی گئی۔ یوں مشتاق ڈار ایک جہنم سے قدرے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

مشتاق ڈار صاحب کا چار صفحات پر مشتمل خط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں پچھلے کئی برس سے ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کی طرف سے بغیر کسی وقفے کے اعانت مل رہی ہے۔ اُن کا ہاتھ کشادہ تو نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی بیمار بیٹے کو مکمل صحت مل سکی ہے لیکن اتنا ضرور ہُوا ہے کہ مشتاق ڈار کسی کے محتاج نہیں رہے۔ خط پڑھ کر لندن میں بیٹھے عبدالرزاق ساجد صاحب سے بذریعہ وٹس ایپ میری بات چیت ہُوئی۔


سرینگر میں بیٹھے مشتاق ڈار کا ذکر چھڑا تو شدتِ جذبات سے وہ بات ہی نہ کر سکے۔ کہنے لگے : ہم تو بہت سے مجبور کشمیری بھائیوں کی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنے کے خواہاں ہیں لیکن بھارتی سخت پابندیاں ہمارے آڑے آجاتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کی امداد کاری کا دائرہ لندن تک ہی محدود نہیں ہے۔

اس کے سربراہ اپنے لندنی ساتھیوں اور عطیات دینے والوں کے ساتھ برما بھی جاتے ہیں، بنگلہ دیش بھی اور شامی مہاجرین کے پاس بھی۔ برما کے روہنگیا مہاجر مسلمانوں کی دستگیری کے لیے وہ اب تک نصف درجن بار بنگلہ دیش کے کاکسز بازار جا چکے ہیں۔ اُن کے ساتھ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے معزز رکن ،لارڈ نذیر احمد صاحب،بھی تھے جنہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے خور و نوش اشیاء پر مشتمل لاکھوں تھیلے روہنگیا مہاجر مسلمانوں میں تقسیم کیے۔

ادویات کے کئی باکس، سیکڑوںبستر اور بارش سے محفوظ رکھنے والے خاص خیمے بھی تقسیم کیے گئے۔ برما اور بنگلہ دیش میں انھیں کئی گمبھیر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اُن کے عزم اور جدو جہد میں کمی نہ آئی۔ رمضان شریف میں اُن کی خدمات کی رفتار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور دائرہ بھی وسعت اختیار کر جاتا ہے۔

پچھلے دنوں ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کے سربراہ اسلام آباد آئے تو اُن کے ساتھ لارڈ نذیر احمد صاحب بھی تھے۔ وہ دونوں اپنے کئی ڈاکٹر وں کی ٹیم کے ساتھ آزاد کشمیر اور جنوبی پنجاب میں لاچاروں اور بے نواؤں کی اعانت اور آنکھوں کے مریضوں کو نئی روشنی کا تحفہ دے کر وفاقی دارالحکومت پہنچے تھے۔

اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں درجن سے زائد سینئر اخبار نویسوں، اینکروں، علمائے کرام اور سیاستدانوں کے سامنے انھوں نے اپنے ادارے کی خدمات کا یوں ذکر کیا کہ اُن کی زبان پر بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر کے الفاظ آتے تھے۔ بار بار اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم پر درود شریف بھیج رہے تھے۔ زمانہ طالبعلمی کے دوران وہ جس طلبا تنظیم سے وابستہ رہے تھے، یہ دراصل اُس تربیت کا بھی خوبصور ت اثر تھا۔ اس مجلس میں کئی سخت سوالات بھی کیے گئے جن کا جواب انھوں نے خندہ پیشانی سے دیا۔

مثال کے طور پر یہ کہ لندن یا پاکستان میں کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں غریبوں کے نام پر عطیات اکٹھے کر کے اپنی جیب میں ڈال لیتی ہیں، کہیں آپ کا شمار بھی تو ان میں نہیں ہوتا؟ اِس کا شافی جواب ساجد صاحب نے تو دیا ہی لیکن اُن کے کام اور دیانت کی گواہی لارڈ نذیر احمد نے بھی آگے بڑھ کر دی۔ یہ بات خاص اسلیے ہے کہ کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف شہادت دینے کے لیے برطانیہ کے کسی ذمے دار کو کسی بھی وقت جوابدہی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کی خدمات اب خاصی آگے بڑھ چکی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اب تک تین سو یتیم بچوں کی کفالت اپنے ذمے لے کر انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا کر چکے ہیں۔ اِس کا ذکر آج تک انھوں نے کسی بھی پلیٹ فارم پر نہیں کیا ہے کہ اصل نیت تو خدمت ہے، نہ کہ اپنی خدمات کا اشتہار ۔ پاکستان میں تھر کے علاقے میں بھی اُن کی خدمات کے نشان ملتے ہیں۔ صحراؤں اور جلتے تپتے گوٹھوں میں کنوئیں اور ٹیوب ویل لگوا کر۔ پاکستان میں ہونٹ اور تالو کٹے اُن بچوں کی تعداد نصف لاکھ سے بھی زائد ہوگی جن کے کامیاب آپریشن کروا کر ساجد صاحب نے ان غریب بچوں کو پھر سے مسکرانے کا حوصلہ دیا ہے۔ پاکستان کے نامور عالمِ دین اور سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب صاحب کی دعائیں اور تعاون بھی انھیں میسر ہے۔

ترکی اور شام کی سرحد پر کسمپرسی کی حالت میں بیٹھے شامی مہاجرین مردوزَن کی جو داستانیں مجھے عبدالرزاق ساجد نے سنائی ہیں، شائد مجھے یہا ں دہرانے کے لیے آہن کا جگر چاہیے۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ زیادہ خوشحالی نہ رکھنے کے باوجود وہ ایک پُرامن ملک میں سانس تو لے رہے ہیں۔ اِس سے بڑھ کر نعمت اور کیا ہو سکتی ہے؟

دوسروں کی خدمت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی عطیات اکٹھا کرنا سہل ہے۔ جو کررہے ہیں ، ہمیں اُن کی قدر کرنی چاہیے اور اِس بات کی بھی خصوصی طور پر کہ ہم ایک آزاد اور مضبوط ملک کے باسی ہیں۔
Load Next Story