فاٹا اور مولانا فضل الرحمن

مولانا فضل الرحمن نے زمینی حقائق اور عوامی امور پر کام نہ کیا جو ان کے اجداد کی سرزمین تھی۔

anisbaqar@hotmail.com

فاٹا انضمام بل کی خیبر پختونخواہ بل کی منظوری کے موقعے پر پرانی یاد کے طور پر ماضی کے فضل الرحمٰن یاد آگئے۔ یہ بات 1969ء کی ہے جب مجھے این ایس ایف نے چند ساتھیوں سمیت خیبر پختونخوا کے دورے پر بھیجا اس دور میں ماضی کے کئی لیڈروں سے عام طور سے اسٹوڈنٹس یونین کے لیڈران اور اس سرزمین کے مقبول رہنماؤں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔

رہائش کے لیے پشاور میں گرین ہوٹل ملا جنھوں نے بلا معاوضہ تقریباً 15 یوم رہنے دیا اور یہاں سے قریب کے شہروں اور فاٹا کے ایریا میں بھی جانا آنا رہا، کبھی مارکیٹ کی چیزیں دیکھنے کا اتفاق کراکری، اسلحہ جات، کپڑے، دنیا کے ہر ملک کی مصنوعات کھلے عام اور حیران کن دام میں موجود تھیں۔

فاٹا کے ایک دکاندار نے ہمیں پن پسٹل دکھایا جو ایک ساتھی کو بہت پسند آیا لیکن پختون اسٹوڈنٹس کے ایک رہنما ڈاکٹر مطیع اللہ ناشاد مرحوم نے کہاکہ شہر پشاور میں اس کو لے جانا ممنوع ہے۔ ویسے چھپاکر لے جاسکتے ہیں مگر یہ ایک خطرناک عمل تھا اور اگر ہم پکڑے جاتے تو خبر بھی اچھی نہ بنتی سو پستول کو رکھ دیا پھر گرد ونواح کے علاقوں سے طلبہ کی ملاقات ختم ہوئی۔ یونیورسٹی اورکالجوں کے بعد ایک دن مطیع اللہ نے کہاکہ بھائی ہم نے تقریباً تمام علاقے سیاحت کے حوالے سے اور طلبہ یونینوں کے اعتبار سے تو دیکھ لیے مگر ایک فاصلے والے علاقے کے بزرگ رہنما مفتی محمود کو نہیں دیکھا تو ان سے بھی مل لیتے ہیں مگر لمبا بس کا سفر کوہاٹ تک کرنا ہوگا، راستے میں ایک بڑی ٹنل بھی آئے گی اس زمین دوز راستے میں بڑا مزا آئے گا۔

مطیع اللہ ناشاد نے ہمیں بتایا موسم خوشگوار تھا سو ایک روز سب چل پڑے آخر کار چند گھنٹوں کے سفر کے بعد مولانا مفتی محمود کے گھر پہنچ گئے سب دوستوں نے مفتی صاحب کو سلام کیا اور سب بیٹھک پر اطمینان سے بیٹھ گئے بیٹھک سے ایک لکڑی کی چوڑی سیڑھی ایک کمرے تک جاتی تھی جہاں سے پندرہ منٹ بعد ایک نوجوان جو باریش تھے چائے لے کر اترے جو خوش مزاج تھے اور لڑکوں کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے مفتی صاحب کی باتیں سنتے رہے جنھوں نے سیاست میں تشدد کو ناقابل قبول قرار دیا اور فرقہ پرستی کو لعنت خیال کیا۔

عزم اور استقلال تعلیم اور تکلم کے حسن کو سیاست کی چھڑی فرمایا کہ خوبصورت بامعنی تکلم لوگوں کے دل جیتنے کا ذریعہ ہے مفتی صاحب کے پاس کتب کا ذخیرہ تھا اور وہ رزق حلال کے بادشاہ تھے یہ درس سن کر ہم وہاں سے نکلے کچھ دیر بعد ہم یہ علم ہوا کہ جو نو عمر نوجوان ہمارے لیے اوپر سے آئے ان کا نام فضل الرحمن ہے وہ گفتگو میں حائل نہ ہوئے، محفل گرم تھی چند گھنٹے چلی جس میں مولانا بھاشانی اور ان کا نقطہ نظر اسلامی سوشلزم پر گفتگو تھی۔


پہلی ملاقات جو مولانا فضل الرحمن سے ہوئی تھی اصول پسند اور اسلامی مساوات کے اس مشن پر مامور مفتی محمود ان کے والد محترم تھے جو نمود و نمائش اور زر و جواہر کے خواہش مند نہ تھے یہ تھی این ایس ایف کے لوگوں کی پہلی ملاقات۔ مولانا فضل الرحمن سے جو بعد ازاں مفتی محمود کے سیاسی جانشین تھے چونکہ ان کے سیاسی راستے جدا تھے اس لیے بعد ازاں سلسلہ جاری نہ رہا البتہ مفتی محمود کا کانگریس لیڈران بہت احترام کرتے تھے کیونکہ وہ سرخ پوش لیڈر خان عبدالغفار خان کے ساتھیوں میں سے تھے اس لیے بھارت کی کانگریس لیڈر شپ ان کی عزت کرتی رہی،اس عزت و احترام کے بدلے مفتی محمود کی وراثت کے طور پر مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کی لیڈر شپ عنایت کی گئی اور نواز شریف کی عنایات ان پر جاری رہیں۔ فاٹا پر جب عملاً طالبان کا قبضہ ہوگیا اور ن لیگ اور ان کے ہمنواؤں کی وہاں کوئی قوت نہ رہی تو مولانا فضل الرحمن کی لیے ان کے والد محترم کے ماضی کی بدولت ایک رواداری اس پورے علاقے میں موجود تھے اور بعض اہم طالبان شخصیات ان کا احترام کرتی تھیں ۔

مجھے کچھ یاد پڑتا ہے کہ بات چونکہ یہ بات کئی سال پرانی ہے مفتی محمود کے گھر اس دن ایک نوجوان بھی وہاں موجود تھا غالباً اس کا نام حفیظ پراچہ تھا جو فضل الرحمن کے ساتھیوں میں سے تو نہ تھا بعد ازاں طالبان کی سیاسی کارکردگی کی نمایاں شخصیت تھا جو طالبان اور ن لیگ کی حکومت کی گفتگو میں شریک تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا یا طالبان کا مولانا فضل الرحمن کے لیے نرم گوشہ تھا، اس ملاقات کا فوٹو سیشن مفتی محمود کے گھرکے سامنے کی تصویر حالیہ مہینوں کی شایع شدہ کتاب ''سورج پہ کمند'' جو برطانیہ کے مقیم ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقارکی تحریر کردہ ہے۔ اس میں مولانا فضل الرحمن کو تو آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے مگر مسٹر پراچہ کو کوئی نہیں پہچان سکتا کیونکہ اس میں کئی مرحومین بن چکے ہیں ۔

بات اصل راستہ چھوڑ رہی ہے تو وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی پاکستان کے موجودہ رہنماؤں نواز شریف، عمران خان اور آصف علی زرداری کی صفوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں، ان کا تقابل مفتی محمود یا اس دور کے رہنماؤں سے کرنا مناسب نہیں کیونکہ وقت کافی ہوچکا اور پاکستانی رہنماؤں کی اخلاقی اور معاشی راہیں بھی پیچیدہ تر ہوچکی ہیں اس لیے میں آج بھی تحریر میں قلم کی حرمت کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی حرف بے جا تحریر کرنے سے گریز کروں گا اور مولانا فضل الرحمن سے میرا ان دنوں کے بعد کوئی رابطہ نہ رہا کیونکہ وہ لیڈر شپ کے آج بھی اہم مسافر ہیں اور ہم نے صرف قلم کی حرمت کا سفر ہی اختیار کر رکھا ہے جس کے تحت یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ مولانا صاحب فاٹا اور پاٹا کے علاقے کو ایک صوبہ بنانا چاہتے تھے مگر موجودہ حکومت جو خاتمے کے قریب ہے اس کو ایسے متنازعہ مسائل پر اتنی سرعت سے قلم نہ اٹھانا چاہیے تھے۔

لہٰذا دونوں طرف وقت کو تیزی سے استعمال کرنے کی دوڑ تھی اس لیے جب فاٹا اور پاٹا کو خیبر پختونخواہ کی اسمبلی نے جب اس علاقے کے انضمام کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو مولانا فضل الرحمن نے اس کو بہ زور دھرنا ختم کرنا چاہا جیسے کہ مولانا بھاشانی کی طرز سیاست کو اپنائیںگے یا باچاخان یا مفتی محمود کی مگر جن لوگوں کے اسمائے گرامی تحریر کیے گئے ہیں یہ درویش صفت لیڈر تھے جن کے متعلق علامہ نے فرمایا ہے جیسے نان جویں بخشی ہے تو نے اور ایسے لیڈروں کو اللہ نے الگ قسم کی جرأت، قوت اور عوامی قوت عطا کی ہے لہٰذا چند ہزار لوگوں کا جلاؤ گھیراؤ بھلا کیا اثر دکھاتا لہٰذا دھرنا فیل ہوگیا اگر واقعی دھرنا عوامی مفادات کا حامل ہوتا تو پھر یہ ناکام نہ ہوتا اور قومی اسمبلی میں بڑی آسانی سے دو تہائی اکثریت سے اتوار 27 مئی کو فاٹا کو کے پی کے کا حصہ بنا لیا گیا لیکن عقلی اور فکری اعتبار سے یہ بات زیادہ بہتر ہوتی اگر آنے والی اسمبلی یہ فیصلہ کرتی۔

مولانا فضل الرحمن نے زمینی حقائق اور عوامی امور پر کام نہ کیا جو ان کے اجداد کی سرزمین تھی اور مذہبی بنیادوں پر انحصار کرتے رہے، عوامی حقوق پر ان کا تکیہ اس وقت سے اٹھ گیا جب وہ صرف ن لیگ کے عصائے پیری پر انحصار کرتے رہے اور مذہب کو سیاست کا سائبان بنا رکھا تھا، ذاتی عروج و شکوہ سیاست کی بنیاد رہ گئی تھی ، مفتی محمود کی سیاسی شاہراہ سے دور ہٹ چکے تھے اور عوامی مفادات کی حفاظت پر نظر جمانا کم کردیا تھا، ن لیگ کے مفادات کو اولیت دے رہے تھے جس کی وجہ سے ان کا دھرنا ناکام ہوا ورنہ پورا جمرود اور فاٹا کے درودیوار ہل جاتے، بھلا چند ہزار لوگ گھیراؤ جلاؤ کیونکر کرپاتے اگر مقبول گھیراؤ ہونا تو لوگ اسمبلی ہال تک نہ پہنچ پاتے۔

مولانا صاحب کے ووٹر تو یقینا ہوںگے مگر سرفروشوں کی تعداد بہت کم ہے یہی حال ن لیگ کا بھی ہے ہاں منطقی اعتبار سے الیکشن کی تاریخ تو قریب تر تھی تو یہ عمل زیادہ بہتر ہوتا اگر نئی قومی اسمبلی خوش اسلوبی سے فاٹا کو ضم کرتی رہ گیا جہاں تک میڈیا کا شور کالے قوانین کا ہے تو ابھی بھی بے شمار کالے قوانین انگریزی دور کے اور آمروں کے بنائے ہوئے دستورکا حصہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی یہ شکست ان کی سیاسی تاریخ پر ایک سیاسی کمزوری کی علامت ہے لیکن اگر فاٹا اور ملحقہ علاقے کو تیزی سے ترقی نہ دی گئی اور ایک دم سے پابندیوں کی زد میں لایا گیا تو مولانا فضل الرحمن جن تحفظات کو درست خیال کرتے ہیں تو ممکن ہے ان کا سیاسی پلڑا آنے والے وقت میں بھاری ہو جائے۔
Load Next Story