نوجوانوں کو ناراض نہ کریں
ہمارا بہتر مستقبل کسی کے پاس نہیں ہے ، ہم فاقے کریں گے یا محنت مزدوری مگر پاکستان سے وفادار رہیں گے۔
پاکستانی سیاست میں دور دور تک سیاست نظر نہیں آتی صرف موقع پرستی جس کو آپ موقع شناسی (مثبت انداز میں) بھی کہہ سکتے ہیں۔ مفاد پرستی کچھ ہوشیار کچھ چالاکی اور سب سے بڑھ کر ذاتی پارسائی اور دوسرا ہر کوئی بدترین خلائق ہمارے اس جواب کی وجوہات تھیں۔ یہ سیاسی کلچر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی موقع پرستوں نے رائج کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیے تھے۔
ملک کے پہلے وزیراعظم کو قتل کرکے یہ پیغام دے ہی دیا گیا تھا کہ قومی خزانے سے علامتی کے علاوہ تنخواہ نہ لینے اور کسی قسم کی مراعات نہ لینے، عام سی رہائش گاہ میں رہ کر قوم کو سادہ زندگی بسر کرنے کا درس دینے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں کہ شہادت کے وقت اپنے ہاتھ سے دھوئی اور استری کی ہوئی بظاہر صاف ستھری شیروانی کے نیچے بقول کچھ لکھنے والوں کے پھٹی بنیان اور کچھ کے پھٹی قمیض تھی گویا آزاد و خود مختار ملک کے وزیراعظم کا یہ انداز حکمرانی قوم کو سر جھکانے کے مترادف تھا، جو بعد کے وزرائے اعظم نے ثابت کردیا کہ ایک غریب اور پسماندہ ملک کے وزیراعظم کو کس ٹھاٹ کی زندگی بسر کرنی چاہیے۔
شاید یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ پر آسائش طرز زندگی اور قومی دولت کی لوٹ مار پر کسی حکمران کا احتساب ہورہا ہے اور قوم کو بھی''کچھ ،کچھ'' سمجھ آہی رہا ہے لہٰذا اس کو یہی چھوڑتے ہیں اور اب کراچی کے حوالے سے سیاسی افق پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے لکھنے پر ہمیں روزہ کشائی کی ایک پر رونق تقریب میں شریک نوجوانوں کے ایک گروہ نے مائل کیا ہے اور ان کا اصرار تھا کہ آپ ہمارے خیالات کو بلا کم و کاست ضرور متعلقہ سیاست دانوں تک پہنچادیں۔
اس تقریب میں ہم اپنی میز پر موجود لوگوں سے مزمل سہروردی کے 26 مئی کے اظہاریے بعنوان ''مصطفی کمال اور سندھ کی وزارت اعلیٰ'' پر تبادلۂ خیال کررہے تھے کہ ہمارے پاس والی میز پر برا جمان نوجوانوں کی ٹولی ہمارے پاس آئی اور بڑے احترام سے کہاکہ محترمہ آپ کو زحمت نہ ہو تو آپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہماری کچھ گزارشات سن لیجیے ۔ بچے ہمیں پڑھے لکھے مہذب اور با شعور لگے ہم نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کی ساتھ جاکر بیٹھ گئے اور ان کی باتیں بغور سنیں یہ اظہاریہ ان کے خیالات کا لب لباب ہے۔
ان نوجوانوں کا کہناتھا کہ جو اپنی اوقات بھول کرکسی خوش گمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ دوسروں کو کم ازکم زبانی کلامی غداروں کی صف میں ضرور شامل کرتے ہیں جو کل کچھ نہ تھے وہ ایم کیو ایم کی وجہ سے کچھ بن کر سامنے آئے جو کارکردگی انھوں نے دکھائی وہ تنہا ان کی نہ تھی پوری پارٹی کی تنظیمی کارکردگی تھی، اکیلا میئر اتنا سب نہیں کرتا اپنی سابقہ شہرت کو مصطفی کمال کراچی میں کیش کرانا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا اپنا ووٹ بینک ہے جس کو وہ مشکوک کرنے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنا مطلب حاصل کرلیں، راتوں رات کراچی کے ووٹر کو غداروں کی صف میں شامل کرکے وہ کس کا ووٹ حاصل کریںگے؟
ووٹرز کی نئی نسل مصطفی کمال سے سوال کرتی ہے کہ اس نے تو آپ کی ہی جی بھائی، ہاں بھائی دیکھ کر اور ان کے یہ بیانات سن کر اگر بھائی کہیںگے دن تو ہم کہیںگے درست بھائی، اگر وہ کہیںگے رات تو ہم کہیں گے بجا، ہم نے تو ہوش سنبھال کر الطاف حسین کو نہیں دیکھا وہ جاچکے تھے ہم نے تو ان ہی مصطفی کمال، رضا ہارون اور انیس قائم خانی کی عقیدت و تابعداری دیکھ کر فیصلہ کیا تھا کہ جب اتنے سنجیدہ لوگ غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں تو پھر واقعی وہ کوئی کمال کی شہ ہوںگے اور یہی پارٹی عوام کے مسائل حل کرانے کی ہمت رکھتی ہے ، وزیراعلیٰ سندھ کو اگر ایم کیو ایم سے اختلاف یا نفرت ہے تو وہ اس کے ووٹر پر کیسے لعنت بھیجتے ہیں یا سر براہ پی ٹی آئی کراچی کی زندہ لاشوں سے کیسے امید لگا رہے ہیں نفرت کو بڑھا کر غداری قرار دے کر ان ہی ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرکے ان سے ہی ووٹ لینا چاہتے ہیں ورنہ کیا کراچی میں فرشتے ووٹ ڈالیں گے؟
دوسری جانب ایم کیو ایم ہمارا ووٹ بینک کے جس خواب گراں میں مبتلا ہے ان کوکون جھنجھوڑ کر جگائے گا؟ کیونکہ اس نوجوان نسل کا جو ایم کیو ایم کے عشق میں دانستہ یا نادانستہ مبتلا ہوگئی تھی یا ہے کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم نے کوئی سنجیدہ قوم نہ اٹھایا ، تو ہم اپنا ووٹ ضایع کردیںگے کہ ہمارا دل کسی حق دار کے حق مانگنے والوں پر لعنت بھیجنے والوں اور نہ راتوں رات پیرا شوٹ سے اتر کر کراچی کو مسخر کرنے اور وزارت اعلیٰ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے نہیں ہے در اصل یہ مشکوک لوگ ہیں ان کی بقا ان کی ترقی اور لوگوں کو خریدنا کچھ اور ہی ثابت کرتا ہے۔
بعد میں پچھتانے یا راز فاش ہونے پر خود پر ملامت کرنے کی بجائے یہ تسلی تو ہوگی کہ ہم اس صورتحال کے ذمے دار نہیں۔ ہماری نسل جو صرف اور صرف پاکستانی ہے ہم جو فرزند کراچی ہیں یہیں پیدا ہوئے پڑھے لکھے ور اب یہیں پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
ہمارا بہتر مستقبل کسی کے پاس نہیں ہے ، ہم فاقے کریں گے یا محنت مزدوری مگر پاکستان سے وفادار رہیں گے یہ ملک ہمیں کسی نے تھالی میں سجاکر نہیں دیا ہم نے باقاعدہ مہم کا آغاز کردیا ہے کہ ہم جن کو تاریک راہوں میں مارا گیا ہے اس صورتحال میں اپنا ووٹ ضایع نہیں کریں گے، جب ہم ووٹ دے کر بھی بے وقوف بنائے گئے کبھی مہاجر کوگالی دی گئی کبھی لعنت اور کبھی کراچی والوں کو زندہ لاشیں مگر کراچی کو ہاٹ کیک سمجھنے والوں کو اس بار صرف اور صرف خالی پولنگ اسٹیشنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ نوجوان بے حد پرجوش اور بہت ناراض تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ جس طرح کورم پورا نہ ہونے پر اسمبلیوں کے اجلاس ملتوی کردیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک مقررہ تعداد سے کم ووٹ کاسٹ ہونے پر انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں کیونکہ کراچی کے نوجوان اس بارکسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے ہم یہ مہم شروع کرچکے ہیں کہ ووٹرز کو اس دن گھر سے نہ نکلنے پر تیار کریں اگر نگراں حکومت واقعی انتخابات کرنا چاہتی ہے تو انتخابات سے قبل کراچی کے بیٹوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی صورت پیدا کی جائے، محترمہ ہمارا یہ فیصلہ تمام سیاسی جماعتوںتک پہنچا دیجیے ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
ان نوجوانوں نے اپنے مسائل حکمرانوں کے رویے اور سیاست دانوں کے کردار پر کھل کے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ صاحبان بست وکشاد کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے یہ نوجوان ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اس سے پہلے کہ وہ زیادہ ناراض ہوں انھیں منانے کی کوشش ضرورکی جانی چاہیے۔
ملک کے پہلے وزیراعظم کو قتل کرکے یہ پیغام دے ہی دیا گیا تھا کہ قومی خزانے سے علامتی کے علاوہ تنخواہ نہ لینے اور کسی قسم کی مراعات نہ لینے، عام سی رہائش گاہ میں رہ کر قوم کو سادہ زندگی بسر کرنے کا درس دینے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں کہ شہادت کے وقت اپنے ہاتھ سے دھوئی اور استری کی ہوئی بظاہر صاف ستھری شیروانی کے نیچے بقول کچھ لکھنے والوں کے پھٹی بنیان اور کچھ کے پھٹی قمیض تھی گویا آزاد و خود مختار ملک کے وزیراعظم کا یہ انداز حکمرانی قوم کو سر جھکانے کے مترادف تھا، جو بعد کے وزرائے اعظم نے ثابت کردیا کہ ایک غریب اور پسماندہ ملک کے وزیراعظم کو کس ٹھاٹ کی زندگی بسر کرنی چاہیے۔
شاید یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ پر آسائش طرز زندگی اور قومی دولت کی لوٹ مار پر کسی حکمران کا احتساب ہورہا ہے اور قوم کو بھی''کچھ ،کچھ'' سمجھ آہی رہا ہے لہٰذا اس کو یہی چھوڑتے ہیں اور اب کراچی کے حوالے سے سیاسی افق پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے لکھنے پر ہمیں روزہ کشائی کی ایک پر رونق تقریب میں شریک نوجوانوں کے ایک گروہ نے مائل کیا ہے اور ان کا اصرار تھا کہ آپ ہمارے خیالات کو بلا کم و کاست ضرور متعلقہ سیاست دانوں تک پہنچادیں۔
اس تقریب میں ہم اپنی میز پر موجود لوگوں سے مزمل سہروردی کے 26 مئی کے اظہاریے بعنوان ''مصطفی کمال اور سندھ کی وزارت اعلیٰ'' پر تبادلۂ خیال کررہے تھے کہ ہمارے پاس والی میز پر برا جمان نوجوانوں کی ٹولی ہمارے پاس آئی اور بڑے احترام سے کہاکہ محترمہ آپ کو زحمت نہ ہو تو آپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہماری کچھ گزارشات سن لیجیے ۔ بچے ہمیں پڑھے لکھے مہذب اور با شعور لگے ہم نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کی ساتھ جاکر بیٹھ گئے اور ان کی باتیں بغور سنیں یہ اظہاریہ ان کے خیالات کا لب لباب ہے۔
ان نوجوانوں کا کہناتھا کہ جو اپنی اوقات بھول کرکسی خوش گمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ دوسروں کو کم ازکم زبانی کلامی غداروں کی صف میں ضرور شامل کرتے ہیں جو کل کچھ نہ تھے وہ ایم کیو ایم کی وجہ سے کچھ بن کر سامنے آئے جو کارکردگی انھوں نے دکھائی وہ تنہا ان کی نہ تھی پوری پارٹی کی تنظیمی کارکردگی تھی، اکیلا میئر اتنا سب نہیں کرتا اپنی سابقہ شہرت کو مصطفی کمال کراچی میں کیش کرانا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا اپنا ووٹ بینک ہے جس کو وہ مشکوک کرنے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنا مطلب حاصل کرلیں، راتوں رات کراچی کے ووٹر کو غداروں کی صف میں شامل کرکے وہ کس کا ووٹ حاصل کریںگے؟
ووٹرز کی نئی نسل مصطفی کمال سے سوال کرتی ہے کہ اس نے تو آپ کی ہی جی بھائی، ہاں بھائی دیکھ کر اور ان کے یہ بیانات سن کر اگر بھائی کہیںگے دن تو ہم کہیںگے درست بھائی، اگر وہ کہیںگے رات تو ہم کہیں گے بجا، ہم نے تو ہوش سنبھال کر الطاف حسین کو نہیں دیکھا وہ جاچکے تھے ہم نے تو ان ہی مصطفی کمال، رضا ہارون اور انیس قائم خانی کی عقیدت و تابعداری دیکھ کر فیصلہ کیا تھا کہ جب اتنے سنجیدہ لوگ غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں تو پھر واقعی وہ کوئی کمال کی شہ ہوںگے اور یہی پارٹی عوام کے مسائل حل کرانے کی ہمت رکھتی ہے ، وزیراعلیٰ سندھ کو اگر ایم کیو ایم سے اختلاف یا نفرت ہے تو وہ اس کے ووٹر پر کیسے لعنت بھیجتے ہیں یا سر براہ پی ٹی آئی کراچی کی زندہ لاشوں سے کیسے امید لگا رہے ہیں نفرت کو بڑھا کر غداری قرار دے کر ان ہی ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرکے ان سے ہی ووٹ لینا چاہتے ہیں ورنہ کیا کراچی میں فرشتے ووٹ ڈالیں گے؟
دوسری جانب ایم کیو ایم ہمارا ووٹ بینک کے جس خواب گراں میں مبتلا ہے ان کوکون جھنجھوڑ کر جگائے گا؟ کیونکہ اس نوجوان نسل کا جو ایم کیو ایم کے عشق میں دانستہ یا نادانستہ مبتلا ہوگئی تھی یا ہے کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم نے کوئی سنجیدہ قوم نہ اٹھایا ، تو ہم اپنا ووٹ ضایع کردیںگے کہ ہمارا دل کسی حق دار کے حق مانگنے والوں پر لعنت بھیجنے والوں اور نہ راتوں رات پیرا شوٹ سے اتر کر کراچی کو مسخر کرنے اور وزارت اعلیٰ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے نہیں ہے در اصل یہ مشکوک لوگ ہیں ان کی بقا ان کی ترقی اور لوگوں کو خریدنا کچھ اور ہی ثابت کرتا ہے۔
بعد میں پچھتانے یا راز فاش ہونے پر خود پر ملامت کرنے کی بجائے یہ تسلی تو ہوگی کہ ہم اس صورتحال کے ذمے دار نہیں۔ ہماری نسل جو صرف اور صرف پاکستانی ہے ہم جو فرزند کراچی ہیں یہیں پیدا ہوئے پڑھے لکھے ور اب یہیں پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
ہمارا بہتر مستقبل کسی کے پاس نہیں ہے ، ہم فاقے کریں گے یا محنت مزدوری مگر پاکستان سے وفادار رہیں گے یہ ملک ہمیں کسی نے تھالی میں سجاکر نہیں دیا ہم نے باقاعدہ مہم کا آغاز کردیا ہے کہ ہم جن کو تاریک راہوں میں مارا گیا ہے اس صورتحال میں اپنا ووٹ ضایع نہیں کریں گے، جب ہم ووٹ دے کر بھی بے وقوف بنائے گئے کبھی مہاجر کوگالی دی گئی کبھی لعنت اور کبھی کراچی والوں کو زندہ لاشیں مگر کراچی کو ہاٹ کیک سمجھنے والوں کو اس بار صرف اور صرف خالی پولنگ اسٹیشنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ نوجوان بے حد پرجوش اور بہت ناراض تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ جس طرح کورم پورا نہ ہونے پر اسمبلیوں کے اجلاس ملتوی کردیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک مقررہ تعداد سے کم ووٹ کاسٹ ہونے پر انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں کیونکہ کراچی کے نوجوان اس بارکسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے ہم یہ مہم شروع کرچکے ہیں کہ ووٹرز کو اس دن گھر سے نہ نکلنے پر تیار کریں اگر نگراں حکومت واقعی انتخابات کرنا چاہتی ہے تو انتخابات سے قبل کراچی کے بیٹوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی صورت پیدا کی جائے، محترمہ ہمارا یہ فیصلہ تمام سیاسی جماعتوںتک پہنچا دیجیے ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
ان نوجوانوں نے اپنے مسائل حکمرانوں کے رویے اور سیاست دانوں کے کردار پر کھل کے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ صاحبان بست وکشاد کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے یہ نوجوان ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اس سے پہلے کہ وہ زیادہ ناراض ہوں انھیں منانے کی کوشش ضرورکی جانی چاہیے۔