ناقابل کنٹرول گراں فروشی
رمضان سے قبل ہی پھل ذخیرہ کرکے پہلے روزے کو پھلوں کو پر لگاکر نرخ ڈبل، کھجوروں پر ناقص تیل لگا کر چمکا لیا جاتا ہے۔
پانچ دس سالوں نہیں بلکہ عشروں سے دیکھنے میں یہی آ رہا ہے کہ رمضان المبارک جسے اﷲ پاک نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اس کی آمد سے قبل اﷲ کا خوف رکھنے والے لوگ رجب اور شعبان میں رمضان کے روزوں اور عبادات کا ذہن بناکر اس کی تیاری کرتے ہیں تو اسلام کی تعلیمات سے دور صرف رشوت اور پیسے کو اپنا ایمان سمجھنے والے لوگ رجب میں 14 شعبان کے لیے آتش بازی کا سامان تیار کراتے ہیں۔ نذر و نیاز کے لیے حلوے و دیگر اشیا بنانے والوں کو لوٹنے کے لیے ملاوٹ اور گراں فروشی کی تیاری کرلیتے ہیں ۔
14 شعبان کے بعد اﷲ کے مبارک ماہ کی آمد سے قبل مسلمانوں کو لوٹنے کی تمام تیاریاں کرلیتے ہیں بعض اشیا گوداموں میں چھپاکر مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے۔ پرانی موجود کیڑا کھائی چنے کی دال اور مکئی کو پسواکر اور اس میں گھٹیا اشیا ملاکر بیسن تیارکرایا جاتا ہے اور جانوروں کی چربی وآلائش سے گھی تیار کرا لیا جاتا ہے ۔ مضر صحت اشیا میں رنگ ملاکر مصالحے تیار کرا کر مسلمانوں کو لوٹنے کی تیاریاں مکمل کرکے رمضان کے استقبال کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
رمضان سے قبل ہی پھل ذخیرہ کرکے پہلے روزے کو پھلوں کو پر لگاکر نرخ ڈبل، کھجوروں پر ناقص تیل لگا کر چمکا لیا جاتا ہے۔ باسی پھل تازہ اور چمکتے ہوئے دکھانے کے لیے ان پر بھی کاریگری کرکے مسلمانوں پر حملہ آور ہوا جاتا ہے۔
ان بے ضمیر اور نام کے مسلمان گراں فروشوں کو پتا ہے کہ روزے داروں کو افطار کے لیے پکوڑے، کھجور اور مشروبات ہر حال میں چاہیے ہوتے ہیں۔ مشہور مشروبات بنانے والے ہر سال نرخ بڑھا کر مہنگائی میں اضافہ کرنا اپنا معمول بناچکے ہیں اور یہ مشہور شربت مہنگے ہونے کی وجہ سے غریبوں کی پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔ اس سستا فروخت کے لیے مضر صحت دو نمبر مشروب غریبوں کی مجبوری بن جاتے ہیں۔
پھلوں کا اپنا اپنا سیزن ہوتا ہے کچھ گرمی میں پیدا ہوتے ہیں کچھ سردیوں میں مگر تمام پھلوں کا سیزن رمضان ہوتا ہے اور گراں فروش اصلی شیطان کے قید میں ہونے کا فائدہ اٹھاکر اپنی شیطانیت کو عروج پر لے آتے ہیں۔ رمضان اور عید پر جس چیز کی طلب بڑھتی ہے ، گراں فروش اتنی ہی قیمت بڑھاجاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے رمضان اور عیدالفطر صرف کمانے کا مہینہ جو ہوتی ہے۔
عرب ممالک اور مسلم ممالک کی غیر مسلم کمپنیاں رمضان میں اپنی اشیا پر قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کو ریلیف دیتے ہیں اور پاکستان مسلم کمپنیاں اور نام کے مسلمان تاجر سو فی صد تک نرخ بڑھاکر اپنے مسلمان بھائیوں کو لوٹنا اپنا فرض بنائے ہوئے ہیں۔ قیمتوں پرکنٹرول کے لیے ملک میں انگریزوں کا بنایا ہوا کمشنری نظام موجود ہے۔
پہلے قیمتوں پر کنٹرول وفاق کرتا تھا جو اب صوبوں کی ذمے داری ہے، رمضان سے قبل ملک بھر میں کمشنری نظام معززین شہر اور تاجروں کے اجلاس منعقد کرکے ڈرامے کیے جاتے ہیں جو ہر ضلع میں دکھاؤے کے لیے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کرتے ہیں جو ضلع کے بادشاہ کہلاتے ہیں ۔ انگریزوں کے جانشین ان ڈپٹی کمشنروں، کمشنر واسسٹنٹ کمشنروں سے آمرکہلانے والے جنرل مشرف نے جان ضلع نظام میں چھڑادی تھی جو جمہوریت کے نام نہاد حکمرانوں نے عوام پر دوبارہ مسلط کرا دیے تھے۔
ڈپٹی کمشنر چونکہ عوام سے دور رہنے والے بادشاہ ہیں جن کی خدمت کے لیے سرکاری ملازمین کی فوج ہوتی ہے، عوام سے دور رہنے والے جاگیرداروں، سیاست دانوں اور بڑے لوگوں کے بیٹے ہی آج کل زیادہ تر ان عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ۔ اس لیے وہ اپنی اہمیت دکھانے کے لیے عوام سے دور رہتے ہیں اور جن پر راج کیا جاتا ہے وہ عوام سے دور رہنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں تو ان ڈپٹی کمشنروں کو آٹے دال کے بھاؤ کا کیا پتا، انھیں سارے سال گھر بیٹھے پھل مفت میں ملتے رہتے ہیں ۔
گوشت اور سبزیاں ان کے سرکاری ملازمین بازار سے لاکر دیتے ہیں۔ جو صاحب کے خاص اور علاقوں میں مشہور ہوتے ہیں اور صاحب کے لیے خریدی جانے والی اشیا اور سامان سستا اور معیاری ملتا ہے۔ ڈپٹی کمشنروں کے اہل خانہ کو بڑے شاپنگ مالز میں خریداری کرتے ہوئے بھاؤ تاؤکی عادت نہیں ہوتی کیونکہ یہ غریبوں کی عادت ہے ، اس لیے سرکاری خرچ پر ٹھنڈے کمروں میں رہنے والے ان ضلع بادشاہوں کے لیے رمضان اور دیگر مہینے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں تو انھیں کیا پتا کہ عوام کو رمضان المبارک میں کس عذاب میں یہ گراں فروش مبتلا کرتے ہیں ۔کمشنر اور ڈپٹی کمشنر مارکیٹوں کے دورے اپنے ان اسسٹنٹ کمشنروں، تحصیل داروں اور مختار کاروں سے کراتے ہیں جو چھوٹے بادشاہ ہوتے ہیں جنھوں نے بعد میں بڑے عہدوں پر آنا ہوتا ہے۔
رمضان سے قبل کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر غیر حقیقی نرخ مقرر کرتے ہیں۔ نرخنامے صرف دکھاؤے کے لیے ہوتے ہیں۔ گراں فروشوں کے عمل کرنے کے لیے نہیں اس لیے ہر بار رمضان آتے ہی نرخ آسمان پر نظر آتے ہیں جو صرف غریبوں کو نظر آتے ہیں۔
سرکاری نرخوں پر عمل نہیں ہوتا یہ صرف دکھاؤے کے لیے چھاپے مار کر جو جرمانے کیے جاتے ہیں۔ اس سے صرف سرکاری خزانہ بڑھتا ہے جرمانوں کی رقم گراں فروش بعد میں عوام سے وصول کرکے نقصان پورا کرلیتے ہیں اور ایسی صورتحال میں گراں فروشی پر کنٹرول کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا ہے ۔