اسلام میں حدیث کا مقام پہلا حصہ
قرآن اور حدیث اصل میں دونوں وحی ہیں صرف وحی متلو اور وحی غیر متلو وحی جَلی اور وحی خفی کا فرق ہے۔
حدیث کے لغوی معنی خبرکے ہیں اور سنت کے لفظی معنی راستہ اور طریقہ کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں حدیث آپؐ کے قول، فعل اور تقریر پر محیط ہے اور سنت آپؐ کے عمل تک محدود ہے۔ حدیث کا دائرہ کار سنت کے مقابلے میں زیادہ بسیط ہے۔ کیونکہ اس میں آپؐ کے اقوال و اعمال سب آجاتے ہیں جب کہ سنت محض آپؐ کے افعال سے بحث کرتی ہے۔
بعداز قرآن، سنت رسولؐ ہی برہان ہے اور ہماری ہدایت کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔ راہ حق کی تلاش میں کسی بھی بشر کی سنت، بشیرؐ کی سنت کی ہم سر، اور اس سے بہتر رہبر نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ خیرالبشرؐ جو کچھ بھی کہتا ہے، کرتا ہے اور دیکھتا ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ رضائے رحمن کا مکمل ترجمان ہوتا ہے۔ اس کے ثابت شدہ ہر قول اور فعل پر تصدیق الٰہی کی مہر نقش ہوتی ہے۔ اس کی ہر حالت اور کیفیت میں انداز تکلم سراسر حق ہوتا ہے۔ جیساکہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
''لکھو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔''
حدیث قرآنی احکامات کی جزئیات کی تفصیلات کی انتہائی ممکنہ وسعت کا نام ہے۔ قرآن میں سمٹی ہوئی روشنی، حدیث میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ حدیث وہ ارادہ الٰہی، وہ خردبین اور دور بین ہے جس کے ذریعے چھوٹے چھوٹے احکام اور قرآنی الفاظ کی گہرائی میں دور تک ڈوبے ہوئے مفاہیم اور مطالب، بڑے بڑے اور قریب تر واضح، صاف اور روشن نظر آتے ہیں ۔ قرآن کا بیان یعنی حدیث و سنت بذات خود قرآن نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی توسیع، توضیح اور تشریح ہے۔
قرآن اور حدیث اصل میں دونوں وحی ہیں صرف وحی متلو اور وحی غیر متلو وحی جَلی اور وحی خفی کا فرق ہے۔ حقیقت میں الکتاب اور الرسول، رشد وہدایت کی دو روشن قندیل ہیں جن کی روشنی مل کر ایک ہوتی ہے۔ قرآن میں رسول کے ہاتھ کو اللہ کا ہاتھ، رسول کی رمی کو اللہ کی رمی، رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت، رسول کے اوامر و نواہی، تحلیل و تحریم کو اللہ ہی کی طرف سے ہونا قرار دینا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ الکتاب اور الرسول میں جوہری اور ایٹمی رشتہ ہے جو ہر حال میں ناقابل انقطاع ہے۔
اللہ بہتر جانتا ہے اور انسان نہیں جانتا اسی طرح اللہ کی طرف سے صرف اس کا رسول جانتا ہے۔ انسان رضائے الٰہی کی منزل کو نہیں پہچانتا۔ النور تک نور عقل کی پارسائی کے باوجود اس کی ناپائیداری اور نارسائی کی وجہ سے نور نبوت کا سلسلہ جاری کیا گیا تاکہ انسان یقین اور اطمینان کے ساتھ رضائے الٰہی کی منزل کو پاسکے۔
نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
قرآن میں بکثرت ایسے الفاظ مستعمل ہوئے ہیں کہ ایک ماہر لسان عربی بھی صرف قرآن کے الفاظ پڑھ کر ان میں پوشیدہ مفہوم کا پتا نہیں لگا سکتا اور ان میں جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر اللہ کی مرضی کے عین مطابق عمل کرکے نہیں دکھا سکتا۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندا
الرسولؐ کی ذات نور ذات الٰہی کا مظہر ہی نہیں، سر علوم اور راز خدائی کی محرم بھی ہوتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے بیک وقت مختلف مناصب پر فائز ہوتا ہے وہ شہید، عادل، حکیم اور نور ہوتا ہے وہ حجت، برہان، مومن، صادق اور امین ہوتا ہے۔ وہ حق، مبین، محلل، محرم، آمر، ناہی، مختار اور صاحب ہوتا ہے۔ وہ خلیل، کلیم، حبیب اور منیب ہوتا ہے۔ خدا کے قاب قوسین کی طرح قریب ہونے کی وجہ سے اسرار حق کا نقیب ہوتا ہے۔ اسی لیے خدا کی رضا دیکھنے کے لیے عقل کی نظر سے نہیں نبیؐ کی نظر سے دیکھنا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر نماز کو لیجیے۔ حکم ہے ''نماز قائم کرو'' لیکن کس طرح قائم کرو اس کا پتا قرآن سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے قیام کے لیے اس کی طرف رجوع کرنا ناگزیر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے قائم کے منصب پر سرفراز فرمایا اور آپؐ کی زبان سے کہلوایا ''اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو'' قرآن میں اسلام کے ارکان کا مختصر پیغام تو ملتا ہے لیکن ان کی آن، شان اور تفصیل سے بیان، حدیث سے ملتا ہے۔
اسلام کے بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جن کا اجمالاً بھی قرآن میں بیان نہیں مثلاً شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا کا حکم۔ رضاعی بیٹی کی حرمت کا حکم، خالہ اور بھانجی، پھوپھی اور بھتیجی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کا حکم۔ بعض اوقات قرآنی احکام کا ایک دوسرے سے مطابقت اور مناسبت پیدا کرنا انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔ ایسی ہی صورتحال رمز شناس صحابہ کرام تک کو پیش آئی۔ جب سورہ انعام کی یہ آیت نمبر 82 نازل ہوئی۔
ترجمہ: ''حقیقت میں تو امن انھی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔''
یہ آیت پڑھ کر صحابہ کرامؓ کے دل کی کلی کی بے کلی دیدنی تھی۔ وہ ذہنی اور قلبی طور پر پریشان ہوگئے۔ سوچ سوچ کر ذہن تھک گیا،کیونکہ لفظ ظلم کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ انسان عقل کے لیے لفظ ظلم سے اللہ کی مراد کیا ہے پتا لگانا اتنا ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے جس طرح کسی سے یہ کہا جائے کہ میرے ذہن میں ایک سے لے کر سو تک کے اعداد میں سے ایک ہی عدد ہے بتاؤ تو جانے کہ وہ کون سا عدد ہے جو میں نے سوچ رکھا ہے۔ عقل کی حیرانی اور دل کی پریشانی کے ساتھ صحابہ کرامؓ نے در نبوت و حکمتؐ پر حاضر ہوکر آیت کی وضاحت کی درخواست کی۔ جب آپؐ نے اللہ کے عطا کردہ علم کی روشنی میں تصریح فرمائی کہ یہاں ظلم سے اللہ کی مراد شرک ہے۔ تو صحابہ کرامؓ نے اطمینان و سکون کا سانس لیا۔
احادیث اور سنن کے بغیر تو دراصل قرآن حکیم سے کماحقہ، فیض یاب ہونا ممکن نہیں۔ ان کے بغیر تو خود آیات کا مفہوم، مطلب اور مقصد مبہم اور بڑی حد تک فوت ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا تھا:
''خدا کی قسم اگر سنتؐ نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی بھی قرآن حکیم نہ سمجھ پاتا۔''
اطاعت اور اتباع رسولؐ ہی اللہ کی بندے سے، بندے کی اللہ سے محبت کی ضمانت ہے۔
زاہد خیالِ پیرویٔ مصطفیٰ رہے
پھر اس کے بعد تیری عبادت قبول ہے
جیساکہ آپؐ نے فرمایا:
''جس نے محمدؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے محمدؐ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اللہ کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں محمدؐ ہی نشان امتیاز ہیں۔''
حجۃ الوداع کے موقعے پر ایک خطبے میں آپؐ نے فرمایا:
''میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور اپنی سنت یعنی عملی زندگی جب تک انھیں تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے۔''
حضرت ابن عباس کے واسطے سے یہ فرمان نبویؐ قابل غور ہے:
''جب تمہارے سامنے کتاب اللہ سے کچھ رکھا جائے تو وہ واجب العمل ہے اس کے ترک میں کسی کے لیے عذر نہیں، اگر کوئی چیز کتاب اللہ سے نہ ہو لیکن نبیؐ کی سنت سے ہو تو وہ بھی ویسی ہی واجب التعمیل ہے۔''
اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی ہے۔ اس بات پر ایک عورت نے آپ سے اصرار کیا اور کہا کہ اس بات کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ پھر آپ نے کیسے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ آپ عورت سے مخاطب ہوئے اور کہا اگر تو بصیرت کی روشنی میں قرآن پڑھتی تو ضرور اللہ تعالیٰ کی یہ بات تجھے قرآن میں مل جاتی کیا تو نے سورۃ الحشر کی یہ آیت نہیں پڑھی۔
ترجمہ: ''جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے باز رہو۔''
عورت نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ ''رسولؐ اللہ نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے ۔ عورت نے کہا کہ اب میں مطلب سمجھ گئی۔'' جس طرح یہ رسولؐ، ید الٰہی، اطاعت رسولؐ اطاعت الٰہی، تلاوت جبرائیل، تلاوت الٰہی ہے اسی طرح فرمان رسولؐ، فرمان الٰہی کے مصداق ہے۔
نزول وحی الٰہی ہے بات بات ان کی
ارشاد نبوت دراصل وہی ہوتا ہے جو وہی ہوتی ہے یا پھر منشائے مشیت کی وضاحت ہوتی ہے۔ اللہ اور آخرت پر دل سے یقین رکھنے والوں کے لیے قرآن کی یہ مختصر سی ہدایت نہایت ہی جامع اور بصیرت افروز ہے کہ:
''بے شک اللہ کا رسولؐ تمہارے لیے بہترین نمونۂ تقلید ہے۔''
(جاری ہے۔)