کتاب جو چھپنے سے پہلے ہی پڑھ لی گئی
یہ کتاب پاک بھارت کے باہمی تعلقات اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھ کر تصنیف کی گئی تھی۔
بھارت میں چھپنے والی Spy chronicles نامی کتاب سامنے آنے سے قبل نواز شریف کا انٹرویو ملک بھر میں موضوع بحث بنا ہوا تھا ۔ کچھ حلقے انھیں ' غدار' قرار دے رہے تھے اورکچھ ان کی حمایت کررہے تھے۔ اس بحث کو بھارتی میڈیا نے ممبئی حملوں کے سلسلے میں ہوا دی تو پاکستانی میڈیا میں بھی طوفان بپا ہوگیا، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ چند دنوں کے بعد اس سے بھی بڑا طوفان آنے والا ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات اور اس کے دو اہم اداروں کو موضوع بحث بنا کر پچھلے قضیے پر چاہے کچھ دنوں کے لیے ہی سہی مگر خاموشی ضرور طاری کردے گا ۔
دہلی میں اس کتاب کی تقریب پذیرائی منعقد ہوئی تو اس میں بھارت کی سرکردہ سیاسی شخصیات نے اس لیے شرکت کی کہ یہ روایتی کتابوں سے ہٹ کر اور اپنے موضوع کے اعتبار سے چونکا دینے والی بھی تھی ۔کتابوں سے واجبی سے تعلق کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب نہیں بلکہ ایک پروجیکٹ تھا جسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ترتیب دیا گیا اور دو اہم اداروں کے سربراہان کی گفتگو کو جمع کرکے کتابی شکل میں اس وقت سامنے لایا گیا جب پاکستان اور بھارت کی سرحدی کشیدگی بھی انتہا پر ہے اور لگ بھگ دو ماہ بعد انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
کتاب کے سرورق پر امر جیت سنگھ دُلت اسد درانی اورادتیا سنہا کا نام درج ہے مگر اس کی ترتیب و تالیف کی ذمے داریوں کو ادتیہ سنہا نے ہی نبھایا ہے جو اس سے قبل اپنے ناول The CEO Who Lost His Head کی وجہ سے کافی شہرت پا چکے ہیں۔
یہ کتاب اُس ملک میں چھپی جہاں آج کل ہمارے شہریوں کو جانے کے لیے ویزہ ہی نہیں دیا جاتا اور ویزہ مل بھی جائے تو مشہور زمانہ شاعر فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی کی طرح طے شدہ پروگرام میں شرکت سے پہلے ہی واپس بھیج دیا جاتا ہے مگر اس کتاب کا پی ڈی ایف کسی افواہ کی طرح سرحدوں اور ویزے کی پرواہ کیے بغیرہمارے ملک کے شہر شہر میں دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا ۔
دہلی میں منعقدہ اس کتاب کی تقریب میں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ ، سابق نائب صدر حامد انصاری، فاروق عبداللہ ، سابق وزیر یشونت سنہا اور بہت ساری اہم شخصیات کے علاوہ کتاب کے صرف دو بھارتی مصنفین ہی شامل تھے۔ تیسرے اور انتہائی اہم مصنف اسد درانی ویزا نہ ملنے کی وجہ سے تقریب سے غیر حاضر رہے لیکن انھوں نے بھی ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنی موجودگی کا تاثر برقرار رکھا اور بھارتی Deep state کو ویزہ نہ دینے کا ذمے دار قرار دیا۔
چونکہ یہ کتاب پاک بھارت کے باہمی تعلقات اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھ کر تصنیف کی گئی تھی لہذا اس کی تقریب میں شمولیت کرنے والوں نے بھی ان ہی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جو اس کتاب میں درج تھے ۔ اس موقعے پر اگر اسد درانی بھی موجود ہوتے تو شاید ان کے اظہار خیال سے بہت ساری ایسی باتوں کی وضاحت ہو جاتی جن پر مختلف حلقے اپنے اپنے انداز سے سوالات کر رہے ہیں ، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا کہ انھیں اس کتاب کے سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو میں طلب کر لیا گیا تھا اوراس سے قبل انھیں ویزہ بھی نہ مل سکا تھا۔
طے شدہ اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی پر ایسے اہم ادارے میںان کی طلبی جہاں وہ کئی برس تک ملازم رہے معمول کی بات تھی مگر سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کتاب کی اشاعت پر تنقید کے بعد بھارتی میڈیا کے لیے یہ بھی ایک بڑی خبر بن گئی۔
ہمارے میڈیا میں اس خبر کے بعد یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ جب اسد درانی کو جواب طلبی کے لیے بلایا جا سکتا ہے تو امر جیت دُلت سے پوچھ کچھ کیوں نہیں کی جا رہی ۔اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ جنرل دُلت اس وقت بھارت کی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزی بورڈ کے ممبر ہیں اور ماضی میں پرائم منسٹر آفس کے ایڈوائز آف کشمیر بھی رہ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسائل اور امور پر ماہرانہ نظر رکھنے کے لیے بھی مشہور ہیں ، مگر جنرل اسد درانی جی ایچ کیو طلبی سے قبل ہی نہ صرف ایک اہم مقدمے میں ملوث پائے گئے بلکہ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے اپنے برتاؤ کی وجہ سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود جنرل اسد درانی کے ساتھ پیش آنے والی موجودہ صورت حال پر اس لیے کھل کرکوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی کے ساتھ فارمل کورٹ آف انکوائری کا حکم بھی آ چکا ہے۔
ساؤتھ ایشیا کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ایک دوسرے سے ملنے والے دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے اس کتاب میں درج بہت ساری باتیں نہ تو نئی ہیں اور نہ ہی ایسی کہ جن پر اس سے قبل بات نہ کی گئی ہو ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ان پر گفتگو کرنے والے دو افراد جن اداروں سے وابستہ ہیں انھوں نے ان موضوعات پر کتاب کی شکل میں پہلی دفعہ اپنی رائے کا ا ظہار کیا ہے ۔
اس کتاب سے ہماری خارجہ پالیسی یا قومی سلامتی کو جونقصان پہنچا اس کا فیصلہ کورٹ آف انکوائری کے بعد سامنے آ ہی جائے گا جس کے بعد کتاب کے موضوع بحث بننے کا نہ صرف دوبارہ امکان ہے بلکہ پاک بھارت تعلقات کے مستقبل پر مزید بہتر اور کھلے انداز سے بات بھی ہو سکے گی لیکن مصنفین کی گفتگو سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بہتر تعلقات کے لیے لڑائی جھگڑے کے بجائے بات چیت کے عمل کو جاری رکھنا ضروری ہے، چاہے اس سے کچھ بھی نتائج سامنے کیوں نہ آئیں۔
اپنے خیالات کے ذریعے جنرل درانی کو جال میں پھنسانے کی کوشش کی گئی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ، مگر بھارت میں چھپنے اور پاکستان میں چھپے بغیر ہی اس کتاب نے جس تیزی کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور میڈیا نے اسے جس انداز سے اسے اچھالاوہ انتہائی غیر معمولی بات کہی جا سکتی ہے۔
دہلی میں اس کتاب کی تقریب پذیرائی منعقد ہوئی تو اس میں بھارت کی سرکردہ سیاسی شخصیات نے اس لیے شرکت کی کہ یہ روایتی کتابوں سے ہٹ کر اور اپنے موضوع کے اعتبار سے چونکا دینے والی بھی تھی ۔کتابوں سے واجبی سے تعلق کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب نہیں بلکہ ایک پروجیکٹ تھا جسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ترتیب دیا گیا اور دو اہم اداروں کے سربراہان کی گفتگو کو جمع کرکے کتابی شکل میں اس وقت سامنے لایا گیا جب پاکستان اور بھارت کی سرحدی کشیدگی بھی انتہا پر ہے اور لگ بھگ دو ماہ بعد انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
کتاب کے سرورق پر امر جیت سنگھ دُلت اسد درانی اورادتیا سنہا کا نام درج ہے مگر اس کی ترتیب و تالیف کی ذمے داریوں کو ادتیہ سنہا نے ہی نبھایا ہے جو اس سے قبل اپنے ناول The CEO Who Lost His Head کی وجہ سے کافی شہرت پا چکے ہیں۔
یہ کتاب اُس ملک میں چھپی جہاں آج کل ہمارے شہریوں کو جانے کے لیے ویزہ ہی نہیں دیا جاتا اور ویزہ مل بھی جائے تو مشہور زمانہ شاعر فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی کی طرح طے شدہ پروگرام میں شرکت سے پہلے ہی واپس بھیج دیا جاتا ہے مگر اس کتاب کا پی ڈی ایف کسی افواہ کی طرح سرحدوں اور ویزے کی پرواہ کیے بغیرہمارے ملک کے شہر شہر میں دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا ۔
دہلی میں منعقدہ اس کتاب کی تقریب میں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ ، سابق نائب صدر حامد انصاری، فاروق عبداللہ ، سابق وزیر یشونت سنہا اور بہت ساری اہم شخصیات کے علاوہ کتاب کے صرف دو بھارتی مصنفین ہی شامل تھے۔ تیسرے اور انتہائی اہم مصنف اسد درانی ویزا نہ ملنے کی وجہ سے تقریب سے غیر حاضر رہے لیکن انھوں نے بھی ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنی موجودگی کا تاثر برقرار رکھا اور بھارتی Deep state کو ویزہ نہ دینے کا ذمے دار قرار دیا۔
چونکہ یہ کتاب پاک بھارت کے باہمی تعلقات اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھ کر تصنیف کی گئی تھی لہذا اس کی تقریب میں شمولیت کرنے والوں نے بھی ان ہی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جو اس کتاب میں درج تھے ۔ اس موقعے پر اگر اسد درانی بھی موجود ہوتے تو شاید ان کے اظہار خیال سے بہت ساری ایسی باتوں کی وضاحت ہو جاتی جن پر مختلف حلقے اپنے اپنے انداز سے سوالات کر رہے ہیں ، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا کہ انھیں اس کتاب کے سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو میں طلب کر لیا گیا تھا اوراس سے قبل انھیں ویزہ بھی نہ مل سکا تھا۔
طے شدہ اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی پر ایسے اہم ادارے میںان کی طلبی جہاں وہ کئی برس تک ملازم رہے معمول کی بات تھی مگر سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کتاب کی اشاعت پر تنقید کے بعد بھارتی میڈیا کے لیے یہ بھی ایک بڑی خبر بن گئی۔
ہمارے میڈیا میں اس خبر کے بعد یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ جب اسد درانی کو جواب طلبی کے لیے بلایا جا سکتا ہے تو امر جیت دُلت سے پوچھ کچھ کیوں نہیں کی جا رہی ۔اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ جنرل دُلت اس وقت بھارت کی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزی بورڈ کے ممبر ہیں اور ماضی میں پرائم منسٹر آفس کے ایڈوائز آف کشمیر بھی رہ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسائل اور امور پر ماہرانہ نظر رکھنے کے لیے بھی مشہور ہیں ، مگر جنرل اسد درانی جی ایچ کیو طلبی سے قبل ہی نہ صرف ایک اہم مقدمے میں ملوث پائے گئے بلکہ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے اپنے برتاؤ کی وجہ سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود جنرل اسد درانی کے ساتھ پیش آنے والی موجودہ صورت حال پر اس لیے کھل کرکوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی کے ساتھ فارمل کورٹ آف انکوائری کا حکم بھی آ چکا ہے۔
ساؤتھ ایشیا کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ایک دوسرے سے ملنے والے دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے اس کتاب میں درج بہت ساری باتیں نہ تو نئی ہیں اور نہ ہی ایسی کہ جن پر اس سے قبل بات نہ کی گئی ہو ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ان پر گفتگو کرنے والے دو افراد جن اداروں سے وابستہ ہیں انھوں نے ان موضوعات پر کتاب کی شکل میں پہلی دفعہ اپنی رائے کا ا ظہار کیا ہے ۔
اس کتاب سے ہماری خارجہ پالیسی یا قومی سلامتی کو جونقصان پہنچا اس کا فیصلہ کورٹ آف انکوائری کے بعد سامنے آ ہی جائے گا جس کے بعد کتاب کے موضوع بحث بننے کا نہ صرف دوبارہ امکان ہے بلکہ پاک بھارت تعلقات کے مستقبل پر مزید بہتر اور کھلے انداز سے بات بھی ہو سکے گی لیکن مصنفین کی گفتگو سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بہتر تعلقات کے لیے لڑائی جھگڑے کے بجائے بات چیت کے عمل کو جاری رکھنا ضروری ہے، چاہے اس سے کچھ بھی نتائج سامنے کیوں نہ آئیں۔
اپنے خیالات کے ذریعے جنرل درانی کو جال میں پھنسانے کی کوشش کی گئی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ، مگر بھارت میں چھپنے اور پاکستان میں چھپے بغیر ہی اس کتاب نے جس تیزی کے ساتھ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور میڈیا نے اسے جس انداز سے اسے اچھالاوہ انتہائی غیر معمولی بات کہی جا سکتی ہے۔