روزہ حصول ِتقوی ٰ و خدمت خلق

انسان کی زندگی کا مقصد جہاں اللہ تعالی کی عبادت ہے وہیں لوگوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی سے پیش آنا بھی ہے۔


June 01, 2018
انسان کی زندگی کا مقصد جہاں اللہ تعالی کی عبادت ہے وہیں لوگوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی سے پیش آنا بھی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ اللہ تعالی کا انسان پر خصوصی فضل ہے۔ کیوں کہ انسان نے کبھی بھی اللہ تعالی سے اس عظیم نعمت کا سوال نہیں کیا تھا کہ اسے زمین کی سب سے اعلی و ارفع مخلوق ہونے کا شرف بخشا جائے۔

یہ تو صرف اللہ تعالی کا خصوصی انعام و اکرام ہے کہ جس نے ہمیں انسان بنایا اور پھر مزید کرم یہ کیا کہ اپنے محبوب نبی کریم ﷺ کا امتی بنایا۔ اس نبی اکرم ﷺ کا امتی جو تمام انبیائے کرامؑ کے سردار ہیں۔

انسان کو یہ شرف اس لیے دیا گیا ہے کہ اس نے اللہ تعالی کی نیابت کے فرائض انجام دینے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو خبر دی کے میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں۔ انسان زمین پر اللہ تعالی کا نائب اور اس کی عظیم صفات کا مظہر ہے۔ اس مقصد کی یاد دھانی کے لیے اللہ تعالی نے گاہ بہ گاہ قرآن کریم میں آیات نازل فرمائی ہیں۔ یہ اس لیے کہ انسان اپنے کیے گئے عہد و پیماں کو یاد رکھے۔

'' ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔'' جیسی آیات سے انسان کو یاد دہانی کرائی اور کہیں سورۃ الاعلی و سورۃ العلق میں فرمایا: '' کام یاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو پاک کیا۔'' ان سب آیات میں بتایا گیا کہ انسان کی زندگی اللہ تعالی کی طرف سے دیے گئے مقصد اور تقوی کے حصول سے معنون ہے۔

تزکیۂ نفس اور تقوی کے حصول میں جو کردار روزے کو حاصل ہے وہ شاید کسی اور عبادت کو نہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز میں انسان کا نفس سرکش اور باغی ہوجاتا ہے۔ اس سرکشی کو دوبارہ اطاعت پر لانے کے لیے اللہ تعالی اپنی حکیمانہ بصیرت کے مطابق اپنے بندوں کو ایسے معمولات میں لگا دیتا ہے، جن سے بندے دوبارہ کامل ، اکمل اور مکمل درجے میں رب کی طرف لوٹتے ہیں۔

انسان کے نفس کو قابو کرنے کے لیے تین چیزیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ نفس کی خواہشات اور شہوت پر قابو پایا جائے۔ اسی لیے رمضان المبارک میں ایک مخصوص وقت تک کے لیے انسان کی لذتوں اور عام طور پر حلال و جائز اشیاء پر بھی پابندی عاید کر دی جاتی ہے۔ جیسا کہ ایک سرکش گھوڑے کو خالی پیٹ رکھا جاتا ہے، جس کے باعث وہ اپنے مالک کا تابعدار رہتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے اس نے اپنے مالک ہی طرف لوٹنا ہے۔ بالکل اسی طرح انسان پر اس کی جائز اشیاء کو حرام کر دیا جاتا ہے تاکہ انسان میں اطاعت و بندگی کا جذبہ باقی رہے۔

نفس پر قابو پانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بندوں پر عبادات کا بہت سا بوجھ ڈال دیا جائے ۔ جس طرح ایک جانور کو بھوکا رکھا جائے اور اس پر بہت سا بوجھ ڈال دیا جائے تو اس کی سرکشی دب جاتی ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ یہی میرا مالک ہے اور اسی سے میرا رزق وابستہ ہے۔ اس لیے وہ سرکشی سے باز رہتا ہے۔ انسان پر عبادت کا بوجھ ڈالا جاتا ہے تو وہ سرکشی کے بہ جائے مزید اطاعت گزار ہونے لگتا ہے۔

نفس پر قابو پانے کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان خود اس حال میں ہوجائے کہ وہ اللہ تعالی سے مدد مانگنے والا بن جائے اور اس کا اظہار ایک روزہ دار اسی وقت کرلیتا ہے جب وہ روزے رکھنے کی نیت سے روزے کی دعا پڑتا ہے۔

اگر غور سے سوچا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نفس پر قابو پانے کے یہ تینوں طریقے روزے میں پائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ انسان کی زندگی کا مقصد جہاں اللہ تعالی کی عبادت ہے وہیں لوگوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی سے پیش آنا بھی ہے۔

درد دل کے واسطے، پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

یہی فلسفہ روزے میں بھی موجود ہے۔ کیوں کہ انسان کسی کے دکھ درد اور غم کا اسی وقت صحیح اندازہ لگا سکتا ہے کہ جب وہ خود بھی اس سے نبرد آزما ہوچکا ہو۔ حالت روزہ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے سے بڑا آدمی جب ایک بار بھوک اور پیاس کی شدت چکھ چکا ہوتا ہے تو اس کے دل میں ان غریبوں اور مانگنے والوں کی قدر آہی جاتی ہے جن کے پاس دو وقت کھانے کی روٹی بھی نہیں ہوتی۔ جن کے پاس پہننے کا لباس اور رہنے کو جھونپڑی تک میسر تک نہیں ہوتی۔ ایک روزے دار کو حقیقتا اسی وقت اس کا احساس ہوتا ہے جب وہ خود روزہ رکھتا ہے۔ جب ایک امیر و رئیس آدمی روزے کی وجہ سے اپنی بُری حالت دیکھتا ہے تو اسے غریب کے ان بچوں کا احساس ہونے لگتا ہے جو بھوک اور پیاس کے باعث بلبلا رہے ہوں۔

اگر اللہ کی طرف سے روزے کا یہ عظیم دینی فریضہ نہ ہوتا تو کبھی بھی کسی امیر کبیر شخص کو خدمت خلق اور ہم دردی کا احساس تک نہ ہوتا۔ نہ اسے کسی کی تکلیف کا دکھ ہوتا اور نہ ہی وہ کسی کی خستہ حالی پر نادم ہوتا۔ یہ تو اللہ تعالی کا بندوں پر احسان ہے کہ اس نے عوام الناس کو باہم جوڑنے کے لیے ایسے راہ نما اصول بیان کیے ہیں جو ایک طرف تو دنیاوی اعتبار سے مفید ہیں تو دوسری طرف اخروی نجات کا باعث بھی ہیں۔

آئیے عزم کریں کہ روزے کو اس کی حقیقی روح کے مطابق گزاریں گے۔ گناہوں سے بچتے ہوئے ، نیک اعمال میں لگ جائیں۔ جہاں اپنے لیے بہترین سحر و افطاری کریں وہیں تنگ دست لوگوں کے ساتھ بھی تعاون کریں۔

خلیل الرحمن ربانی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں