وفاقی کابینہ کے الوداعی اجلاس میں اصغر خان کیس پر غور
جنرل بیگ اوردرانی کیخلاف کارروائی کامعاملہ سب کمیٹی پرچھوڑدیا گیا
سبکدوش ہونیوالی وفاقی کابینہ اپنے آخری اجلاس میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اصغر خان کیس میں ریٹائرڈ جرنیلوں کیخلاف کارروائی کیلئے کوئی پالیسی وضع کرنے میں ناکام رہی اور معاملہ سب کمیٹی پر چھوڑ دیا۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس حکومتی مدت کے خاتمے کے آخری دن سبکدوش ہونیوالے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اگرچہ اجلاس میں 19 نکاتی ایجنڈا منظور کیا گیا جس میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے مراعات میں اضافہ بھی شامل تھا تاہم کابینہ نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود سابق جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اسد درانی کیخلاف کارروائی کیلئے طریقہ کار وضع کرنے کا معاملہ گول کردیا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے اصغر خان کیس کا معاملہ آگے بڑھانے میں وفاقی کابینہ کی ناکامی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ چیف جسٹس نے لاہور رجسٹری میں سماعت کے دوران حکومتی وکیل کو حکم دیا تھا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس بلاکر یہ معاملہ دیکھا جائے اور کوئی فیصلہ کرکے ہمیں آگاہ کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کے کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے وزیراعظم کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کو کارروائی شروع کرنیکا حکم دیا جائے تاہم وزیراعظم کا خیال تھا کہ یہ معاملہ کابینہ کے دائرے میں نہیں آتا۔
مزید غور کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ معاملہ متعلقہ پینل کے سپرد کیا جائے کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا اصغر خان کیس میں نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں یا نہیں۔ مارچ میں وفاقی کابینہ نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے حوالے سے ایک سب کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس سے قبل 8 مئی کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس میں اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف کارروائی کیلئے وفاقی حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ نے اصغر خان کیس کے 2012 کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔
بنچ نے ریمارکس دیئے تھے کہ حکومت فیصلہ کرے کہ کیسے دونوں افسران کیخلاف کارروائی کی جائے۔ حکام کے مطابق عدالت عظمیٰ نے کچھ عرصہ قبل سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کے قیام کی بھی ہدایت کی تھی تاہم کابینہ نے یہ معاملہ بھی چھوڑ دیا۔
علاوہ ازیں وفاقی کابینہ تمام وفاقی ملازمین کو تین ماہ کا اعزازیہ دینے کے وزیراعظم کے حالیہ اعلان سے دستبردار ہوگئی اور کہا کہ یہ فیصلہ قابل عمل نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق کابینہ نے صرف ایف بی آر، پلاننگ کمیشن، وزارت خزانہ اور بجٹ سازی میں شامل متعلقہ اداروں کے ملازمین کو اعزازیہ دینے کی منظوری دی۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس حکومتی مدت کے خاتمے کے آخری دن سبکدوش ہونیوالے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اگرچہ اجلاس میں 19 نکاتی ایجنڈا منظور کیا گیا جس میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے مراعات میں اضافہ بھی شامل تھا تاہم کابینہ نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود سابق جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اسد درانی کیخلاف کارروائی کیلئے طریقہ کار وضع کرنے کا معاملہ گول کردیا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے اصغر خان کیس کا معاملہ آگے بڑھانے میں وفاقی کابینہ کی ناکامی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ چیف جسٹس نے لاہور رجسٹری میں سماعت کے دوران حکومتی وکیل کو حکم دیا تھا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس بلاکر یہ معاملہ دیکھا جائے اور کوئی فیصلہ کرکے ہمیں آگاہ کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کے کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے وزیراعظم کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کو کارروائی شروع کرنیکا حکم دیا جائے تاہم وزیراعظم کا خیال تھا کہ یہ معاملہ کابینہ کے دائرے میں نہیں آتا۔
مزید غور کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ معاملہ متعلقہ پینل کے سپرد کیا جائے کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا اصغر خان کیس میں نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں یا نہیں۔ مارچ میں وفاقی کابینہ نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے حوالے سے ایک سب کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس سے قبل 8 مئی کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس میں اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف کارروائی کیلئے وفاقی حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ نے اصغر خان کیس کے 2012 کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔
بنچ نے ریمارکس دیئے تھے کہ حکومت فیصلہ کرے کہ کیسے دونوں افسران کیخلاف کارروائی کی جائے۔ حکام کے مطابق عدالت عظمیٰ نے کچھ عرصہ قبل سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کے قیام کی بھی ہدایت کی تھی تاہم کابینہ نے یہ معاملہ بھی چھوڑ دیا۔
علاوہ ازیں وفاقی کابینہ تمام وفاقی ملازمین کو تین ماہ کا اعزازیہ دینے کے وزیراعظم کے حالیہ اعلان سے دستبردار ہوگئی اور کہا کہ یہ فیصلہ قابل عمل نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق کابینہ نے صرف ایف بی آر، پلاننگ کمیشن، وزارت خزانہ اور بجٹ سازی میں شامل متعلقہ اداروں کے ملازمین کو اعزازیہ دینے کی منظوری دی۔