نیب نے رینٹل پاور کیس میں پرویز اشرف سمیت تمام ملزموں کو کلین چٹ دیدی
سپریم کورٹ سے غلط بیانی کرتے ہوئے گزشتہ روز تحقیقات کیلیے مزید وقت مانگا گیا
لاہور:
قومی احتساب بیورو (نیب) نے خاموشی سے رینٹل پاور پلانٹس کیسز کی تحقیقات بند کرتے ہوئے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف سمیت تمام ملزمان کو کلین چٹ دیدی جبکہ سپریم کورٹ میں نیب کے وکیل نے گزشتہ روز موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں تحقیقات کیلئے مزید ایک ماہ کا وقت درکار ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ کیسز کی تحقیقات پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہونے سے تین روز قبل بند کی گئیں۔ 13 مارچ کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں 192 میگاواٹ کے پیراں غائب رینٹل پاور پروجیکٹ کی انکوائری بند کی گئی اور موقف اختیار کیا گیا کہ کیس میں مالی بے ضابطگی اور بدنیتی ثابت نہیں ہوسکی اور صرف پیسے بچانے کیلئے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی۔ نیب نے قومی خزانے کو 2 کروڑ کا نقصان پہنچانے والے 150 میگاواٹ کے ساہووال(سیالکوٹ) میں ٹیکنو انجینئرنگ سروسز لمیٹڈ کیساتھ معاہدے کے حوالے سے کریشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات بھی بند کر دی ہیں۔
ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے کے مطابق تفتیشی افسران مالی بے ضابطگی کے ثبوت اکٹھے کرنے میں ناکام رہے اور کسی کی بدنیتی ثابت نہیں ہوسکی۔ سرکاری افسران کیخلاف انکوائری بند کی گئی ہے مگر کمپنی کیخلاف نہیں۔ اس حوالے سے پراسیکیوشن ڈویژن اور دیگر متعلقہ اداروں کو خط ارسال کردیا گیا ہے۔ خط میں ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ نیب کے موقف سے ثابت ہوتا ہے کہ ادارے نے سکینڈل میں ملوث کوئی بڑی مچھلی پکڑنے کی بجائے تمام ملزمان کو کلین چٹ دیدی ہے۔
اس صورتحال میں عدالت عظمیٰ اور نیب کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں اس سے قبل ہی چیئرمین نیب کو توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے۔ پیراں غائب کیس کی تحقیقات بند ہونے سے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، سابق سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق،سابق سیکرٹری پانی و بجلی شاہد رفیع، سابق سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اسماعیل قریشی، سابق پیپکو سربراہان منور بصیر، طاہر بشارت چیمہ، فضل احمد خان، رفعت بٹ، محمد انور خان، قیصر اکرم، مسعود اختر، ارشد رضا، رانا امجد، اعجاز بابر اور اقبال زیڈ احمد نے سکھ کا سانس لیا ہوگا۔
دوسری طرف گزشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے رینٹل پاور کیس کی سماعت کی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اب تک ہونے والی پیشرفت پر مبنی رپورٹ جمع کرائی۔ انہوں نے چار ہفتے کے اندر تمام کارروائی مکمل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت چار ہفتے کا وقت دے تو اس کیس میں تفتیش سے لیکر چالان پیش کرنے تک تمام کارروائی مکمل کرکے حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ این این آئی کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے چیئرمین نیب کی جانب سے بھجوائی گئی خفیہ دستاویزات اور 12رینٹل پاور منصوبوں کے حوالے سے الگ الگ رپورٹیں جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر وقار حسن کہتے ہیں کہ تحقیقات دسمبر 2013تک مکمل ہوںگی، یہ ذمے داری تفتیشی افسرکی نہیں، چیئرمین نیب کی ہے کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر ملوث افرادکیخلاف کارروائی کریں اور عدالتی احکامات کی تعمیل کریں۔ پراسیکیوٹرجنرل نیب نے کہا کہ انہیں معاملے پر ہدایت لینا ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی نیب افسران مزید وقت مانگ رہے ہیں،ذمے داروں کیخلاف ابھی تک کارروائی نہ کرنا افسران کی نااہلی ہے۔نیب ٹال مٹول کے بجائے ملزمان کیخلاف تحقیقات کرے۔ چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے کہا عدالت کا وقت ضائع مت کیا جائے، کیس میں ایمانداری سے تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو چیئرمین نیب سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کریں۔
آن لائن کے مطابق کے کے آغانے چیئرمین نیب کی جانب سے بھجوائی گئی دستاویزات کے پیرا نمبر 10کوخفیہ رکھنے کی استدعاکی جوعدالت نے منظورکرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قومی دولت کسی کو لوٹنے نہیں دینگے نیب کوکافی وقت دے دیا اس کے بعد وقت نہیں دینگے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصلے پر عملدرآمدکی یقین دہانی کرانے پر سماعت27 مئی تک ملتوی کردی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے خاموشی سے رینٹل پاور پلانٹس کیسز کی تحقیقات بند کرتے ہوئے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف سمیت تمام ملزمان کو کلین چٹ دیدی جبکہ سپریم کورٹ میں نیب کے وکیل نے گزشتہ روز موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں تحقیقات کیلئے مزید ایک ماہ کا وقت درکار ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ کیسز کی تحقیقات پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہونے سے تین روز قبل بند کی گئیں۔ 13 مارچ کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں 192 میگاواٹ کے پیراں غائب رینٹل پاور پروجیکٹ کی انکوائری بند کی گئی اور موقف اختیار کیا گیا کہ کیس میں مالی بے ضابطگی اور بدنیتی ثابت نہیں ہوسکی اور صرف پیسے بچانے کیلئے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی۔ نیب نے قومی خزانے کو 2 کروڑ کا نقصان پہنچانے والے 150 میگاواٹ کے ساہووال(سیالکوٹ) میں ٹیکنو انجینئرنگ سروسز لمیٹڈ کیساتھ معاہدے کے حوالے سے کریشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات بھی بند کر دی ہیں۔
ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے کے مطابق تفتیشی افسران مالی بے ضابطگی کے ثبوت اکٹھے کرنے میں ناکام رہے اور کسی کی بدنیتی ثابت نہیں ہوسکی۔ سرکاری افسران کیخلاف انکوائری بند کی گئی ہے مگر کمپنی کیخلاف نہیں۔ اس حوالے سے پراسیکیوشن ڈویژن اور دیگر متعلقہ اداروں کو خط ارسال کردیا گیا ہے۔ خط میں ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ نیب کے موقف سے ثابت ہوتا ہے کہ ادارے نے سکینڈل میں ملوث کوئی بڑی مچھلی پکڑنے کی بجائے تمام ملزمان کو کلین چٹ دیدی ہے۔
اس صورتحال میں عدالت عظمیٰ اور نیب کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں اس سے قبل ہی چیئرمین نیب کو توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے۔ پیراں غائب کیس کی تحقیقات بند ہونے سے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، سابق سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق،سابق سیکرٹری پانی و بجلی شاہد رفیع، سابق سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اسماعیل قریشی، سابق پیپکو سربراہان منور بصیر، طاہر بشارت چیمہ، فضل احمد خان، رفعت بٹ، محمد انور خان، قیصر اکرم، مسعود اختر، ارشد رضا، رانا امجد، اعجاز بابر اور اقبال زیڈ احمد نے سکھ کا سانس لیا ہوگا۔
دوسری طرف گزشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے رینٹل پاور کیس کی سماعت کی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اب تک ہونے والی پیشرفت پر مبنی رپورٹ جمع کرائی۔ انہوں نے چار ہفتے کے اندر تمام کارروائی مکمل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت چار ہفتے کا وقت دے تو اس کیس میں تفتیش سے لیکر چالان پیش کرنے تک تمام کارروائی مکمل کرکے حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ این این آئی کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے چیئرمین نیب کی جانب سے بھجوائی گئی خفیہ دستاویزات اور 12رینٹل پاور منصوبوں کے حوالے سے الگ الگ رپورٹیں جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر وقار حسن کہتے ہیں کہ تحقیقات دسمبر 2013تک مکمل ہوںگی، یہ ذمے داری تفتیشی افسرکی نہیں، چیئرمین نیب کی ہے کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر ملوث افرادکیخلاف کارروائی کریں اور عدالتی احکامات کی تعمیل کریں۔ پراسیکیوٹرجنرل نیب نے کہا کہ انہیں معاملے پر ہدایت لینا ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی نیب افسران مزید وقت مانگ رہے ہیں،ذمے داروں کیخلاف ابھی تک کارروائی نہ کرنا افسران کی نااہلی ہے۔نیب ٹال مٹول کے بجائے ملزمان کیخلاف تحقیقات کرے۔ چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے کہا عدالت کا وقت ضائع مت کیا جائے، کیس میں ایمانداری سے تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو چیئرمین نیب سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کریں۔
آن لائن کے مطابق کے کے آغانے چیئرمین نیب کی جانب سے بھجوائی گئی دستاویزات کے پیرا نمبر 10کوخفیہ رکھنے کی استدعاکی جوعدالت نے منظورکرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قومی دولت کسی کو لوٹنے نہیں دینگے نیب کوکافی وقت دے دیا اس کے بعد وقت نہیں دینگے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصلے پر عملدرآمدکی یقین دہانی کرانے پر سماعت27 مئی تک ملتوی کردی۔