بدلتی دنیا میں پاکستان کا کردار
مسلسل تنقید کی زد میں رہنے کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی خوبی کے ساتھ چند نئے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
تیزی سے گلوبلائزڈ ہوتی دنیا میں، ہمارا جغرافیہ ہماری سب سے بڑی خوش قسمتی ہے، ایک جانب جنوبی ایشیا تو دوسری جانب وسطی ایشیا اور مشرق وسطی، جیو پالیٹکس میں اسے ہماری برتری کا سبب ہونا چاہئے تھا۔
پاکستان کی قومی ریاست کو آغاز ہی سے خطرات کا سامنا رہا، مشرقی سرحد پر بھارت اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا اور مغربی سرحد پر افغانستان نے نو تشکیل شدہ ریاست کی سرحدیں تسلیم نہیں کیں۔ قیام کے فوری بعد پیش آنے والے ان مسائل نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی یہ سمت متعین کی کہ ہمیں اپنی بقا کے لیے دنیا میں مستحکم اور مضبوط حمایت کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان اتحادی کے طور پر اگر امریکا کے بجائے سوویت یونین کی جانب ہاتھ بڑھاتا تو اس کے کیا نتائج نکلتے، اس بارے میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ سماجی اور ذہنی سطح پر ہماری ابتدائی قیادت کے لیے، دنیا میں شروع ہونے والی سرد جنگ میںامریکا فطری انتخاب ٹھہرا، پاکستانی فوج ہتھیاروں اور آلات اور دفاعی ضروریات کے لیے امریکا پر انحصار کرتی تھی۔ سیٹو اور سینیٹو میں شمولیت نے ہماری خارجہ پالیسی کو مزید محدود کردیا۔
پاک امریکا تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے۔ کم ہی کسی کو یاد ہوگا کہ 1960میں سوویت یونین نے جو یو ٹو طیارہ مار گرایا تھا، جسے گیری پاؤرز اڑا رہا تھا، اس نے پشاور کے نزدیک بڈابیر ایئر بیس سے پرواز بھری تھی۔ وہ ہمارے لیے ایک انتہائی نازک مرحلہ تھا کیوں کہ خورشیف نے ہمیں جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔اگرچہ دہائیوں سے پاکستان امریکی مفاد کو خطے اور دنیا میں آگے بڑھانے کے لیے اس کا ساتھ دیتا رہا لیکن 1963میں چین کے ساتھ ہونے والا سرحدی معاہدہ اس طرز عمل سے بالکل برعکس فیصلہ تھا۔
80کی دہائی اور2001میں شروع ہونے والی دونوں افغان جنگوں سے عیاں ہوگیا ہے کہ اس دوران ہمارے مفادات یکساں نہیں رہے۔ کشمیر اور مشرقی پاکستان جیسے مسائل ، جنھیں پاکستان اپنے قومی مفادات میں سرفہرست تصور کرتا ہے، کے لیے امریکیوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ نکسن اور کسنجر نے صرف بحیرہ ہند میں چھٹے فلیٹ کی علامتی موجودگی ہی سے ہماری جانب ''جھکاؤ''ظاہر کرنے پر اکتفا کیا۔ امریکا نے ہمیشہ سیلاب، زلزلوںاور طوفانوں جیسی قدرتی آفات میں ہماری غیرمعمولی مدد کی ہے، اگر یہ مدد میسر نہ آتی تو لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوتا۔ ہمیں اس کے لیے ہمیشہ ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والی دو قطبی دنیا بھی ختم ہوگئی۔ نام نہاد ''غیر جانب دار'' بلاک، جس کی قیادت بھارت کے پاس تھی، سوویت یونین کے سقوط سے قبل ہی اپنی اہمیت کھوچکا تھا۔ یہ سرمایہ داری کی کسی بھی متبادل طرز حیات و ترقی کے خلاف حتمی فتح تھی، جس میں امریکی جنگی مشینری نے انتہائی بنیادی کردار ادا کیا۔ دو دہائی سے زاید ہو چکے، دنیا یک قطبی ہے، عالمی بالادستی کے لیے پچاس برس سے زائد سر توڑ کوششوں کے بعد آج دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
سیموئل ہنٹنگٹن کے پیش کردہ تصور ''تہذیبوں کا تصادم'' میں اسلام اور تیل و گیس کے ذخائر رکھنے والے ممالک کو اپنا نیا دشمن قرار دیا۔ روس جیسے شکست خوردہ دیو کو چند برسوں سے صرف عالمی طاقت کے کھیل میں جونئیر پارٹنر کا کردار دیا گیا۔
نو گیارہ کے واقعات نے عالمی سطح پر جاری دنیا میں کشیدگی کی ایک نئی لہر پیدا کی اور سوویت یونین کے بعد روس اور چین کے مابین بننے والے نئے تعلقات سے دنیا پر اپنا اقتدار جمانے والے غافل رہے۔1992میں ان دونوںنے بحال ہونے والے رابطوں کو ''تعمیری شراکت داری'' قرار دیا، 1996میں یہ تعلق ''اسٹریٹجک پارٹنر شپ'' میں تبدیل ہوگیا اور2001میں ان دونوںکے مابین ''دوستی و تعاون'' کا معاہدہ ہوا، اسی معاہدے سے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن نے جنم لیا۔
یوریشیا میں بننے والی یہ تنظیم یورپی یونین کے قیام کی بنیاد یاد دلاتی ہے۔نئے ارکان کی شمولیت سے اس تنظیم نے نئے اقتصادی اور سلامتی سے متعلق اہم ترین مسائل پر ارکان کو یکجا کرکے ایشیائی ممالک کے باہمی تعلقات کی نوعیت یکسر تبدیل کردی ہے۔پاکستان اور بھارت بھی 2017ء سے اس کے رکن ہیں لیکن اس سے از خود ہمارے مسائل حل نہیں ہوجائیں گے۔
ایل او سی پر ہونے والی فائرنگ اور اچانک بڑھتے اشتعال کو دیکھتے ہوئے کیا کسی تبدیلی کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ شنگھائی تعاون تنطیم(ایس سی او) بحرانوں میں حل کی راہیں اور مذاکرات کے مواقع پیدا کرنے والا پلیٹ فورم ہے۔ عرب مشرق وسطی شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور مدت سے عدم استحکام کا شکار بھی، لیکن ایشیا کی مرکزی سرزمین انتشار سے محفوظ ہے۔
اقتصادی تعاون تنظیم(ای سی او)، خاموشی کے ساتھ ، معاہدہ بغداد، سینیٹو اور علاقائی تعاون تنظیم کی جگہ لے چکی ہے۔ آر سی ڈی میں صرف تین ممالک شامل تھے جب کہ خطے کے بارہ سے زائد ممالک ای سی او کے رکن ہیں۔ کیا یہ معاہدۂ بغداد کو ''بر عکس'' کرنے کی کاوش ہے، جس میں امریکا اور برطانیہ کے بجائے روس اور چین ایران، ترکی اور پاکستان کو ایک صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں؟
مسلسل تنقید کی زد میں رہنے کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی خوبی کے ساتھ چند نئے مواقع حاصل کرنے میں کام یاب رہی ہے۔ سلامتی سے متعلق روس اور چین کے ساتھ روابط بڑھانے سے افغانستان میں جاری امن عمل میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ فوج نے حقانیوں اور سوات و فاٹا میں موجود مسلح گروہ کا صفایا کرکے قبائلی علاقوں میں استحکام قائم کردیا اور اس کے ساتھ غیرقانونی مداخلت کو روکنے کے لیے سرحد پر باڑ بھی لگائی جارہی ہے۔
قبائلی علاقوں کو پاکستان کے ساتھ مکمل طور پر ضم کرنے کے لیے قانونی بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں۔ پاکستان کے خلاف افغان سول اور فوجی حلقوں میں پائے جانے والے عناد کے باوجود، امریکا کو بہرحال افغانستان میں اپنے مقاصد کے حوالے سے ہمارے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
پاکستان جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے مابین پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ خطے کے استحکام کے لیے ہماری خارجہ پالیسی ہماری اس ذمے دارانہ کردار کی عکاس ہونی چاہئے۔پاکستان کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ہوں گے اور اس کے لیے ہمیں کسی علاقائی ہمسائے کے بغیر تشکیل پانے والے کسی بھی بلاک میں شمولیت سے گریز کرنا چاہئے۔ یمن جنگ سے فاصلہ اور انسداد دہشت گردی کے لیے سعودی عرب کے بنائے گئے اتحاد میں شمولیت، پڑوسی ایران اور دیرینہ دوست سعودی عرب سے تعلقات کے مابین توازن کی مثال ہے۔
اسی طرح ہمیں اپنے دیرینہ اتحادی امریکا، گہرے دوست چین اور روس کے ساتھ قائم ہونے والے نئے روابط کے مابین توازن قائم کرنا ہوگا۔ سی پیک ہمارے لیے ایک عظیم معاشی محرک ہے، ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ چین کے لیے اسٹرٹیجک ضرورت ہے۔ ہمیں امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے بھی ہرممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا قومی مفاد اسی میں ہے کہ وہ کسی بھی بلاک کا رکن نہ بنے اور سبھی بلاکس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں، یہ کالم پاک امریکا تعلقات پران کے سلسلۂ مضامین کا چھٹا اور آخری حصہ ہے)
پاکستان کی قومی ریاست کو آغاز ہی سے خطرات کا سامنا رہا، مشرقی سرحد پر بھارت اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا اور مغربی سرحد پر افغانستان نے نو تشکیل شدہ ریاست کی سرحدیں تسلیم نہیں کیں۔ قیام کے فوری بعد پیش آنے والے ان مسائل نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی یہ سمت متعین کی کہ ہمیں اپنی بقا کے لیے دنیا میں مستحکم اور مضبوط حمایت کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان اتحادی کے طور پر اگر امریکا کے بجائے سوویت یونین کی جانب ہاتھ بڑھاتا تو اس کے کیا نتائج نکلتے، اس بارے میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ سماجی اور ذہنی سطح پر ہماری ابتدائی قیادت کے لیے، دنیا میں شروع ہونے والی سرد جنگ میںامریکا فطری انتخاب ٹھہرا، پاکستانی فوج ہتھیاروں اور آلات اور دفاعی ضروریات کے لیے امریکا پر انحصار کرتی تھی۔ سیٹو اور سینیٹو میں شمولیت نے ہماری خارجہ پالیسی کو مزید محدود کردیا۔
پاک امریکا تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے۔ کم ہی کسی کو یاد ہوگا کہ 1960میں سوویت یونین نے جو یو ٹو طیارہ مار گرایا تھا، جسے گیری پاؤرز اڑا رہا تھا، اس نے پشاور کے نزدیک بڈابیر ایئر بیس سے پرواز بھری تھی۔ وہ ہمارے لیے ایک انتہائی نازک مرحلہ تھا کیوں کہ خورشیف نے ہمیں جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔اگرچہ دہائیوں سے پاکستان امریکی مفاد کو خطے اور دنیا میں آگے بڑھانے کے لیے اس کا ساتھ دیتا رہا لیکن 1963میں چین کے ساتھ ہونے والا سرحدی معاہدہ اس طرز عمل سے بالکل برعکس فیصلہ تھا۔
80کی دہائی اور2001میں شروع ہونے والی دونوں افغان جنگوں سے عیاں ہوگیا ہے کہ اس دوران ہمارے مفادات یکساں نہیں رہے۔ کشمیر اور مشرقی پاکستان جیسے مسائل ، جنھیں پاکستان اپنے قومی مفادات میں سرفہرست تصور کرتا ہے، کے لیے امریکیوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ نکسن اور کسنجر نے صرف بحیرہ ہند میں چھٹے فلیٹ کی علامتی موجودگی ہی سے ہماری جانب ''جھکاؤ''ظاہر کرنے پر اکتفا کیا۔ امریکا نے ہمیشہ سیلاب، زلزلوںاور طوفانوں جیسی قدرتی آفات میں ہماری غیرمعمولی مدد کی ہے، اگر یہ مدد میسر نہ آتی تو لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوتا۔ ہمیں اس کے لیے ہمیشہ ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والی دو قطبی دنیا بھی ختم ہوگئی۔ نام نہاد ''غیر جانب دار'' بلاک، جس کی قیادت بھارت کے پاس تھی، سوویت یونین کے سقوط سے قبل ہی اپنی اہمیت کھوچکا تھا۔ یہ سرمایہ داری کی کسی بھی متبادل طرز حیات و ترقی کے خلاف حتمی فتح تھی، جس میں امریکی جنگی مشینری نے انتہائی بنیادی کردار ادا کیا۔ دو دہائی سے زاید ہو چکے، دنیا یک قطبی ہے، عالمی بالادستی کے لیے پچاس برس سے زائد سر توڑ کوششوں کے بعد آج دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
سیموئل ہنٹنگٹن کے پیش کردہ تصور ''تہذیبوں کا تصادم'' میں اسلام اور تیل و گیس کے ذخائر رکھنے والے ممالک کو اپنا نیا دشمن قرار دیا۔ روس جیسے شکست خوردہ دیو کو چند برسوں سے صرف عالمی طاقت کے کھیل میں جونئیر پارٹنر کا کردار دیا گیا۔
نو گیارہ کے واقعات نے عالمی سطح پر جاری دنیا میں کشیدگی کی ایک نئی لہر پیدا کی اور سوویت یونین کے بعد روس اور چین کے مابین بننے والے نئے تعلقات سے دنیا پر اپنا اقتدار جمانے والے غافل رہے۔1992میں ان دونوںنے بحال ہونے والے رابطوں کو ''تعمیری شراکت داری'' قرار دیا، 1996میں یہ تعلق ''اسٹریٹجک پارٹنر شپ'' میں تبدیل ہوگیا اور2001میں ان دونوںکے مابین ''دوستی و تعاون'' کا معاہدہ ہوا، اسی معاہدے سے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن نے جنم لیا۔
یوریشیا میں بننے والی یہ تنظیم یورپی یونین کے قیام کی بنیاد یاد دلاتی ہے۔نئے ارکان کی شمولیت سے اس تنظیم نے نئے اقتصادی اور سلامتی سے متعلق اہم ترین مسائل پر ارکان کو یکجا کرکے ایشیائی ممالک کے باہمی تعلقات کی نوعیت یکسر تبدیل کردی ہے۔پاکستان اور بھارت بھی 2017ء سے اس کے رکن ہیں لیکن اس سے از خود ہمارے مسائل حل نہیں ہوجائیں گے۔
ایل او سی پر ہونے والی فائرنگ اور اچانک بڑھتے اشتعال کو دیکھتے ہوئے کیا کسی تبدیلی کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ شنگھائی تعاون تنطیم(ایس سی او) بحرانوں میں حل کی راہیں اور مذاکرات کے مواقع پیدا کرنے والا پلیٹ فورم ہے۔ عرب مشرق وسطی شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور مدت سے عدم استحکام کا شکار بھی، لیکن ایشیا کی مرکزی سرزمین انتشار سے محفوظ ہے۔
اقتصادی تعاون تنظیم(ای سی او)، خاموشی کے ساتھ ، معاہدہ بغداد، سینیٹو اور علاقائی تعاون تنظیم کی جگہ لے چکی ہے۔ آر سی ڈی میں صرف تین ممالک شامل تھے جب کہ خطے کے بارہ سے زائد ممالک ای سی او کے رکن ہیں۔ کیا یہ معاہدۂ بغداد کو ''بر عکس'' کرنے کی کاوش ہے، جس میں امریکا اور برطانیہ کے بجائے روس اور چین ایران، ترکی اور پاکستان کو ایک صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں؟
مسلسل تنقید کی زد میں رہنے کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی خوبی کے ساتھ چند نئے مواقع حاصل کرنے میں کام یاب رہی ہے۔ سلامتی سے متعلق روس اور چین کے ساتھ روابط بڑھانے سے افغانستان میں جاری امن عمل میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ فوج نے حقانیوں اور سوات و فاٹا میں موجود مسلح گروہ کا صفایا کرکے قبائلی علاقوں میں استحکام قائم کردیا اور اس کے ساتھ غیرقانونی مداخلت کو روکنے کے لیے سرحد پر باڑ بھی لگائی جارہی ہے۔
قبائلی علاقوں کو پاکستان کے ساتھ مکمل طور پر ضم کرنے کے لیے قانونی بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں۔ پاکستان کے خلاف افغان سول اور فوجی حلقوں میں پائے جانے والے عناد کے باوجود، امریکا کو بہرحال افغانستان میں اپنے مقاصد کے حوالے سے ہمارے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
پاکستان جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے مابین پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ خطے کے استحکام کے لیے ہماری خارجہ پالیسی ہماری اس ذمے دارانہ کردار کی عکاس ہونی چاہئے۔پاکستان کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ہوں گے اور اس کے لیے ہمیں کسی علاقائی ہمسائے کے بغیر تشکیل پانے والے کسی بھی بلاک میں شمولیت سے گریز کرنا چاہئے۔ یمن جنگ سے فاصلہ اور انسداد دہشت گردی کے لیے سعودی عرب کے بنائے گئے اتحاد میں شمولیت، پڑوسی ایران اور دیرینہ دوست سعودی عرب سے تعلقات کے مابین توازن کی مثال ہے۔
اسی طرح ہمیں اپنے دیرینہ اتحادی امریکا، گہرے دوست چین اور روس کے ساتھ قائم ہونے والے نئے روابط کے مابین توازن قائم کرنا ہوگا۔ سی پیک ہمارے لیے ایک عظیم معاشی محرک ہے، ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ چین کے لیے اسٹرٹیجک ضرورت ہے۔ ہمیں امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے بھی ہرممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا قومی مفاد اسی میں ہے کہ وہ کسی بھی بلاک کا رکن نہ بنے اور سبھی بلاکس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں، یہ کالم پاک امریکا تعلقات پران کے سلسلۂ مضامین کا چھٹا اور آخری حصہ ہے)