چورن بیچنے کے دن پھر آگئے
رنگ برنگے کپڑے پہن کر نئی نئی خو شنما خوبصورت بوتلیں تھامے چورن بیچنے والے جگہ جگہ نظرآئیں گے۔
لیجیے حضور انتخابات کے دن پھر آگئے، چورن بیچنے والوں کے دن پھرآگئے اب پھر شہر شہر،گلی گلی، محلہ محلہ وہ ہی پرانے چورن نئے نئے ناموں سے نئی نئی بوتلوں میں پھر بیچے جائیں گے پھر دوبارہ سے نئے نئے ناموں سے نئی نئی دکانیں کھلیں گی رنگ برنگے کپڑے پہن کر نئی نئی خو شنما خوبصورت بوتلیں تھامے چورن بیچنے والے جگہ جگہ نظرآئیں گے۔
بلند آواز میں چیختے چلاتے کہ ووٹ کو عزت دو، ہم پھر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کریں گے، ہم ہی لوگوں کو روزگار دیں گے، ہم پھر ملک سے مہنگائی ، غربت، افلاس کا خاتمہ کر دیںگے ہم ہی پھر سے ملک سے پانی اور گیس کی قلت دور کریں گے، ہم ہی تمہیں دوبارہ سے غلامی سے آزادی دلوائیں گے ۔
ہر چورن پر بڑے بڑے وعدوں اور دعو ؤں کے ساتھ ہر مسئلے کا حل پیش کیا جائے گا ہر پریشانی کا تو ڑ بتا دیا جائے گا ایسے ایسے خوبصورت اور دلکش خواب دکھائے جائیں گے کہ لوگ جنت کے خواب تک بھول جائیں گے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ہر چورن کی تاثیر اور اس کی افادیت پر بڑے بڑے دھواں دار جس کی وجہ سے فضا دم بھر میں آلودہ ہوجائے گی ، لیکچر دیں گے، ایسی ایسی دانشورانہ باتیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آئیں گی کی جائیں گی جس کی وجہ سے دنیا بھر کے فلسفی اپنی اپنی قبروں میں تڑپ تڑپ جائیں گے۔ ایسے ایسے منصوبے بتائیں جائیں گے، جو دنیا بھر کے تمام منصوبہ سازوں کی سمجھ سے باہر ہوں گے ۔
اس وقت ہر چورن فروش نئی نئی تقاریر لکھوانے میں مصروف ہے، ان کے زیر خرید لوگ موٹی موٹی کتابیں کھولے ان میں غرق ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے کچھ اور لوگ ملک بھر میں پھیل گئے ہیں اور وہ بیس کروڑ انسانوں کو لاحق مسائل اور مشکلات جمع کرتے پھر رہے ہیں، بیس کروڑ انسانوں کی بے کسیاں اور بے بسیاں نوٹ بکوں میں درج کی جارہی ہیں ۔ ڈیٹول کے کریٹ کے کریٹ خرید جا رہے ہیں رومال بازاروں سے غائب ہونا شروع ہوگئے ہیں یہ دونوں اشیاء اس وقت کام میں آئیں گی جب چورن فروش غلیظ ، بدبودار اور گندگیوں سے اٹی ہوئی بستیوں میں اپنا چورن بیچنے جائیں گے ، غریب ، لاچار ، فقیر ، خوفناک بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو گلے لگا کر ان کے ساتھ تصویریں بنانے کی مشقوں کا آغاز ہوچکا ہے اور ان سے ہمدردی جتانے کے لیے نئے نئے طریقوں پر غوروخوض جاری ہے ۔
ایک بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے ان چورن فروشوں سے چمٹے پیدا گیروں کی خوشی کاعالم تو دیکھے سے دیکھا نہیں جارہا ہے کیونکہ ان کی پیدا گیری کے دن آگئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کام سے لے کر بڑے کام تک ہرکام میں خوب خوب پیدا گیری ہوگی ۔ ان پیداگیروں کے گھر والے توان سے زیادہ خوش ہیں ، فرمائشی پروگراموں کی لسٹ پہ لسٹ تیارکی جارہی ہے۔ خوشی کا یہ عالم ہے کہ گھروں میں عید کا گمان ہو رہا ہے۔
دوسری طرف وہ ہی بیس کروڑ غریب ، فقیر ، حقیر ، بے بس ، بے کس ، غلام ، مجبور، بیمار انسان ہیں جنہیں ابھی تک پرانے چورنوں کے عذابوں سے ہی نجات نہیں مل پائی ہے وہ اس خوف سے لرزاں ہیں کہ انہیں وہ ہی پرانے چورن نئے نئے ناموں سے پھر دیے جائیں گے ۔ ایک بار پھر انہیں بے وقوف بنایا جائے گا اور انتخابات ختم ہوتے ہی انہیں ایک بار پھر واپس جہنم میں دھکیل دیا جائے گا ۔
آپ ایک جلا د کو ذہن میں لائیں جس نے تمام زندگی انسانوں پر تشدد کر نے اور ان کے سر قلم کرنے میں گزاری ہو، کسی مایوس شرابی کا خیال کریں یا چشم تصور سے کسی پاگل کو دیکھیں جس نے تمام عمر ایک تاریک کوٹھڑی میں بسر کی ہو، ان انسانوں سے اگر آپ زندگی کا مطلب یا مقصد پوچھیں تو وہ ایک لمحے کے توقف کے بغیر اسے کائنات کی بد ترین اور قابل نفرت شے قرار دیں گے ۔ اسی طرح آپ اگر بیس کروڑ عام پاکستانیوں میں سے کسی سے بھی زندگی کا مطلب یا مقصد پوچھیں گے تو وہ بھی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسے کائنا ت کی بد ترین اور قابل نفرت شے قرار دے دے گا۔
اس کے نزدیک زندگی ایک ناختم ہونے والی اذیت، نہ ختم ہونے والی تکلیف ، نہ ختم ہونے والی مصیبت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔آپ عام پاکستانی کو چلیں چھوڑیں ایسا کریں آپ دنیا بھرکے تمام خوشحال ، ترقی یافتہ ، مہذب ممالک میں سے کسی بھی شہری کو صرف ایک مہینے کے لیے ایک عام پاکستانی بن کر زندگی گزارنے کا تجربہ فراہم کردیں وہ صرف چند دنوں بعد ہی اذیت، تکلیف سے چلا چلا کر آسمان سر پر اٹھا لے گا ، آپ خوشحال ، ترقی یافتہ، مہذب ممالک کے شہری کو بھی چھوڑیں ۔
ایسا کریں کہ چورن بیچنے والوں میں سے کسی ایک کو صرف چند دنوں کے لیے پاکستان کی غریبوں کی کسی بھی ایک بستی میں یرغمال بنا کر رکھ چھوڑیں اور اسے ایک عام پاکستانی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیں وہ صرف ایک ہی دن میں جی ہاں صرف ایک ہی دن میں اگر یرغمال بنانے والوں کے پیر نہ پکڑ لے اور اپنی رہائی کے لیے اپنا سب کچھ دینے پر تیارنہ ہوجائے تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا اور زندگی بھر چورن بیچنے کی توبہ نہ کرلے تو بھی ہم مجرم اور قصور وار ہوں گے۔
اس لیے خدا کے واسطے ملک کے بیس کروڑ جیتے جاگتے انسانوں پر ترس کھاؤ ۔ انہیں بھی انسان ہی اور اپنا بھائی سمجھو ۔خدارا ہر قسم کے چورن بیچنا بند کردو۔ آؤ ،اپنے ماضی پر معافی مانگتے ہوئے ملک کے بیس کروڑ انسانوں کو سچے دل سے گلے لگا لو انہیں اپنا بھائی تسلیم کرلو۔ ان کو بھی جینے کا حق دے دو۔ اور ان کے حقوق انہیں واپس لوٹا دو۔